سیدالتفاسیرالمعروف بہ تفسیرِاشرفی مولاناغلام ربانی فداؔ
ہیرور، ہانگل،
حضور شیخ الاسلام والمسلمین علامہ الحاج سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی دامت برکاتہم بیک وقت جید عالمِ دین، اور منفرد لب ولہجہ کے شاعر،بین الاقوامی سطح کے خطیب، اور مسندِ رشدوہدیت کی زینت بھی اور حافظِ احادیثِ کثیرہ کے ساتھ ساتھ انفرادی اندازوشان والے مفسر قرآن بھی ہیں ،گزشتہ دنوں حضور شیخ الاسلام کی تفسیرِ بابرکت ،، سیدالتفاسیر المعروف بہ تفسیرِ اشرفی،، کی زیارت سے مشرف ہوا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآ ن مجید کی معرفت محبتِ رسول کے بغیر ممکن نہیں۔ محبتِ رسول ﷺ کی کیفیت جوں جوں ترقی کرتی جائے گی اس کی ضیائے تاباں مین معرفتِ قرآ ن بھی ترقی حاصل کرے گی، قدرتی مناظرسے لطف اندوز ہونے کے لئے جس طرح آ فتاب کی صاف وشفاف روشنی کے ساتھ ساتھ چشمِ بینا کی ضرورت ہے، اسی طرح ہدایت کاملہ کے لئے قرآنِ مجید اور حضور سرورِ کائنات ﷺ کی سچی محبت درکار ہوتی ہے، چونکہ قرآن مجید لازوال ہے اس کی ضیائے تاباں کبھی مدھم نہیں ہوگی کیونکہ ربِ لم یزل نے اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے،لہذا سارا معاملہ اب ہمارے عشقِ رسول پہ منحصر ہے۔ یعنی جنتا ہم حبِ مصطفی کے اسیر ہونگے کلام اللہ کی اتنی ہی معرفت سے بہرہ مند ہونگے ۔جو اہلِ محبت واہلِ نظر نہیںان کی نظر صرف اور صرف تحریرِ الفاظ قرآنی اور ظاہری معنوں تک ہی محدود رہتی ہے،جبکہ عشقِ نبی سے معمورغلامانِ نبی اور امت کی خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والے وارثینِ انبیاء کلام اللہ کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ لگاکر ہدایت و نجات کے گوہرِ بیش بہا باہر لاتے ہیں۔ان سے ہی قرآنِ مجید کی معرفت اور ایمان کی دولت میسر آتی ہے۔جوہر دوجہاں میں کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔
آئیے ایسے ہی قلب و نظر کے قلموں سے نکلے ہوئے گوہر مبیں الفاظ کا ہم نظارہ کر لیں پھر اگر ہم بھی صحیح معنوں میں عشقِ رسول سے معمور ہوکر غلام رسول کی مبارک منزل تک پہنچ گئے توکلام الہی کی حقیقی معرفت میسر آئے گی۔
اس لئے رئیس المتکلمین حضور محدثِ اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اٹھائیس سال کی محنت و مشقت کے معارف القرآ ن کی شکل میں قرآنِ مقدس کا اردو ترجمہ قوم کو تحفہ دیا۔جس کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر بس اتنا عرض کرونگا جسے دیکھ کر امامِ عشق و محبت اعلی حضرت مجددِ دین و ملت الشاہ امام احمد رضا فاضل بریلی نے فرمایا
’’شہزادے ! اردو میں قرآن لکھ رہے ہو‘‘
ترجمہء قرآن کے کی تکمیل کے بعد وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضور محدثِ اعظم ہند نے امتِ مسلمہ کی مزید رہنمائی اور ہدایت کے لئے قرآن کریم کے مفہوم کو ذرا تفصیل اور ایک نئے انداز میں سمجھانے کے لئے تفسرِ قرآن لکھنی شروع کی ۔تفسیر کا قاری فورََا ہی خود حضرت کی منفرد انداز کا قائل ہو جاتا ہے۔اس طرح آپ نے تین پارے اور چوتھے پارے کیے چند رکوع کی ہی تفسیرفرمائی کہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ایسا لگتا ہے کہ قدرت کو منظور تھا کہ اس عجیب و منفرد انداز میں تفسیری کام کی شروعات تو حضور محدثِ اعظم ہند کریں اور پایہء تکمیل تک پہچانے کے لئے حضور شیخ الاسلام کو چن لیاہو۔
تلاش و بسیار کے باوجود حضور محدثِ اعظم ہند کے تفسیرشدہ تین پارے اور چند رکوع میں سے صرف پہلا پارہ ہی دستیاب ہوا،
۲۰۰۳ میں ترجمہ قرآن ’معارف القرآن‘ اور پہلے پارے کی تفسیر’ تفسیرِاشرفی ‘ شائع ہوئی تو علماء و احبابِ کی دیرینہ خواہشوں نے حضور شیخ الاسلام کواس جانب متوجہ کیا۔ اب تک نو پاروں کی تفسیر ’سیدالتفاسیرالمعروف بہ تفسیرِ اشرفی ‘(تین جلدوںمیں)منظرِ عام پر آئی اور تا دمِ تحریر بارہ پاروں کی تفسیر مکمل تفسیر مکمل ہو چکی ہے۔ فن تفسیر سے متعلق آئیے کچھ ضروری باتیں معلوم کرتے ہوئے چلیں،
علمِ تفسیر ایسا فن ہے جس میں الفاظِ قرآن کے نطق ،ان کے مدلولات ، ان کے مفرد ومرکب ہونے کے احکام ، حالتِ ترکیبی میں ان کے معانی اور ان کے تتمات سے بحث کی جاتی ہے،۔علمِ تفسیرکاموضوع
قرآن مجید کے لفظ ہیں،کیونکہ موضوع وہی ہوتا ہے جس کے عوارض سے بحث کی جائے اور علم تفسیر میں کلام لفظی کے عوارض ذاتیہ سے بحث کی جاتی ہے۔
وقیل موضوعہ ایات القران من حیث فھم معانیھا (صاوی)
علم تفسیر حاصل کرنا واجبِ کفایہ ہے جس سے مطلوب سعادتِ دارین ہے۔اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل باتوں کو مدنظر رکھنا بہت اہم ہے،تفسیر القرآن،تاویل القرآن، تحریف القرآن۔
آئیے اب ان کو لغوی، عرفی اور شرعی اجالوں میں دیکھیں
مصباح اللغات ،۶۳۳؎ :فسر۔۔۔۔۔واضح کرنا، ظاہرکرنا۔التفسیر (مصدر)،تاویل،کشف،وضاحت ،بیانِ شرح۔
المنجد،۷۴۵؎؛فسر۔۔۔۔واضح کرنا،مراد بتانا،التفسیر،(مصدر) تاویل،پردہ ہٹانا،وضاحت کرنا،بیان واضح۔
مصباح اللغات۴۴؎؛ اول۔۔۔لوٹنا ،واپس کرنا۔تاویل(مصدر)تفسیر کرنا،خیروصلاح محسوس کرنا۔
المنجد۶۸؎؛ اول۔۔۔۔۔لوٹنا،تاویل(مصدر) کسی کی طرف واپس کرانا،کلام کی تفسیر کرنا۔
مصباح اللغات ۱۴۷؎؛حرف۔۔۔۔پھیرنا،جھکانا، التحریف(مصدر)قول کو اس کے موقع سے پھیردینا۔
المنجد۲۰۱؎؛حرف۔۔۔۔پھیردینا،جھکادینا۔التحریف(مصدر)اور بات بدل دینا،تبدیل کرنا،
علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ کسی چیز کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم کی روشنی میں لانا تفسیر ہے۔اور کسی لفظ کواس کے اصل معنی دوسرے معنی پر محمول کرنا تاویل ہے۔جس کی وجہ ایسی دلیل ہو کہ اگر وہ دلیل نہ ہوتی تو اس لفظ کو اس کے ظاہرسے ہٹایا نہ جاتا
تفسیر و تاویل میں فرق
امام تریدی فرماتے ہیں کہ قطعیت سے یہ بیان کرنا کہ اس لفظ کا یہ معنی ہے اور اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالی نے اس لفظ سے یہ معنی مراد لیا ہے،یہ تفسیر ہے۔تو اگر کسی دلیل قطعی کے بنا پر یہ شہادت دی گئی تو یہ تفسیر صحیح ہے ورنہ تفسیر بالرائے ہے،جوکہ منع ہے۔اور لفظ کے کئی احتمالات ہیں۔کسی ایک احتما ل کوبغیرقطعیت اور شہادت کے متعین کرنا تاویل ہے،
مندرجہ بالا تعریفوں کو سمجھنے کے بعد ب مختصراََ تحریف قرآن کوبھی سمجھ لیں۔تحریف قرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہے کہ قرآن کریم کیایسے معانی ومطالب بیان کرنا جو کہ اجماع امت یا عقیدہ اسلام کے ،یااجماع مفسرین کے خلاف ہو،یاخود تفسیر ،قرآن کے خلاف ہو اور معنی مشہورہ متواترہ کو چھوڑ کر نیا معنی تجویز کرنا۔جیسے کہ مولوی قاسم نانوتوی نے خاتم النبین کے معنی بیان کئے ــ۔اصلی وعارضی، حالانکہ اجماع امت اور احادیث متواترہ کا اتفاق اس پر ہیکہ خاتم النبین کے معنی آخری نبی کے ہیںاور تحریف قرآن جو کہ بقول فقہا کفر ہے۔بہتر ہے تفسیر وتاویل کے چند مراتب ذہن نشین کرلیں
تفسیر القرآن بالقرآن۔۔قرآن کی تفسیر خودآیات قرآن سے کرنا یہ سب سے مقدم ہے۔
تفسیر القرآن بالاحادیث۔۔۔احادیث رسول سے آیات قرآنی کی تفسیر کرنا۔
تفسیر القرآن باقوال الصحابہ۔۔۔صحابہ کرام کے اقوال بالخصوص خلفائے راشدین کی روایات سے تفسیر کرنا۔
تفسیر القرآن باقوال التابعین۔۔۔۔۔۔۔۔تابعین یا تبع تابعین کے اقوال سے تفسیر کرنا،اگر بروایت صحیحہ ہے تو معتبر ورنہ نہیں
طبقاتِ مفسرین کا سرسری جائزہ
مفسرین کا پہلا طبقہ۔۔۔تفسیر قرآن کریم میںان مندرجہ ذیل اصحاب رسول کی شخصیات بہت اہم ہیں،حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت عبداللہ ابن مسعود،حضرت ابن عباس،حضر ت ابی بن کعب، حضرتزئدبن ثابت،حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین،خلفائے راشدین میں حضرت علی کی تفسیری روایات بہت ہیں،حضرت ابن مسعود کی روایات حضرت علی سے اور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات حضرت ابن مسعودسے زیادہ ہیں۔
دوسراطبقہ
تابعین کا ہے ؛ جس میں سیدنا ابن عباس کے شاگردوں میں مجاہدبن جبر ،عیدبن جبیر،عکر مہ مولی بن عباس ،طاوس بن کیسان ،عطا بن ابی ریاح۔سیدنا ابن مسعود کے حسب ذیل تلامذہ میںعلقمہ بن قیس،اسود بن یزید،ابراہیم بن نخعی شعبی۔حضرت زید بن اسلم کے تلامذہ؛ عبدالرحمن بن زید،مالک بن انس،حسن بصری،اسماعیل بن عبدالرحمن ،ابوالعالیہ رفیع بن مہران ریاحی وغیرہم ہیں
مفسرین کا تیسراطبقہ
ان بزرگوں کا ہے؛ جنہوں نے اقوالِ صحابہ و تابعین کو جمع کیا۔انمیں سفیان بن عینیہ،وکیع بن جراح کوفی ،شعبہ بن حجاج،روح بن عبادہ ،ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ شامل ہیں
مفسرین کا چھوتھا طبقہ
اس میں ابو جعفر محمد بن جریری طبری،علی بن طلحہ،ابن ابی حاتم عبدالرحمان بن محمد رازی، ابن مردویہ ابوبکر احمد بن موسی اصفہانی،ابراہیم بن منذر وغیرہم قابلِ ذکر ہیں
مفسرین کا پانچواں طبقہ
اس طبقہ میں وہ مفسرین شامل ہیں جنہوں نے اپنی تفسیروں میں اسانید کو حذف کیا،مثلاََ ابو اسحاق زجاج ابراہیم بن السری نحوی،صاحبِ معانی القرآن،ابوعلی فارسی،ابوبکر محمد بن حسن المعروف بالنقاش الموصلی،مکی بن ابی طالب، ابو جعفر النحاس مصری،ابوالعباس احمد بن عمار نہدوی،۔۔۔
مفسرین کا چھٹا طبقہ
در حقیقت ان بزرگانِ دین کا ہے،جنہوں نے قرآن کی راہ سے اٹھنے والی ہر گمراہی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،چاہے وہ مناطقہ و فلاسفہء یونان کے اعتراضات ہوں یا یہودونصاری کے تخیلاتی مذاہب۔ہر ایک میدان میں گراں قدر خدمات انجام دئے۔ان میں وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جنہوں نے مذاہبِ ائمہ اور مسلکِ صوفیہ کو اجاگر کر کے فقہا و متکلمین کے نظری اختلافات کی ر اہ سے اٹھنے والے تمام فتنوں کا سدِ باب کیا،
اسلام کا ابرِرحمت تمام دنیاپر برسا اور مدتوں بعدلوگوں کے قلوب و اذہان کو ایک خدا کی عبادت،۔ایک نبی کی اطاعت،ایک قبلہ،ایک قرآن کو ماننے کا شرف حاصل ہوا۔بدقسمتی چند ناعاقبت اندیش لوگوں نے اتحادبین المسلمین کو ہارہ پارہ کرنے کے لئے قرآن کے ترجمہ و تفسیر کی راہ لی،نتیجہ کے طور پرپنڈت دیانند سرسوتی بانی آریہ سماج جیسے لوگوں نے بھی طبع آزمائی کی۔کوئی ایک شخص راما سنگہم بھی گزراہے جو ابتداََ ہندو تھا پھر عیسائی ہواتھا ،اس نے بھی اپنی تحریروں میں اور تقریروں میں اسلام وبانی اسلام کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایا(فتاوی رضویہ ج۱۱ ۱۰۸؎ا)یہی وجوہات تھے جس کی بنا پر علمائے حق نے نوک زبان و قلم سے حدفاصل کھینچ دیا،اس خصوص میں
٭امام راغب اصفہانی نے قرآن کے الفاظ کی لغوی تفسیر’’المفردات‘‘کی اور ابازکریا یحی نے تین جلدوں میں بنام ’’معانی القرآن‘‘ تفسیر کی ۔
٭بعض علما نے قرآن کے صرفی اور نحوی مباحث کو موضوع بنایا۔زجاج کی تفسیر بنام معانی القرآن ،علامہ واحدی نیشاپوری کی البسیط اور علامہ ابو حیان محمد بن یوسف کی البحرلمحیط ہے،
؎٭بعض علماء نے واقعات و قصص کی طرف توجہ دی اور عوام الناس میں رائج رطب و یابس کو حقائق کی کسوٹی پر رکھ کر باطل کی دھجیاں بکھیر دی۔ان مشاہیر میں علامہ خزن اور علامہ ابو اسحاق بن ثعلبی صاحب تفسیر الکشف والبیان من تفسیرالقرآن بہت زیادہ مشہور ہیں
٭فقہی مسائل کے انبساط و استخراج میں علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی کی تفسیر ’احکام القرآن‘ اور ابو عبداللہ محمد ابن احمد ملکی قرطبی کی ’الجامع الاحکام القرآن ہے۔جو بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔علامہ ابوالحسن ماوری شافعی کی الکنت والعیون چھ جلدوں پر نشتمل ہے۔علامہ احمد جیون کی تفسیراتِ احمدیہ بہت زیادہ مشہور ہیں
٭ عقائدونظریات کے مباحث ۔۔۔نیز۔۔۔گمراہ فرقوں کے رد میں،امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر الرازی کی ’’تفسیرِ کبیر‘‘مشہور ترین تفسیر ہے۔اس میں معتزلہ، جبریہ،قدریہ ِ رافضیہ،اور خارجیہ وغیرہم فرقہائے باطلہ کا زبردست بہت ہی عمدہ رد کیا گیا ہے،امام رازی سے پہلے ایسی جامع و مفصل تفسیر کسی نے نہیں لکھی۔آپ کے انتقال کے آٹھ سوسال گزرجانے کے بعد بھی آج تک کسی نے ایسی تفسیر نہیں لکھی،
٭ چند علماء نے صوفیا کی حکایات ، پندوموعظت،اور آداب و فضائل پر زور دیا۔ان میں علامہ اسماعیل حقی کی ’’روح البیان‘ بہت مشہور ہے۔بعض علما نے طریقت ومعرفت کے رموز واسرار کی طرف اشارہ کیا۔جو اربابِ سلوک پر منکشف ہوتے ہیں ان میں محی الدین ابن عربی کی کی تفسیر ’عرائس البیان ‘ بہت مشہور ہے۔
٭ متاخرین میں علامہ سید محمدآلوسی کی ’روح المعانی‘ بہت عمدہ وجامع ہے جس میں صرف نحو ،بلاغت ، قرات ،شانِ نزول اور عقائد سے بحث کی گئی ہے،نیز فقہی مسائل میں فقہ حنفی کو ترجیح دی گئی ہے،سید محمد قطب شہید نے ’فی ظلال القرآن‘لکھی اوراس میں مشتسرقین کے اعتراضات کاے جوابات دئے گئے ہیں،علامہ طنطاوی جوہری نے ’الجواہر فی تفسیرالقرآن لکھی،اور مضامینِ قرآن کوسائنس کے مطابق کرنے کی کوشس کی،
اردو تفسیروں میں علامہ سید احمد کاظمی کی تفسیر’البیان‘(جو نہایت ہی جامع ہے۔مگر اس صرف ایک پارہ ہی لکھتے کہ داعئی اجل کو لبیک کہ گئے۔کاش وہ تفسیر مکمل ہوجاتی توتمام تفاسیر پہ فائق ہوتی)پیر محمد کرم شاہ ازہری کی تفسیر ’ضیا القرآن‘ (جوپانچ جلدوں میں ہے)اس میں صوفیا کے مسلک کو اجاگر کیا گیا ہیحجرت مفتی احمد یارخاں نعیمی کی ’تفسیرِ نعیمی‘(جو بہت مبسوط تفسیر ہے گیارہ پارے پر پہونچے کہ داعئی اجل کو لبیک کہا)علامہ غلام رسول سعیدی کی تفسیر’تبیان القرآن‘(جودورِ آخر میں لکھے گئے تفاسیر میں تمام پر فائق ہے)موصوف نے مذاہب اربعہ ،احکامِ،عقائدشانِ نزول،اور دیگر ضروریات و مباحث پر سیرِ حاصل گفتگو کی ہے اور سیدالتفاسیر المعروف بہ تفسیرِ اشرفی بالکل ہی سلیس و آسان،عام فہم زبان میں ایک انوکھے اور دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے جس سے ہر کس وناکس،مبتدی ہو یا منتہی،عالم و جاہل،جج ووکیل،حسبِ لیاقت فائدہ اٹھا سکتا ہے،۔
یہ ہماری اور اہل اسلام کی خوش بختی ہے اللہ نے حضور محدث اعظم ہند کے ا س تفسیری کام کے لئے حضورشیخ الاسلام کو چن لیا۔تفسیر اشرفی کے قاری کو ہر حال میں اس بات اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ دونوں مفسرین کی تفسیر میں سرمو فرق نظر نہیں آتا۔جس کی وجہ صاف ہے کہ حضرت مفسر بیک وقت جانشین بو حنیفہِ ،نائبِ غوث اعظم ،فنِ حدیث کے بالغ نظر محدث ،اپنے وقت ابوالحسن اشعری اور ابو منصور تریدی نظر آرہے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ بحر معرفت کے غواص ہیں،یہ سطور کسی جوش عقیدت کے تحت سپردِقلم نہیں کی گئیں ہیں
اگر آپ تفسیرِاشرفی کا مطالعہ تعصب کا چشمہ اتار کرلیں تو آپ بھی میرے ہمنوا بن جائیںگے
0 Comments: