عقل و شعور کی اہمیت اور احساسِ ذمہ داری
عزیز از جان! -اللہ تجھے توفیق خیر سے نوازے- اِس بات
کو دل کی تختی پر نقش کر کے کہ انسان اس وقت تک حامل دانش و بینش قرار نہیں دیا جاتا
جب تک کہ وہ عقل کی صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لائے،لہٰذا عقل و شعور کی ساری
توانائیاں اِکٹھا کر کے اپنی فکر کو عمل کے لیے مہمیز کر دو،اور نفس کے ساتھ ہمیشہ
محتاط رہو اور اپنا خیال رکھو۔
تجھے یہ بات دلائل کی روشنی میں معلوم ہے کہ تو ایک
مکلف انسان ہے،اور تجھ پر کچھ ایسے فرائض عائد کیے گئے ہیں جن کی بابت تجھے (کل
عرصہ محشر میں ) جواب دہ ہونا ہے۔دو ملکوتی نمائندے تیرے اعمال و الفاظ کا ریکارڈ
تیار کرنے میں ہمہ وقت مشغول ہیں۔ حیاتِ مستعار کی ایک ایک سانس‘ موت کے ایک متعینہ
دن کی طرف متواتر کھینچے لیے جا رہی ہے۔دُنیا کا قیام بہت تھوڑا ہے، جب کہ زندانِ
قبر میں بے بس و بے کس پڑے رہنے کی مدت کافی طویل ہے، اور پھر ہواوہوس پر اوندھے
منہ گرنے کے باعث عذابِ قبر اس پر مستزاد۔
ذرا فکر کو آنچ دے کر سوچو کہ تمہارے گزشتہ کل کی لذتِ
عیش کہاں گئی؟، یقیناً فنا ہو گئی،مگر اپنے پیچھے ندامت وافسوس کے طومار چھوڑ گئی۔
یوں ہی شہوتِ نفس کا کیا بنا؟ شرم سے سرجھکاگئی اور پاؤں تلے زمین سرکاگئی۔
نورِ دیدہ ! یہ
ایک کائناتی سچائی ہے جسے سدا یاد رکھنا کہ نفسانی خواہشات کا قلع قمع کرنے کے بعد
ہی سعادت و فلاح کسی کا مقدر بنتی ہے۔ اور شقاوت و بدبختی کے گھاٹ وہی اُترتا ہے
جو آخرت فراموش ہو کر خود کو دنیا کی رنگ رلیوں میں گم کر دیتا ہے،لہٰذا ماضی کے
بادشاہانِ جہاں اور زاہدانِ شب زندہ داروں کے واقعات سے عبرت پکڑو اور اپنے لیے
سامانِ نصیحت اِکٹھا کرو۔
مجھے بتاؤ اِن کی ساری عیش پرستیاں اور ساز و رباب میں
ڈوبی ہوئی زندگیاں کہاں چلی گئیں ؟ سب کا سب اُن کے لیے باعث تف اور حسرتِ محض بن
گئیں !، اور ایسے نافرمانوں اور عصیاں شعاروں کے لیے دنیا کی زبانوں پر برے اَلفاظ
تو ہیں ہی انھیں آتش دوزخ کا ایندھن بھی بننا ہے، لیکن اگر ڈھیروں ثواب اور حسن
انجام ہاتھ آیا تو محض پرہیزگاروں اور نیکو کاروں کو اور پھر خلق خدا کی زبانوں کا اُن کی ستائش سے ترہونااس
پر مستزاد۔ گویا معاملہ یوں ہو گیا کہ جو دنیا سے آسودہ نفس ہو کر گیا وہاں اسے آسودگی
نصیب نہ ہوئی اور جو یہاں فاقہ مست رہا وہاں ناآشنائے فقر و فاقہ رہا۔
اکتسابِ فضل و کمال سے پیچھے رہ جانا یقیناً کم نصیبی
ہے۔اور عیش و آرام کی خصلت و عادت ہمیشہ اپنے پیچھے ندامت کو جنم دیتی ہے،اور کچھ یہی
حال لذتوں کے پیچھے مارے مارے پھرتے رہنے کا بھی ہوتا ہے،لہٰذا ابھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لواورنفس کو (حصول علم و آگہی کی
راہ پر)سرپٹ دوڑاؤ۔
یاد رہے کہ
جملہ فرائض کی (ان کے وقتوں پر)اَدائیگی تمہارے ذمے ضروری ہے یوں ہی حرام کے ہر کام
سے دامن حیات بچانا بھی اپنے اوپر لازم کر کو۔اگرکسی نے اس سلسلے میں ذرا بھی سستی
دِکھائی پھر اسے خود کو جہنم کی آتش سوزاں کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔
عزیز وافر تمیز! یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فضل و کمال
کی رفعتوں کا حصول ارباب جدوجہد کا منتہائے مقصود ہوتا ہے۔ دیکھو فضیلتیں بہت طرح
کی ہوتی ہیں۔ بعض لوگ دنیاسے بے رغبتی ہی کو سب سے بڑی فضیلت سمجھتے ہیں۔کچھ لوگوں
کا معیار یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت عبادت و بندگی میں جٹے رہنے ہی کو مایۂ فضل و شرف
گردانتے ہیں، حالاں کہ سچی بات یہ ہے کہ علم و عمل کی دولت سے بڑھ کر کوئی فضیلت نہیں ہے
بلکہ یہ کہو کہ یہ تمام فضیلتوں کا مجموعہ مرکب ہے۔اگر کسی کو یہ دولت صحیح معنوں میں
ہاتھ آ جائے تواسے اپنے خالق و مالک کا عرفانِ کامل نصیب ہو جاتا ہے، اور اس کے ذریعہ
محبت و خشیت الٰہی اور اس سے شوقِ ملاقات کی آنچ تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔سچ پوچھو تو
فضائل و کمالات کا منتہائے مقصود یہ ہے۔
تمہیں پتا ہے کہ انسان کے حوصلہ و ہمت کے مطابق ہی اسے
کچھ ملا کرتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہر مرید‘ مراد بن جائے اور ہر طالب شوق
مطلب رسا ہو جائے، تاہم لوگوں کو جدوجہد اور تگ و دو جاری رکھنا چاہیے جو اس کا
نوشتہ تقدیر ہے وہ اسے مل کے رہے گا ۔ اور نصرتِ حقیقی تو پروردگار ہی کی طرف سے
ہے-
0 Comments: