دنیا کی عمر بہت کم ہے لہٰذا اُسے غنیمت جانو
جسے دولت عرفان نہیں ملتی وہ دنیا کی عمر کو بہت زیادہ
سمجھتا ہے لیکن پس مرگ اسے معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کا قیام کتنا مختصر تھا۔بیٹے!
یاد رکھ کہ قبر میں پڑے رہنے کی مدت کافی طویل ہے۔پھر عرصہ قیامت کا سوچوجس کا ایک
دن پچاس ہزار سال کے برابر بتایا جاتا ہے۔ اس سے آگے جنت یا دوزخ میں دائمی قیام
پر غور کرو تواس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔
اب دوبارہ دنیوی زندگی کا جائزہ لو۔ فرض کرو کہ ایک
شخص کو ساٹھ سال کی زندگی ملی،تیس سال تو اس نے سونے میں گنوا دیے،اور قریباً
پندرہ سال بچپن کے لا اُبالی پن میں گزر گئے۔اب جو باقی بچے، ان کا اگر دیانت داری
سے جائزہ لو تو زیادہ تر اوقات لذات و شہوات اور کھانے کمانے میں بیت گئے۔اب جو تھوڑی
بہت کمائی آخرت کے لیے کی تھی اس کا اکثر حصہ غفلت اور نام و نمود کی نحوست سے
اَٹا ہوا ہے۔ اب بتاؤ وہ کس منہ سے حیاتِ سرمدی کا سودا کرے گا۔ اور یہ سارا کا
سارا سودا انھیں گھڑیوں اور سانسوں پر موقوف تھا!۔
اِحساسِ کمتری سے نکلو اور سمندِ عمل کو مہمیز کرو
جانِ پدر! ماضی
کی غلطیوں کو یاد کر کے اپنے اندر اِنابت و رجوع کی للک پیدا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ
ان نابکاریوں سے مایوس ہو کر عمل خیر کا جوش ہی ٹھنڈا پڑ جائے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے
کہ دنیا کی تاریخ میں نہ معلوم کتنے خوش بختوں کی زندگی میں شام غفلت کے بعد بیداری
کی سحر‘طلوع ہوئی ہے۔
یہ دیکھو شیخ ابو حکیم نہروانی (م۵۵۶ھ)
نے (اپنے والد ماجد) قاضی القضاۃ ابوالحسن علی بن محمد دامغانی رحمہ اللہ(م۴۷۸ھ)
کے حوالے سے کتنا روح پرور واقعہ بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے عالم طفولیت
میں شجاعت و دلیری کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا اور علم و اَدب سے میرا
کوئی خاص سروکار نہ تھا۔
ایک دن حضرت محمد بن علی دامغانی -رحمہ اللہ-نے مجھے یاد
کیا اور فرمایا: بیٹے! مجھے ہمیشہ تمہارے درمیان باقی نہیں رہنا،لہٰذا ایسا کرو کہ
یہ بیس دینار پکڑو اور کہیں نان کی دوکان کھول کر خود اپنے معاش کے کفیل بنو۔
میں نے عرض کیا: آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟۔
فرمایا: اگر وہ نہیں کرسکتے تو جاؤ کہیں پارچہ فروشی کی
دکان ڈال لو۔
میں نے عرض کیا: آپ کس چیز کا مجھے حکم دے رہے ہیں ؟۔
میں قاضی القضاۃ ابو عبد اللہ دامغانی کا لخت جگر ہوں۔ کیا یہ چیزیں میرے لیے زیبا
ہیں !۔
فرمایا: جب تمہیں اپنے باپ کی وراثت کا اِتنا ہی خیال
ہے تو علم و آگہی سے اپنا تعلق اُستوار کیوں نہیں کرتے!۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے پھر آج سے میرے درس کا اہتمام
فرمائیں، چنانچہ انھوں نے میری تعلیم کا آغاز فرما دیا، ازاں بعد علم کے میدان میں
میری دلچسپی بڑھتی چلی گئی اور میری بے تکان جدوجہد کے نتیجے میں پروردگار نے فضل
و کمال کے سارے در مجھ پر وا فرما دیے۔
حضرت ابو محمد عبد الرحمن بن محمد حلوانی رحمہ اللہ(م۵۰۵ھ)
کے کسی راز داں نے مجھے بتایا کہ وہ فرمایا کرتے تھے: جس وقت میرے والد کا اِنتقال
ہوا میری عمر کوئی اکیس سال رہی ہو گی،اور میں لوگوں میں اپنی بیکاری اور آوارگی کی
وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ میں اپنے موروثہ کسی مکان کے رہائش نشینوں سے
تقاضا کرنے گیا تو وہ کہنے لگے:دیکھو آ گیا غیر کے ٹکڑوں پر پلنے والا!۔
یہ سن کر میں نے اپنے جی میں کہا: لوگ مجھے ایساکہتے ہیں
!۔پھر میں وہاں سے سیدھا اپنی والدہ کے پاس آیا اور عرض کیا: جب آپ کو میری ضرورت
پڑے تو مجھے شیخ ابوالخطاب (محفوظ بن احمد کلودانی[ م۵۱۰ھ])کی
مسجد سے بلوا لیجیے گا، پھر میں نے ان کی با فیض صحبت اپنے اوپر ایسی لازم کر کی
کہ سواےئ فطری ضرورت کے باہر نہ جاتا تھا، پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں اپنے وقت
کا قاضی ہو گیا۔
میں (ابن جوزی) کہتا ہوں کہ میں نے اپنی ان آنکھوں سے
انھیں خود فتوے دیتے اور مناظرے کرتے دیکھا ہے۔
(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی
0 Comments: