سوانحی خاکہ احمدرضا خان علیہ الرحمہ
مولاناغلام ربانی فداؔ
مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرور
تعارف:احمدرضاخان نسبتاً پٹھان حنفی مشرباً قادری اور جائے پیدائش بریلی ہیں۔آپ کے والد ماجد مولانا تقی علیہ الرحمہ اور آپ کے دادا مولانا رضاعلی خان رحمۃ اللہ علیہ بلندپایہ عالم اور صاحب کمال بزرگ تھے۔مولانا احمدرضاخان اپنے دیوان میں ان دونوں بزرگوں کا تذکرہ یوں فرمایاہے
احمدہندی رضا ابن تقی ابن رضا(حدائق بخشش)
ولادت :آپ کی ولادت ۱۰شوال ۱۲۷۲ھ ۱۴جون ۱۸۵۶ء کو بمقام بریلی(یوپی) میں ہوئی مولانا احمدرضاخان نے اپنا سن ولادت اس آیت سے نکالا
’’اولا ک کتب فی قلوبہم الایمان وایدھم بروح منہ‘‘ پ۲۸۔۴(سوانح اعلیٰ حضرت)
ترجمہ؛ وہ لوگ جن کے دلوںمیں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کردیاہے اوراپنی طرف سے روح کے ذریعے ان کی مدد فرمائی
نام: آپ کانام محمد رکھاگیااور تاریخی نام’’المختار‘‘۱۶۷۶ھ (۱۸۵۲ء) لیکن دادا مولانارضاعلی خان نے ’’احمدرضا‘‘ تجویزفرمایا۔بعد میںفاضل بریلی نے خوداسی نام کے ساتھ عبدالمصطفیٰ کااضافہ فرمایا۔چنانچہ اپنے شعری دیوان میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
؎خوف نہ رکھ رضاذراتوتوہے عبدمصطفی
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے(حدائق بخشش)
تعلیم وذہانت: اپنی فطری ذہانت کی وجہ سے ۱۳سال کچھ مہینے ۵دن میں علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی علوم عربیہ سے فراغت کے بعد ہی آپ کے والد مولاناتقی علی خاںنے افتاکی ذمہ داریاںبھی آپ کوسونپ دی۔آپ نے کم سنی میں اپنے علم وفضل کے سبب فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔(سوانح اعلیٰ حضرت)
علمی مرتبہ: اعلیٰ حضرت نے علوم درسیہ کے علاوہ دیگر علوم وفنون میں تو خود طبع سیلم یاوری کی۔ایسے تمام علوم وفنون کی تعداد۴۵ہے جس کی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے۔۱علم قرآن۲علم حدیث۳اصول حدیث۴فقہ جملہ مذاہب۵اصول فقہ۶جدل۷تفسیر۸عقائد۹کلام۱۰نحو۱۱صرف۱۲معانی ۱۳ بیان۱۴بدیع۱۵منطق۱۶مناظرہ۱۷فلسفہ ۱۸تکسیر۱۹ھیٰت۲۰ حساب۲۱ہندسہ۲۲قراۃ۲۳تجوید۲۴تصوف۲۵سلوک۲۶اخلاق۲۷اسماء الرجال۲۸سیر۲۹تاریخ ۳۰نعت۳۱ادب ۳۲ارثماطیقی۳۳جبرومقابلہ۳۴حساب سینی۳۵لوگارثمات۳۶توقیت۳۷مناظرہ ومرایا۳۸زیحات۳۹مثلث مسطح۴۱ ہیٰت جدیدہ۴۲مربعات۴۳جفر۴۴زائرجہ۴۵اکر
ان علوم کے علم الفرائض،عروض وقوافی،نجوم اوفاق فن التاریح(اعداد)نظم ونثرفارسی،نثرونظم ہندی۔خط نسخ اور خط نستعلیق وغیرہ میںبھی عبور حاصل کیا(سوانح اعلیٰ حضرت)۔اس طرح مولانا نے جن علوم وفنون پردسترس حاصل کی۔ان کی تعداد ۵۴سے زائدہے۔ میرے خیال میں عالم اسلام میں مشکل ہی سے کوئی ایسا نظر آئے گا۔جواسقدرعلوم وفنون پر عبورپایاہو۔
تصوف کی ابتدا: مولانارضاخان ۱۲۹۴ھ ۱۸۷۷ء میں اپنے والد کے ہمراہ حضرت شاہ آل رسول کی خدمت میں حاضرہوئے اور سلسلۂ قادریہ میں بیعت سے مشرف اور اجازت اور خلافت سے نوازے گئے۔(سوانح اعلیٰ حضرت)
حج بیت اللہ: ۱۳۲۳ھ۱۹۵۰ء کو مولانارضا دوسری بار حج بیت اللہ اورزیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔اس سفر میں
علمائے حجازنے آپ کی قدرومنزلت کی جس کا بخوبی اندازہ حسام الحرمین ۱۹۰۶ء ،الدولۃالمکیہ ۱۹۰۴ء اور کفل الفقیہ۱۹۰۶ء کے مطالعہ سے ہوتاہے۔
وفات حسرت آیات:فاضل بریلی نے۲۵صفر ۱۳۴۰ھ مطابق۱۳۴۰ء بروزجمعہ دوپہر ۳۸،۲منٹ پر بریلی میں وصال ہوا
قبرانوار:شہربریلی محلہ سوداگران میں دارالعلوم کے شمال کی جانب ہے
آثاروباقیات:فاضل بریلی کی باقیات میں ان کی لاتعداد تصانیف پچاس مختلف وفنون پرہزار کے قریب ہیں۔
آپ کا سب بڑا تصنیفی کارنامہ آپ کا فقہی شاہکار ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ہے جس کاپورا نام ’’العطایاالنبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ ہے اس کی سات جلدیں ہیں۔ہرجلد کے ۱۰۰۰صفحات سے زیادہ پرمشتمل ہے۔دوسراعلمی شاہکارقرآن کریم کااردوترجمہ’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ کے نام سے ۱۳۳۰میں منصۂ شہودآیا۔
0 Comments: