حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے تھوڑے دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ یمن میں ''صنعا'' شہر سے دو کوس کی دوری پر ایک باغ تھا جس کا نام ''ضردان''تھا۔ اس باغ کا مالک بہت ہی نیک نفس اور سخی آدمی تھا۔ اُس کا دستور یہ تھا کہ پھلوں کو توڑنے کے وقت وہ فقیروں اور مسکینوں کو بلاتا تھا اور اعلان کردیتا تھا کہ جو پھل ہوا سے گرپڑیں یاجوہماری جھولی سے الگ جاکرگریں وہ سب تم لوگ لے لیاکرو۔اس طرح اس باغ کابہت ساپھل فقراء ومساکین کو مل جایا کرتا تھا۔ باغ کا مالک مر گیا تو اُس کے تینوں بیٹے اس باغ کے مالک ہوئے مگر یہ تینوں بہت بخیل ہوئے۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کرلیا کہ اگر فقیروں اور مسکینوں کو ہم لوگ بلائیں گے تو بہت سے پھل یہ لوگ لے جائیں گے اور ہم لوگوں کے اہل وعیال کی روزی میں تنگی ہوجائے گی۔ چنانچہ ان تینوں بھائیوں نے قسم کھا کر یہ طے کر لیا کہ سورج نکلنے سے قبل ہی چل کر ہم لوگ باغ کا پھل توڑ لیں تاکہ فقراء و مساکین کو خبر ہی نہ ہو۔ چنانچہ ان لوگوں کی بدنیتی کی نحوست نے یہ اثر بد دکھایا کہ ناگہاں رات ہی میں اللہ تعالیٰ نے باغ میں ایک آگ بھیج دی۔ جس نے پورے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کرڈالا اور ان لوگوں کو اسکی خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ لوگ اپنے منصوبہ کے مطابق رات کے آخری حصے میں نہایت خاموشی کے ساتھ پھل توڑنے کے لئے روانہ ہو گئے اور راستہ میں چپکے چپکے باتیں کرتے تھے تاکہ فقیروں اور مسکینوں کو خبر نہ مل جائے۔ لیکن یہ لوگ جب باغ کے پاس پہنچے تو وہاں جلے ہوئے درختوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ ایک بول پڑا کہ ہم لوگ راستہ بھول کر کسی اور جگہ چلے آئے ہیں مگر ان میں سے جو بہ نسبت دوسرے بھائیوں کے کچھ نیک نفس تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم راستہ نہیں بھولے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو پھلوں سے محروم کردیا ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی تسبیح پڑھو تو ان سبھوں نے یہ پڑھنا شروع کردیا کہ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیْنَ یعنی ہمارے رب کے لئے پاکی ہے ہم لوگ یقینا ظالم ہیں کہ ہم نے فقراء و مساکین کا حق مار لیا پھر وہ تینوں بھائی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور آخر میں یہ کہنے لگے کہ
عَسٰی رَبُّنَاۤ اَنۡ یُّبْدِلَنَا خَیۡرًا مِّنْہَاۤ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا رَاغِبُوۡنَ ﴿32﴾ (پ29،القلم:32)
ترجمہ کنزالایمان:۔امید ہے کہ ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی توبہ قبول فرما لی اور پھر ان لوگوں کو اس کے بدلے ایک دوسرا باغ عطا فرما دیا جس میں بہت زیادہ اور بہت بڑے بڑے پھل آنے لگے۔ اس باغ کا نام ''حیوان''تھا اور اس میں ایک ایک انگور اتنا بڑا بڑا ہوتا تھا کہ اُس کا ایک خوشہ ایک خچر کا بوجھ ہوجایا کرتا تھا۔ ابوخالد یمانی کا بیان ہے کہ میں اُس باغ میں گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اُس باغ میں انگوروں کے خوشے حبشی آدمی کے قد کے برابر بڑے تھے۔ (تفسیر صاوی،ج ۶،ص ۲۲۱۶،پ۲۹،القلم:۳۲)
درسِ ہدایت:۔
اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ سخاوت اور نیک نیتی کا اثر مال میں خیر و برکت اور مال کی فراوانی ہے اور بخیلی و بدنیتی کا ثمرہ مال کی ہلاکت و بربادی ہے۔ اور یہ بھی
معلوم ہوا کہ سچی توبہ کرلینے سے اللہ تعالیٰ زائل شدہ نعمت سے بڑی اور بڑھ کر نعمت عطا فرما دیا کرتا ہے۔ سچ ہے کہ
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
0 Comments: