جب کفار قریش حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر بے پناہ مظالم ڈھانے لگے جو ضبط و برداشت سے باہر تھے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان شریروں کی سر کشی کا علاج کرنے کے لیے ان لوگوں کے حق میں قحط کی دعاء فرمادی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں پر قحط کا ایسا عذاب شدید بھیجا کہ اہل مکہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ بھوک سے بے تاب ہو کر مر دار جانوروں کی ہڈیاں اور سوکھے چمڑے اُبال اُبال کر کھانے لگے ۔بالآخر اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ ِرحمت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور ان کے حضور میں اپنی فریاد پیش کریں۔ چنانچہ ابو سفیان بحالت کفر چند رؤسائے قریش کو ساتھ لے کر آپ کے آستانہ رحمت پر حاضر ہوئے اور گڑ گڑ ا کر کہنے لگے کہ اے محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) تمہاری قوم برباد ہو گئی ، خدا سے دعا کرو کہ یہ قحط کا عذاب ٹل جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ وزاری پر رحم آگیا ۔ چنانچہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے فوراً ہی آپ کی دعا مقبول ہوئی اور اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ سارا عرب سیراب ہو گیا اور اہل مکہ کو قحط کے عذاب سے نجات ملی۔(1)
(بخاری جلد ۱ص ۱۳۷ابو اب الا ستسقاء وبخاری جلد۲ ص ۷۱۴تفسیر سورۂ دخان)
0 Comments: