یعنی جيسے جوؤں،کھجلی ياخارش وغيرہ کسی عذرکے بغير عاقل بالغ مرد يامخنث(ہیجڑے) کا خالص ريشم يا ايسا لباس پہننا جس کا اکثر حصہ وزن کے اعتبار سے ريشم ہو، ظاہراً ريشم نظر آنے کا اعتبار نہيں۔
(1)۔۔۔۔۔۔امير المؤمنين حضرت سيدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''ريشم مت پہنا کرو کيونکہ جو دنيا ميں ريشم پہنے گا وہ آخرت ميں نہ پہن سکے گا۔''
( صحیح مسلم ،کتاب اللباس ، والزینۃ ، باب تحریم لبس الحریر ، الحدیث ۵۴۱۰، ص ۱۰۴۹)
(2)۔۔۔۔۔۔نسائی شریف میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبير رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :''جو دنيا ميں ريشم پہنے گا وہ جنت ميں داخل نہ ہو گاپھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی ۔''
وَلِبَاسُہُمْ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ ﴿23﴾
ترجمۂ کنز الایمان: اور وہاں ان کی پوشاک ريشم ہے۔(پ17، الحج:23)
(السنن الکبرٰی للنسائی،سورۃ الحج،باب قولہ تعالیٰ ''ولباسہم فیہاحریر '' الحدیث:۱۱۳۴۳،ج۶ص۴۱۱)
(3)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''ريشم وہی پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہيں۔''بخاری شريف کی روايت ميں يہ اضافہ ہے :''جس کا آخرت ميں کوئی حصہ نہيں۔''
( صحیح البخاری ،کتاب اللباس،باب لبس الحریر للرجال۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۵۸۳۵، ص ۴۹۷)
(4)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو دنيا ميں ريشم پہنے گا وہ آخرت ميں نہ پہن سکے گا اگرچہ وہ جنت ميں داخل بھی ہو جائے تو اہلِ جنت تو ريشم پہنيں گے مگر وہ نہ پہن سکے گا۔'' (صحیح ابن حبان،کتاب اللباس وآدابہ،الحدیث:۵۴۱۳،ج ۷ ،ص۳۹۷)
( 5) ۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے دنیا میں ریشم پہنا آخرت میں نہ پہن سکے گا۔ــــ''
(صحیح البخاری ،کتاب اللباس ، باب لبس الحریر للرجال ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۵۸۳۴، ص ۴۹۷)
(6)۔۔۔۔۔۔امير المؤمنين حضرت سيدنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِيم روايت فرماتے ہيں کہ ميں نے شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ديکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ريشم کو دائيں ہاتھ ميں اور سونے کو بائيں ہاتھ ميں پکڑکر ارشاد فرمايا :''يہ دونوں چيزيں ميری اُمت کے مردوں پر حرام ہيں۔''
( سنن ابی داؤد،کتاب اللباس ،باب فی الحریر للنساء، الحدیث ۴۰۵۷ ، ص ۱۵۱۹)
(7)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے دنيا ميں ريشم پہنا وہ آخرت ميں نہ پہن سکے گا، جس نے دنيا ميں شراب پی وہ آخرت ميں نہ پی سکے گا اور جس نے دنيا ميں سونے چاندی کے برتنوں ميں پانی پيا وہ آخرت ميں ان کے ذریعے نہ پی سکے گا۔'' پھر ارشاد فرمايا :''اہلِ جنت کا لباس ریشم،اہل جنت کا مشروب شرابِ طہور اوراہل جنت کے برتن سونے کے ہيں۔''
( المستدرک،کتاب الاشربہ ، باب من لبس الحریر فی الدنیا ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۷۲۹۸، ج۵ ،ص۱۹۵)
(8)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن زبيررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ میں يہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا گيا :''اپنی عورتوں کو ريشم کا لباس نہ پہناؤ کيونکہ ميں نے امير المؤمنين حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دل کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''ريشم مت پہنا کرو کيونکہ جو دنيا ميں ريشم پہنے گا وہ آخرت ميں نہ پہن سکے گا۔''
( صحیح مسلم ،کتاب اللباس ، باب تحریم لبس الحریر ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث ۵۴۱۰ ، ص ۱۰۴۹ )
(9)۔۔۔۔۔۔نسائی شريف کی روايت ميں يہ اضافہ ہے :''اور جو آخرت ميں ریشم نہ پہن سکے وہ جنت ميں داخل نہ ہو گا کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے :
وَلِبَاسُہُمْ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ ﴿23﴾
ترجمۂ کنز الایمان: اور وہاں ان کی پوشاک ريشم ہے۔(پ17، الحج:23)
( السنن الکبرٰی للنسائی،کتاب الزینۃ ، باب لبس الحریر ، الحدیث:۹۵۸۴،ج۵،ص۴۶۵)
(10)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدناعقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے گھر والوں کو زیور اور ريشم سے منع کرتے اور ارشاد فرماتے :''اگر تم جنت کے زیور اور ريشم کو پسند کرتے ہو تو دنيا ميں يہ دو چيزيں نہ پہنا کرو۔''
( المستدرک،کتاب اللباس ، باب من کان یومن باللہ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۷۴۸۰، ج۵ ،ص ۲۶۹)
حضرت سيدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کااس وعيد کہ''جو دنيا ميں اسے پہنے گا آخرت ميں نہ پہن سکے گا۔'' سے یہ سمجھنا کہ یہ عورتوں اور ان کی مثل ان افراد کے حق ميں بھی جاری ہو تی ہے جن کے لئے اس کاپہننا جائز ہے، فقط احتياط کی بناء پر تھا، ورنہ عورتوں کے لئے اس کے استعمال کے جوازسے يہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہيں آخرت ميں ريشم کے استعمال سے منع نہ کيا جائے گا۔
(11)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت ميں ريشم کی ايک قبا تحفۃ ً پيش کی گئی، جس کا پچھلا حصہ چاک تھا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے زيب تن فرما کر نماز ادا فرمائی، پھر جب نماز پوری ہو گئی تو اسے زورسے کھینچ کر اُتاردیاگویاکہ اُسے ناپسند فرماتے ہوں، پھر ارشاد فرمايا :''پرہيز گاروں کو ايسا لباس نہيں پہننا چاہے۔''
( صحیح مسلم ،کتاب اللباس ، باب تحریم لبس الحریر ۔۔۔۔۔۔للرجال ، الحدیث ۵۴۲۷، ص۱۰۴۹ )
(12)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :'' ميں نے مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :''جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اسے چاہے کہ اپنا ٹھکانا جہنم ميں بنا لے۔'' اور ميں تمہيں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ميں نے سرکارِ مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ''جس نے دنيا ميں ريشم پہنا وہ آخرت ميں اس سے محروم رہے گا۔''
(صحیح ابن حبان ،کتاب اللباس وآدابہ،الحدیث:۵۴۱۲،ج۷،ص۳۹۶)
(13)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ''شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہميں سونے چاندی کے برتنوں ميں کھانے پينے اور ريشم و ديباج(کے کپڑے)پہننے يا ان پر بيٹھنے سے منع فرمايا ہے۔''
( صحیح البخاری ،کتاب اللباس، باب افتر اش الحریر ، الحدیث ۵۸۳۷، ص ۴۹۸)
(14)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''جو اللہ عزوجل کی ملاقات اور اس کے حساب کی اميد رکھتا ہے وہ ريشم سے(بطورِپہننے یااس پربیٹھنے کے)فائدہ نہ اٹھائے۔'' ( المسند للامام احمد بن حنبل ، الحدیث ۲۲۳۶۵، ج۸ ، ص ۳۰۶)
(15)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سروَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''دنيا ميں ريشم وہی پہنتا ہے جسے آخرت ميں ريشم پہننے کی اُميد نہيں ہوتی۔''
( المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرۃ، الحدیث ۸۳۶۳ ، ج۳ ،ص۲۲۱)
(16)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :''ان لوگوں کا کياحال ہے کہ اپنے نبی علیہ السلام کی طرف سے اتنی سخت وعيديں پہنچنے کے باوجود بھی وہ ريشم کو اپنے لباس يا گھروں ميں استعمال کرتے ہيں۔'' (المرجع السابق)
(17)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر،سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''اس اُمت ميں ایک قوم کھانے پينے اور لہو ولعب ميں مشغول ہو کر رات گزارے گی، پھر صبح اس حال ميں کرے گی کہ ان کی شکلیں بگڑکر خنزير اور بندر ہو چکی ہوں گی اور ان کے ساتھ دھنسانے اور پتھر برسانے کا معاملہ ہو گا يہاں تک کہ لوگ صبح کريں گے تو کہيں گے :''آج رات فلاں قوم دھنسا دی گئی، آج رات فلاں کے گھر کو دھنسا ديا گيا۔''اور ان پر آسمان سے پتھر برسائے جائيں گے جيسا کہ قومِ لوط کے قبيلوں اور گھروں پر برسائے گئے اور ا ن کی طرف سخت ہوا بھيجی جائے گی جيسا کہ قومِ عاد کے قبيلوں اور گھروں کی طرف بھيجی گئی، يہ ان کے شراب پينے، ريشم پہننے،گانے والی عورتیں اپنانے ،سود کھانے اور قطع رحمی کی وجہ سے ہو گا۔''
(الترغیب والترھیب ،کتاب الحدود ، التر ھیب من شرب الخمر ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث ۳۵۹۴ ،ج۳ ، ص ۱۹۹)
(18)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''ميری اُمت ميں ايسی قوميں ضرور ہوں گی جو ريشم کو حلال جانيں گی ان ميں سے کچھ لوگ قيامت تک کے لئے خنزير اور بندر بنا دئيے جائيں گے۔''
( سنن ابی داؤد،کتاب اللباس،باب ماجاء فی الخز،الحدیث۴۰۳۹،ص۱۵۱۸)
(19)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، باِذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''جب ميری اُمت پانچ چيزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ہلاکت ميں مبتلا ہوجائے گی (۱)ايک دوسرے پر لعنت کرنا (۲)لوگوں کاشراب پينا (۳)ريشم کا لباس پہننا (۴)گانے والی عورتیں رکھنااور (۵) مردوں کامردوں پراور عورتوں کا عورتوں پر اکتفاء کرنا ۔''
( مجمع الزوائد ،کتاب الفتن ،باب ثان فی امارات الساعۃ، الحدیث ۱۲۴۷۹ ، ج۷ ، ص ۶۴۰)
(20)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کے پاس حاضرہونے کی اجازت چاہی وہ ريشم کے تصوير والے گدے سے ٹيک لگائے ہوئے تھا، پس اس نے تکيہ فوراًہٹا ديا اور آپ سے کہنے لگا:''میں نے يہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خاطر ہٹايا ہے۔'' توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا :''تُو کتنا اچھا آدمی ہے اگر تو ان لوگوں ميں سے نہيں جن کے بارے ميں اللہ عزوجل نے يہ ارشاد فرمايا ہے :
اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰتِکُمْ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا
ترجمۂ کنز الایمان : ان سے فرمايا جائے گا تم اپنے حصہ کی پاک چيزيں اپنی دنيا ہی کی زندگی ميں فنا کر چکے۔(پ26، الاحقاف:20)
خدا عزوجل کی قسم! مجھے اس کے ساتھ ٹيک لگانے سے دہکتے ہوئے انگاروں پر بيٹھنا زيادہ پسند ہے۔''
( الترغیب والتر ھیب ،کتاب اللباس والزینۃ ، باب ترھیب الرجال من لبس ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۳۱۶۱ ، ج۳ ، ص ۶۷)
(21)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ريشم کی جيب والا ايک جبہ ديکھا تو ارشاد فرمايا :''يہ قيامت کے دن آگ کا طوق ہے۔''
(المعجم الاوسط ، الحدیث ۸۰۰۰، ج۶، ص ۶۲)
يہ حکم کناروں سے ريشم والے جبے کے علاوہ کا ہے اوراس کی دليل يہ ہے کہ سرکار ابد قرار، شافع روز شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ايک جبہ تھا جو کناروں سے ريشم کا تھا۔
(تلخیص الحبیر،کتاب صلاۃ العیدین،الحدیث:۶۷۹،الجزء۲،ص۸۱)
(22)۔۔۔۔۔۔شاہ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے ريشمی لباس پہنا اللہ عزوجل اسے بروزِقيامت ایک دن آگ یاآگ کا لباس پہنائے گا۔''
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۷۰ /۱۷۱،ج ۲۴،ص ۶۵)
(23)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے کہ رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے دنيا ميں ريشم کا لباس پہنا اللہ عزوجل اسے جہنم میں ذلت کا لباس يا جہنم کا لباس پہنائے گا۔'' ( مجمع الزوائد ،کتاب اللباس ، باب ماجاء فی الحریر والذھب ، الحدیث:۸۶۴۴ ،ج ۵،ص ۲۴۹)
(24)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے :''جس نے ريشمی لباس پہنا اللہ عزوجل اسے پورے ایک دن آگ کا لباس پہنائے گا جو تمہارے دنوں جيسا نہ ہو گابلکہ اللہ عزوجل کے ايام بہت طويل ہيں۔''
( مجمع الزوائد،کتاب اللباس ، باب ماجاء فی الحریر والذھب ، الحدیث ۸۶۴۶ ،ج ۵،ص ۲۵۰)
0 Comments: