یعنی عاقل و بالغ مرد کا سونے یاچاندی کازيورپہنناجیسے سونے کی انگوٹھی یاانگوٹھی کے علاوہ چاندی کا زیور پہننا
(1)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جو اللہ عزوجل اور آخرت پر ايمان رکھتا ہے اسے چاہے کہ ريشم اور سونا ہرگز نہ پہنے۔''
(المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث:، ۲۲۳۱۱ ،ج۸ ،ص ۲۹۳)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدناعبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ''نبی کريم، رء ُوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے''ميرا جو اُمتی اس حال میں مراکہ شراب پيتاتھا اللہ عزوجل جنت ميں اس پر( جنتی) شراب پينا حرام کر دے گا اور ميرا جو اُمتی اس حال میں مراکہ دنيا ميں سونے کا زيور پہنتاتھا اللہ عزوجل جنت ميں اس پر سونا پہننا حرام فرما دے گا۔''
( المسند للامام احمد بن حنبل ، الحدیث:۶۹۶۶، ج۲ ،ص ۶۵۹)
(3)۔۔۔۔۔۔رسول اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ايک شخص کے ہاتھ ميں سونے کی انگوٹھی ديکھی تو اسے اتار کر پھينک ديا اور ارشاد فرمايا ''تم ميں سے کوئی آگ کے انگارے کاارادہ کرتا ہے پھر اسے اپنے ہا تھ ميں رکھ ليتا ہے۔'' حضورنبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گيا :''اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اسے بیچ کر نفع اٹھاؤ۔'' تو اس نے کہا :''خداعزوجل کی قسم! جس انگوٹھی کو اللہ کے رسول عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پھينک ديا ميں اسے ہر گز نہيں اٹھاؤں گا۔''
( صحیح مسلم ،کتاب اللباس والزینۃ ، تحریم خاتم الذھب علی۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث: ۵۴۷۲ ، ص ۱۰۵۲)
(4)۔۔۔۔۔۔نجران سے ايک شخص شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ ميں حاضر ہوا، اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس سے اپنارخِ انور پھير ليا اور ارشاد فرمايا :''تم اس حال ميں ميرے پاس آئے ہو کہ تمہارے ہاتھ ميں آگ کا انگارہ ہے۔''
( سنن النسائی ،کتاب الزینۃ ، باب حدیث ابی ھریرۃ والاختلاف علی ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۵۱۹۱، ص ۲۴۲۱)
(5)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :''عورتوں کو دو سرخ چيزوں يعنی سونے اور زرد رنگ سے رنگے ہوئے لباس نے ہلاکت ميں ڈال ديا۔''
( صحیح ابن حبان ،کتاب الرھن ،باب ماجاء فی الفتن ، الحدیث: ۵۹۳۷، ج۷ ، ص ۵۸۳)
(6)۔۔۔۔۔۔سرکارِمدینہ،قرارِقلب وسینہ،فیضِ گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:''مجھے خواب ميں دکھايا گيا کہ ميں جنت ميں داخل ہوا تو ميں نے جنت کی اعلیٰ منزلوں ميں مہاجرین فقرأ اور مؤمنين کی اولاد کو پايا جبکہ عورتوں اور اغنياء ميں سے ايک بھی وہاں نہ تھا، پھر مجھے بتايا گيا:''اغنياء تو جنت کے دروازے پر ہيں ان سے حساب ليا جا رہا ہے اور ان کے گناہ زائل کئے جا رہے ہيں جبکہ عورتوں کو سونے اور ريشم نے غفلت ميں ڈال ديا ہے۔''
(الزہدالکبیرللبیہقی،فصل فی ترک الدنیا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۴۴۵،ص۱۸۵)
اس حدیثِ پاک سے پچھلی حدیثِ پاک کے الفاظ''عورتوں کے لئے ہلاکت ہے۔'' کے معنی بھی معلوم ہوگئے کہ يہ دونوں چيزيں عورتوں کے بھلائی سے غافل ہونے اوراُس سے روگردانی کرنے کا سبب ہيں، ظاہری معنی مراد نہيں کیونکہ يہ دونوں چيزيں بالاجماع عورتوں کے لئے حلال ہيں۔
تنبیہ:
ريشم پہننے کو گناہ کبيرہ ميں شمار کرنا گذشتہ صحيح احادیثِ مبارکہ ميں آنے والی سخت وعيد سے ظاہر ہے مگر ہمارے جمہور شافعی ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک ريشم پہننا صغيرہ گناہ ہے، شايد ان کی نظر کبيرہ گناہ کی اس تعريف پر ہے کہ ''جس گناہ پر سزا لازم آئے وہ کبيرہ ہے۔'' حالانکہ ہم بيان کر چکے ہیں کہ صحيح قول اس کے خلاف ہے، لہٰذا ان احادیثِ مبارکہ ميں غور کرتے وقت اس بات کونظر انداز نہيں کيا جا سکتاکہ ان( احادیثِ مبارکہ) ميں سخت اور حتمی وعيدکی بناء پريہ عمل کبيرہ گناہ ہے، سیدنا جلال بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وغيرہ نے اسی کو اختيار کيا اور امام الحرمين بھی اسی طرف مائل ہوئے اور جس سونے کےپہننے کو ميں نے کبيرہ گناہ شمار کيا ہے وہ مذکورہ احادیثِ مبارکہ ميں موجود سخت وعيد کی بناء پر کبيرہ کہلانے ميں ريشم سے زيادہ اَولیٰ ہے جبکہ ميرے نزديک چاندی کے زيورات کو اس حکم کے ساتھ ملحق کرنے کابھی احتمال ہے اگرچہ اس ميں يہ فرق بيان کرنا ممکن ہے کہ سونے کے استعمال کا گناہ زيادہ سخت ہے، اسی لئے ہمارے بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمايا''مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ چاندی کے بعض زيورات پہننابھی جائزہے۔'' جبکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے چاندی کی انگوٹھی کے جائزبلکہ مستحب ہونے اور سونے کی انگوٹھی کے حرام ہونے پر اتفاق کيا ہے۔۱؎
۱؎ :صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ''مرد کو زيورپہننا مطلقاً حرام ہے صرف چاندی کی ايک انگوٹھی جائز ہے جو وزن ميں (نگينے کے علاوہ ) ايک مثقال يعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو۔'' (بہار شريعت، ج۲، حصہ ۱۶، ص ۴۹)
۲؎:احناف کے نزديک:'' چار انگل کے برابر بيل بوٹے اور مصحف کا جزدان ريشم کا بنانا وغيرہ جائز ہے ليکن مجنون اور قريب البلوغ بچے کو سونے،چاندی کے زيورات پہنانا حرام ہے اور ريشم کے بچھونے پر بيٹھنا،ليٹنا اور اس کا تکيہ لگانا جائز ہے ريشم کے پردے دروازوں پر لٹکانا مکروہ ہے۔''
( بہار شريعت ج۲،حصہ ۱۶،ص ۴۰،۴۱)
۳؎ :احناف کے نزديک:'' غير ذی روح يعنی بے جان کی تصوير سے مکان آراستہ کرنا جا ئز ہے جيسا کہ طغرے اور کتبوں سے مکان کو سجانے کا رواج ہے۔''
(بہار شريعت ج۲،حصہ ۱۶،ص ۱۲۹)
0 Comments: