مذکورہ گناہوں کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرنا بالکل ظاہر ہے اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے، بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فخرتکبراور خودپسندی وغیرہ کو انیسواں کبیرہ گناہ شمار کیا ہے، عنقریب اس کی مکمل وضاحت باب اللباس میں آئے گی، اور انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل گزشتہ مروی احادیثِ مبارکہ کوہی بنایا ہے چنانچہ،شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں :''جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔''
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر، الحدیث:۲۶۷،ص۶۹۴)
اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان:
وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ
ترجمۂ کنز الایمان:اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں۔(پ18، النور:31)
کی وضاحت میں تفسیرِ قرطبی میں لکھا ہے کہ''اگر ان عورتوں نے ایسا مردوں کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی غرض سے کیا تو یہ حرام ہے اور اسی طرح اُن مرد وں کے لئے بھی ایسا کرنا حرام ہے جو خود پسندی کے زعم میں زور زور سے زمین پر جوتے پٹخاتے ہیں کیونکہ خود پسندی کبیرہ گناہ ہے۔''
تکبر یا اللہ عزوجل کے مقابلہ میں ہو گا جو کہ تکبر کی سب سے بُری قسم ہے جیسے فرعون، اور نمرود کا تکبر کہ انہوں نے اللہ عزوجل کی بندگی سے انکار کردیا اورربوبیت کا دعوی کر بیٹھے، چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیۡنَ ﴿٪60﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے (تکبر کرتے)ہیں عنقر یب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر۔(پ24، المؤمن: 60)
(2) لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ
ترجمۂ کنز الایمان:مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ نفرت نہیں کرتا۔(پ6، النساء: 172)
یا اللہ عزوجل کے رسول کے مقابلہ میں ہو گا، اس کی صورت یہ ہے کہ تکبر،جہالت اورعنادکی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنا جیسا کہ اللہ عزوجل نے کفارِ مکہ اور دیگر اُمتوں کے کافروں کی حکایات بیان فرمائی ہيں یا پھر بندوں کے مقابلہ میں ہوگا، وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کراور دوسرے کو حقیر جان کر اس کی اطاعت سے انکار کرنا، اُس پربڑائی چاہنا اور مساوات کو ناپسند کرنا، یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر ہے مگر اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے کیونکہ کبریائی اور عظمت بادشاہِ حقیقی عزوجل ہی کے لائق ہے نہ کہ عاجزاور کمزور بندے کے لائق، لہٰذا بندے کا تکبر کرنا اللہ عزوجل کے ساتھ اس کی ایسی صفت میں جھگڑنا ہے جو اسی مالک عزوجل کے لائق ہے، متکبر بندہ گویا اس شخص کی طرح ہے جس نے کسی بادشاہ کا تاج پہنا اور پھر اس کے تخت پر بیٹھ گیا، تو اس کی ناراضگی کے مستحق ہونے اور جلد ہی ذلیل ورسوا ہوجانے کا کیا عالم ہو گا؟ اسی لئے بیان شدہ حدیث مبارکہ میں اللہ عزوجل نے فرمایا :''جو میری عظمت اور کبریائی میں میرے ساتھ جھگڑا کریگا میں اسے ہلا ک کر دوں گا۔''مرا د یہ ہے کہ یہ دونوں صفات اللہ رب العزت عزوجل ہی کے ساتھ خاص ہیں لہٰذاان میں جھگڑاکرنے والا صفا ت اِلٰہیہ میں جھگڑا کرنے والا ہے، اسی طرح بندوں پر اپنی بڑائی بیان کر نا بھی اللہ عزوجل کے ہی لائق ہے لہٰذا جو بندوں پر تکبر کریگا اسے مجرم سمجھا جائے گا جس طرح بادشاہ کے خاص غلاموں کو ذلیل سمجھتے ہوئے کسی وجہ سے ان سے جھگڑنا اگرچہ اس کی غلطی بادشاہ کے تخت پر بیٹھنے جیسی نہیں۔
تکبر کی ان دونوں قسموں میں حق کے احکام کی مخالفت لازم آتی ہے، ان میں خودپسندی اور نفسانی خواہش کی بنا پر دینی مسائل میں جھگڑنے والے بھی داخل ہیں کیونکہ متکبر کا نفس غیر سے سنی ہوئی بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے، اگرچہ اس پر اس کی حقانیت بھی واضح ہو گئی ہو بلکہ اس کا تکبر اسے اس بات کو غلط اور باطل ثابت کرنے میں مبالغہ کی طرف لے جاتا ہے، لہٰذا اس شخص پر اللہ عزوجل کے یہ فرامین صادق آتے ہیں:
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسْمَعُوۡا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیۡہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوۡنَ ﴿26﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور کافر بولے یہ قرآن نہ سنواور اس میں بیہودہ غل (شور)کروشاید یونہی تم غالب آؤ۔(پ24، حٰمۤ السجدۃ:26)
(2) وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالۡاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ؕ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈروتو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے۔﴿206﴾ (پ2، البقرۃ:206)
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''بندے کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس سے کہا جائے کہ اللہ عزوجل سے ڈرو تو وہ کہے تُوصرف اپنی فکر کر۔''
(81)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا :''دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔'' تواس نے تکبر کی بنا پر کہا :''میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔'' تو اس کا ہاتھ ہی خشک ہوگیااور اس کے بعد وہ کبھی اپناوہ ہاتھ اٹھا نہ سکا۔
(صحیح مسلم،کتاب ،الحدیث:۲۰۲۱،ص۱۱۱۸،مفہوماً )
ایسی صورت میں بندوں پر تکبر کرنا خالق پر تکبر کی طرف لے جاتاہے کیا تم نہیں جانتے کہ ابلیس نے جب حضرت سیدنا آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اپنے اس قول (اَنَا خَیْرٌ مِّنْہ،) کے ذریعے تکبراورحسد کیا تو اس کی یہ بات اللہ عزوجل کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے اسے اللہ عزوجل کے مقابلے میں تکبر کی طرف لے گئی اور وہ اَبدی ہلاکت میں مبتلا ہو گیا، اسی لئے صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حق کو قبول نہ کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کو متکبر کی علامات قرار دیا۔
0 Comments: