خُوش طبعی کیلئے گُناہوں کا اِرتکاب نہ کیجئے
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بہت زیادہ نہ ہنسا کریں ، نیز دوست اَحباب یا بیوی بچّوں کے ساتھ موقع کی مناسبت سے تھوڑی بہت خُوش طبعی کرنے میں بھی ایسا طریقہ ہرگز ہرگز اختیار نہ کریں جو جُھوٹ ، غیبت ، چُغلی یا کسی کی دل آزاری پر مشتمل ہوکیونکہ خُوش طبعی کے طور پر بھی جُھوٹ بولنا یا غیبت ، چُغلی اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنا جائز نہیں ۔ مفسر شہیر ، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مِزاح (خُوش طبعی) کے حوالے سے فرماتے ہیں : دل خُوش بات کرنا ، ایسی بات جس سے اپنا اور سننے والے کا دل خُوش ہوجاوے مِزاح ہے اور جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے جیسے کسی کا مذاق اڑانا سُخْرِیہ ہے۔ مِزاح اچھی چیز ہے سُخْرِیہ بُری بات ہے۔ (1) ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی خُوش طبعی فرمایا کرتے تھے مگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظَرافت و خُوش طبعی بیان کردہ بُرائیوں سے پاک ہوا کرتی تھی جیساکہ
حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا یَارسُولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ آپ ہم سے خُوش طبعی فرماتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہم سچی بات کے علاوہ کچھ نہیں کہتے۔ (2) لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خُوش طبعی کے معاملے میں بھی ہم اپنے پیارے آقا ، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طرزِ عمل ہی کو اپنے لئے نمونہ بنائیں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رہنمائی نہ ملی ہو حتی کہ ایک مرد کو مثالی شوہر بننے کے لئے جن خُصُوصِیَّات کی ضرورت ہے وہ تمام باتیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ مُبارَکہ سے سیکھی جاسکتی ہیں ۔ رسولِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ بھی مِزاح فرمایا کرتے تھے۔
________________________________
1 - مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۴۹۳
2 - ترمذی ، کتاب البر و الصلة ، باب ما جاء فی الـمزاح ، ۳ / ۳۹۹ ، حدیث : ۱۹۹۷
0 Comments: