محرم کا مہینہ نہایت مبارک مہینہ ہے، خاص کر عاشورہ کا دن بہت ہی مبارک ہے کہ دسویں محرم جمعہ کے دن حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے زمین پر تشریف لائے اور اسی تاریخ اور اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون غرق ہوا، اسی تاریخ اور اسی دن میں سید الشہداامام حسین نے کربلا کے میدان میں شہادت پائی اور اسی جمعہ کا دن اور غالباًاسی دسویں محرم کو قیامت آئے گی۔غرضیکہ جمعہ کا دن اور دسویں محرم بہت مبارک دن ہے اسلام میں سب سے پہلے صرف عاشورہ کا روزہ فرض ہوا،پھر رمضان شریف کے روزوں سے اس روزے کی فرضیّت تو منسوخ ہوگئی مگر اس دن کا روزہ اب بھی سنت ہے لہٰذا ان دنوں میں جس طرح نیک کام کرنے کا ثواب زیادہ ہے اسی طرح گناہ کرنے کا عذاب بھی زیادہ تعزیہ داری اور عَلَم نکالنا کودنا،ناچنا،یہ وہ کام ہیں جو یزیدی لوگوں نے کئے تھے کہ امام حسین ودیگر کو شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سر نیزوں پر رکھ کر ان کے آگے کودتے ناچتے خوشیاں مناتے ہوئے کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے دمشق یزید پلید کے پاس لے گئے۔ باقی اہلِ بیت نے نہ کبھی تعزیہ داری کی اور نہ عَلَم نکالے،نہ سینے کوٹے نہ ماتم کئے۔ لہٰذا اے مسلمانوں ان مبارک دنوں میں یہ کام ہرگز نہ کرو ورنہ سخت گنہگار ہوگے۔خو د بھی ان جلوسوں اور ماتم میں شریک نہ ہو اور اپنے بچوں اپنی بیویوں، دوستوں کو بھی روکو،رافضیوں کی مجلس میں ہرگز شرکت نہ کرو۔بلکہ خود اپنی سنّیوں کی مجلسیں کرو جس میں شہادت کے سچے واقعات بیان ہوں۔آخری چہار شنبہ ماہ صفر کے متعلق جو روایت مشہور ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس تاریخ غسلِ صحت فرمایا،وہ محض غلط ہے ۲۷ صفر کو مرض شریف یعنی درد سر اور بخار شروع ہوا اور بارہویں ربیع الاول دو شنبہ کے دن وفات ہوگئی۔ درمیان میں صحت نہ ہوئی، فاتحہ اور قرآن خوانی جب بھی کرو حرج نہیں مگر گھڑے، برتن پھوڑنا مال کو برباد کرنا ہے جو حرام ہے۔ ربیع الاول میں محفلِ میلاد شریف اور ربیع الثانی میں مجلس گیارہویں شریف بہت مجلسیں ہیں ان کو بند کرنا بہت نادانی ہے تفسیر روح البیان میں ہے کہ محفلِ میلادشریف کی برکت سال بھر تک گھر میں رہتی ہے۔
(روح البیان ،پ۲۶،تحت ۲۹،ج۹ ،ص۵۷)
اس کیلئے ہماری کتاب جا ء الحق دیکھو۔ ان مجلسوں کی و جہ سے مسلمانوں کو نصیحت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور مسلمانوں میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی محبت پیدا ہوتی ہے جوایمان کی جڑ ہے بخاری شریف میں ہے کہ ابولہب نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے پیدا ہونے کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھااس کے مرنے کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا تیرا حال کیا ہے اس نے کہا حال تو بہت خراب ہے مگر سومورا(پیر)کے دن عذاب میں کمی ہوجاتی ہے کیونکہ میں نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے پیدا ہونے کی خوشی کی تھی۔
(صحیح البخاری ،کتاب النکاح،باب وامھاتکم ...الخ،الحدیث ۵۱۰۱،ج۳،ص۴۳۲،وعمدۃ القاری ،کتاب النکاح ،باب وامھاتکم ...الخ،الحدیث۵۱۰۱،ج۱۴،ص۴۵)
جب کافر ابولہب کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی کا کچھ نہ کچھ فائدہ مل گیا تو مسلمان اگر ان کی خوشی منائے تو ضرور ثواب پائے گا۔لیکن یہ خیال رہے کہ جوان عورتوں کا اس طرح نعتیں پڑھنا کہ ان کی آواز غیر مردوں کو پہنچے حرام ہے کیونکہ عورت کی آواز کا غیر مردوں سے پردہ ہے اسی طرح ربیع الاول میں جلوس نکالنا بہت مبارک کام ہے جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم، مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے تشریف لائے تو مدینہ پاک کے جوان وبچے وہاں کے بازاروں کوچوں اور گلیوں میں یا رسول اللہ! کے نعرے لگاتے پھرتے تھے اور جلوس نکالے گئے تھے۔
(صحیح مسلم ،کتاب الزہد والرقائق،با ب فی حدیث الھجرۃ ...الخ، الحدیث ۹ ۲۰۰،ص۱۶۰۸ملخصاً )
اور اس جلوس کے ذریعہ سے وہ کفار اور دوسری قومیں بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے مبارک حالات سن لیں گے۔جو اسلامی جلسوں میں نہیں آتے ان کے دلوں میں اسلام کی ہیبت اور بانئ اسلام علیہ السلام کی عزت پیدا ہوگی۔مگر جلوس کے آگے باجہ وغیرہ کا ہونا یا ساتھ عورتوں کا جانا حرام ہے۔
0 Comments: