قرآن مجید میں حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ذکر صرف دو سورتوں یعنی سورہ ''انبیاء''اور سورہ ''ص ۤ '' میں کیا گیا ہے اور ان دونوں سورتوں میں صرف آپ کا نام مذکور ہے۔ نام کے علاوہ آپ کے حالات کا مجمل یا مفصل کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ سورہ انبیاء میں یہ ہے : وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِدْرِیۡسَ وَ ذَا الْکِفْلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿85﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور اسماعیل اور ادریس ، ذوالکفل کو (یاد کرو)وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17،الانبیاء:85)
اور سورہ ''ص ۤ ''میں اس طرح ارشاد ہوا کہ:
وَ اذْکُرْ اِسْمٰعِیۡلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْکِفْلِ ؕ وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ﴿ؕ48﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں۔(پ23،صۤ:48)
حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید نے نام کے سوا کچھ نہیں بیان کیا ہے اسی طرح حدیثوں میں بھی آپ کا کوئی تذکرہ منقول نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذوالکفل علیہ السلام خدا کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر تھے جو کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔
البتہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام حضرت ایوب علیہ السلام کے فرزند ہیں اور انہوں نے خالصاً لوجہ اللہ کسی کی ضمانت کرلی تھی۔
جس کی وجہ سے ان کو کئی برس قید کی تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ (موضح القرآن)
اور بعض مفسرین نے تحریر فرمایا کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام درحقیقت حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ہے۔
اور زمانہ حال کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ذوالکفل ''گوتم بدھ'' کا لقب ہے اس لئے کہ اس کے دارالسلطنت کا نام ''کپل وستو'' تھا جس کامعرب ''کفل ''ہے اور عربی میں ''ذو'' ، ''صاحب'' اور ''مالک''کے معنی میں بولا جاتا ہے اس لئے یہاں بھی ''کپل وستو'' کے مالک اور بادشاہ کو ''ذوالکفل'' کہا گیا اور ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ''گوتم بدھ'' کی اصل تعلیم توحید اور حقیقی اسلام ہی کی تھی مگر بعد میں یہ دین دوسرے ادیان و ملل کی طرح مسخ و محرف ہوگیا۔ مگر واضح رہے کہ زمانہ حال کے چند لوگوں کی یہ رائے کہ ''ذوالکفل'' گوتم بدھ کا لقب ہے میرے نزدیک یہ محض ایک خیالی تُک بندی ہے۔ تاریخی اور تحقیقی حیثیت سے اس رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کے ان حالات و واقعات کے سوا جن کی تفصیلات قرآن مجید میں مختلف انبیاء بنی اسرائیل کے ذکر میں آتی رہی ہیں، حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی خاص واقعہ ایسا درپیش نہیں ہوا جو عام تبلیغ و ہدایت سے زیادہ اپنے اندر عبرت وموعظت کا پہلو رکھتا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے فقط ان کے نام ہی کے ذکر پر اکتفا کیا اور حالات و واقعات کا ذکر نہیں فرمایا فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: