حضرت شیخ الاسلام اہل سنت کے امام و مقتدیٰ
علامہ ڈاکٹر انوار احمد خان بغدادی، دار العلوم علیمیہ ،جمدا شاہی،یوپی
کشمیرسے کنیا کماری تک اور بنگال کی کھاڑیوں سے راجستھان کے لق و دق صحراکی آخری حدوں تک پھیلے ہو ئے پورے ہندوستان پر نظر ڈالئے تو صرف ایک ہی ذات ملے گی جس کو اس وقت ’’جامع الصفات ‘‘کہا جاسکتا ہے ، حسب ونسب کی شرافت ہو یا تقوی وپرہیزگاری ، علوم وفنون میں مہارت ہو یا اخلاق و کردار کی شفافیت ،یا پھر تدبروحکمت، صبر ورضا،عقل ودانائی، فہم وفراست اور تصوف وروحانیت وغيرہ ۔۔۔۔۔۔
ان تمام خوبیوں کی جامع شخصیت گل گلزار اشرفیت ، مخدومی مشن کےسچےنقیب، شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ سید محمدمدنی مدظلہ النورانی کی ذات گرامی ہے۔
ممکن ہے کہ ان کلمات میں کسی کو مبالغہ آرائی دکھائی دے مگر واقع امر یہی ہے کہ کہيں شرف علم وتقوی ہے تو شرف سیادت نہیں، کہیں سیادت وپرہیز گاری ہے تومینارہ علم بلند نہیں، اور کہیں علم و سیادت ہے تو تقویٰ پرہیز گاری اور احتیاط نہیں ،مگر حضرت مدنی میاں کی ذات ستودہ صفات میں یہ تینوں خوبیاں پا ئی جاتی ہیں ۔
حالات وزمانہ کی نزاکتوں سے ہم آہنگ آپ کے فقہی آراء ،لبرل ازم ، فکر ِاکبری ، مودودیت اور فیورک جیسے فتنوں کے خلاف آپ کا قلمی اور عملی جہاد، آپ کے ایمانی مواقف اورآپ کی فکری صلابت کا حال یہ ہے کہ آپ کو فی زماننا اہل سنت کا امام اور مقتدیٰ کہا جانا چاہئے۔ اللہ تعالی آپ کا سایئہ عاطفت ہم سب کے سروں پر تا دیر قائم ودائم رکھے آمین۔
محب گرامی حضرت مولانا نعیم الدین صاحب اوران کے رفقاء کار نے حضرت کی ذات گرامی پر ایک نمبر نکالنے کاعزم کیا ہے جو کسی حدتک قابل مبارک باد ہے اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اخلاص کا بہترین صلہ عطا فرمائے ۔
مگر یہاں ایک بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ آج ہمارا جماعتی مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہم کسی بھی شخصیت سے عقیدت رکھتے ہیں تو ہمیں اول و آخر ایک ہی فکر ستاتی ہے کہ ہم کسی طرح ان کی شخصیت پرنمبرشائع کردیں جس میں عام طور پر علمی مواد کم تعریف و توصیف کے بے حوالے جملوں کو زیادہ سے زیادہ جگہ ملتی ہے ،جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنی جماعت کی علمی شخصیتوں کا تعارف فرسودہ اور غیر مفید طریق کار سے ہٹ کر کرواتے۔ کتنی اچھی بات ہوتی کہ اپنے بزرگوں کے افکارونظریات اور ان کے علمی خزانے سے دنیا کو متعارف کرواتے تاکہ جہاں دنیا ہمارے ممدوح سے متعارف ہوتی وہیں ان کے علوم و فنون سے استفادہ بھی کرتی اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان سے جماعت اہل سنت کی نمائندگی بھی ہوجاتی۔
کتنے افسوس کے ساتھ میں یہ جملے لکھ رہا ہوں کہ آج پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے کونے کونے میں غیروں کے چرچے ہورہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کے سامنے سوانحیات پر مشتمل تحریریں کم بلکہ اپنا علمی سرمایہ زیادہ سے زیادہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ہم سوانحیات کے حدود پار نہیں کرسکے ۔
مثال کے طور پر حضرت مدنی میاں مدظلہ النورانی کی ہی ذات گرامی کو لے لیجئے ، آپ نے مودودیت کا تعاقب آج سے ۵۰سال پہلے ہی کیا تھا ،آج پچاس سال گزرنےکے بعدعلمائے عرب ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش جیسی خونخوار دہشت گرد تنظمیں در حقیقت مودودی اور سید قطب وغیرھما کی انتہا پسندانہ تحریروں کا نتیجہ ہیں جیسا کہ شیخ اسامہ سیدازہری مدظلہ نے اپنی کتاب’’ الحق المبین فی الردعلی من تلاعب بالدین‘‘ میں بڑی جرات و بے باکی کے ساتھ اس بات کا انکشاف کیا ہے ۔
ایسی خطرناک تحریروں کا تعاقب ہندوستان کی اس عظیم شخصیت نے اسی وقت کرلیا تھا کہ جب یہ تحریریں منصہ شہود پر آنا شروع ہوئیں تھیں چنانچہ حضرت مدنی میاں مدظلہ النورانی1964 ہی میں’’اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب‘‘ لکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا ۔ کاش ان تحریروں کا عربی ترجمہ اسی وقت ہوجاتا اور عالم عرب ان تحریروں سے واقف ہوجاتا تو جہاں تشدد ودہشت گردی سے بچایا جاسکتا وہیں مودودیت کی مقبولیت پر روک بھی بآسانی لگائی جا سکتی۔مودودیت کے رد میں آپ کی تحریروں کو سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والا مودودیت کے دام فریب میں قطعا نہیں آتااور جہاں لوگ مودودی کا نام لیتے وہیں سرکار مدنی میاں کا بھی تذکرئہ جمیل ضرور ہوتا مگر یہاں تو تصویر کا ایک ہی رخ پہونچ پایا جس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ آج ہم اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں ، جب کہ بد مذہبیت سنیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنا تعارف کروارہی ہے اور ایسے لوگ ہی عالم ، محدث ، اور متکلم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جا رہے ہیں جن کا علم ہمارے اکابر کے عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔
اس لئے میں جماعت اہل سنت کے کاز کے حوالے سے سنجیدہ ارباب حل وعقد اور اصحاب فکر ونظر سے اپیل کر تا ہوں کہ لا یعنی اور اختلافی مسائل میں الجھنے کے بجائے بزرگوں کی تحریروں ،ان کے افکارو نظریات اور انکے علوم و فنون کو پوری دنیا میں عام کریں ،یہ وقت کا اہم تقاضا ہے ۔
واضح رہے کہ وقت کے اسی تقاضا کو محسوس کرتے ہوئےمودودیت کے رد میں حضرت مدنی میاں کی تینوں کتابوں (۱)’’اسلام کا تصورالہ اورمودودی صاحب‘‘۔ (۲) ’’اسلام کا نظریئہ عبادت اور مودودی صاحب‘‘۔ (۳) ’’دین اور اقامت دین اور مودودی صاحب‘‘۔ کاعربی ترجمہ قسط وارماہنامہ ’’المشاہد‘‘میں شائع کرنے کا عزم کیا گیا ہے جس کی پہلی قسط آئندہ ماہ قارئین کے نذرہوگی ان شاء اللہ العظیم۔ اللہ ہمیں اخلاص بخشے اور شرف قبولیت سے نوازے ۔
0 Comments: