(۱)۔۔۔۔۔۔تعدیہ:
فعل لازم کو متعدی کردینا۔جیسے: بَصَرَ زَیْدٌ۔ (زیددیکھنے والاہوا)(لازم)سے اَبْصَرْتُہ، (میں نے اسے دیکھا)(متعدی)۔
(۲)۔۔۔۔۔۔تصییر:
فاعل کا مفعول کو صاحب ماخذ کر دینا۔ جیسے:اَشْرَکَ النَّعْلَ۔ (اس نے جوتے کوتسمہ والا کردیا ،یعنی: جوتے میں تسمہ لگادیا) (ماخذلفظ شِرَاکٌ((جوتے کا تسمہ))ہے)۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مبالغہ:
فاعل میں ماخذکی کیفیت ومقدارمیں زیادتی وکثرت ہوجانا۔ جیسے: اَسْفَرَ الصُّبْحُ۔ (صبح خوب کھل گئی )اَثْمَرَالنَّخْلُ(درخت بہت پھلدارہوگیا)ان میں ماخذلفظ سَفْرٌ(کھولنا)اور ثَمَرٌ(پھل)ہیں۔
(۴)۔۔۔۔۔۔لزوم یا الزام : (عکسِ تعدیہ )
فعل متعدی کو لازم بنانا۔جیسے:حَمِدَ اللَّہَ۔ (اس نے اللہ عزوجل کی حمد کی )سے اَحْمَدَ (وہ حمدوالا ہوا)۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ابتداء :
باب اِفْعَالٌ سے ابتداء ً کسی فعل کا اس معنی میں استعمال ہونا جو معنئ مجرد سے بالکل جدا ہویا اس کا مجرد فعل آتاہی نہ ہو۔ جیسے:اَشْفَقَ۔(ڈرنا)اس کامجردشَفَقَ ہے بمعنی (مہربا ن ہونا)اَرْقَلَ(دوڑنا)اس کا مجردفعل نہیں آتا۔
(۶)۔۔۔۔۔۔موافقت:
یعنی باب اِفْعَالٌ کا کسی اور باب کے ہم معنی ہونا۔جیسے:
( ا لف) موافقتِ مجرد :
یعنی باب اِفْعَالٌ کامجرد کے ہم معنی ہونا۔ جیسے:دَجٰی اللَّیْلُ۔ کے معنی ہیں (رات تاریک ہوگئی) اور اَدْجٰی کے بھی یہی معنی ہیں ۔
(ب)موافقت تَفْعِیْلٌ :
باب اِفْعَالٌ کاتَفْعِیْلٌ کے ہم معنی ہونا۔ جیسے:کَفَّرَہ،۔ کے معنی ہیں(اس نے اسے کافر ٹھہرایا) اوراَکْفَرَہ، کے بھی یہی معنی ہیں۔
(ج) موافقت تَفَعُّلٌ :
اِفْعَال ٌکا تَفَعُّلٌ کے ہم معنی ہونا جیسے:تَغَلَّفَہ،۔ کے معنی ہیں (اس نے اسے غلاف میں ڈالا )اوراَغْلَفَہ، کے بھی یہی معنی ہیں ۔
(د)موافقت اِسْتِفْعَالٌ :
باب اِفْعَالٌ کا اِسْتِفْعَالٌ کے ہم معنی ہونا ۔جیسے: اِسْتَعْظَمْتُ زَیْداً۔ کے معنی ہیں (میں نے زید کو عظیم سمجھا)اور اَعْظَمْتُ زَیْداً کے بھی یہی معنی ہیں۔
(۲) باب تفعیل
(۱)۔۔۔۔۔۔تعدیہ:
اس کے معنی بیان ہو چکے۔ جیسے: فَرِحَ زَیْدٌ۔ کے معنی ہیں (زید خوش ہوا ) (لازم)اور فَرَّحْتُہ،کے معنی ہیں (میں نے اس کو خوش کیا ) (متعدی)۔
(۲)۔۔۔۔۔۔تصییر:
اس کے معنی بھی گذرچکے۔ جیسے:وَتَّرْتُ الْقَوْسَ۔ (میں نے قوس کو تَانْت والی بنایا)(ماخذ اَلْوَتَرَۃُ((تَانْت یعنی کمان کاتار))ہے)۔
(۳)۔۔۔۔۔۔الباس ماخذ:
اس کے معنی بیان ہوچکے۔ جیسے:جَلَّلْتُ الْفَرَسَ۔ (میں نے گھوڑے کو جھول پہنائی )ماخذ اَلْجَلُّ(جُھوْل یعنی جانور پر ڈالاجانے والاکپڑا)ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔قصر :
کلامِ طویل کو مختصر کرنا۔جیسے:ہَلَّلَ۔ (اس نے کلمہ پڑھا )یہ ''قَرَءَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ'' کا اختصارہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔مبالغہ :
اس کے معنی بھی پہلے بیان ہوچکے ۔جیسے:مَوَّتَ الْاِبِلُ۔ (اونٹوں میں موت بہت زیادہ ہوگئی ) (ماخذ مَوْتٌ((موت))ہے)۔
(۶)۔۔۔۔۔۔موافقت:
باب تَفْعِیْلٌ کاکسی اور باب کے ہم معنی ہونامثلاً :
(ا لف) موافقت مجرد :
یعنی تَفْعِیْلٌ کاہم معنئ مجرد ہوناجیسے:تَمَرْتُہ،۔ کے معنی ہیں (میں نے اس کو کھجور دی )اور تَمَّرْتُہ، کے بھی یہی معنی ہیں۔
(ب) موفقت تَفَعُّلٌ :
یعنی تَفْعِیْلٌ کا ہم معنئ تَفَعُّلٌ ہونا جیسے:تَتَرَّسَ۔ کے معنی ہیں (اس نے ڈھال کو استعمال کیا)اور تَرَّسَ کے بھی یہی معنی ہیں ۔
(۷)۔۔۔۔۔۔ابتداء:
اس کے معنی بھی بیان کیے جاچکے ہیں۔جیسے:کَلَّمْتُہ،۔ (میں نے اس سے کلام کیا )مجرد میں یہ مادہ'' کَلَمَ''زخمی کر نے کے معنی میں آتاہے ۔
(۳) باب تفاعل
(۱)۔۔۔۔۔۔تشارک :
فعل میں دو شخصوں کا باہم اس طرح شریک ہونا کہ ان میں سے ہر ایک فاعل بھی ہو اور مفعول بھی۔ جیسے: تَشَاتَمَ زَیْدٌ وَخَالِدٌ۔ (زید اور خالد باہم گالی گلوچ ہوئے )۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مطاوعت :
فعل متعدی کے بعد اُسی فعل کے مادہ سے ایک فعل اِس باب سے لانایہ ظاہر کرنے کے لیے کہ مفعول نے فاعل کا اثر قبول کر لیا ہے ۔جیسے: بَاعَدْتُہ، فَتَبَاعَدَ۔ (میں نے اسے دور کیا تو وہ دور ہوگیا )۔
اس میں بَاعَدْتُ فعل متعدی ہے اور اس کے بعد اسی فعل کے مادہ (بُعْدٌ)سے ایک فعل تَبَاعَدَ باب تَفَاعُلٌ سے لایا گیا اس نے یہ ظاہرکیا کہ مفعول نے فاعل کا اثر قبول کر لیا ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔موافقت:
باب تَفَاعُلٌ کا کسی اور باب کے ہم معنی ہونا۔ جیسے :
( ا لف) موافقت مجرد:
باب تَفَاعُلٌ کا مجرد کے ہم معنی ہونا۔ جیسے:عَلَا۔(مجرد)کے معنی ہیں(بلند ہونا)اور تَعَالٰی (تَفَاعُلٌ)کے بھی یہی معنی ہیں۔
(ب)موافقت اِفْعَالٌ:
باب تَفَاعُلٌ کاباب اِفْعَالٌ کے ہم معنی ہونا ۔جیسے:اَیْمَنَ۔(اِفْعَالٌ)کے معنی ہیں (یمن میں داخل ہونا)اور تَیَامَنَ (تَفَاعُلٌ)کے بھی یہی معنی ہیں ۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ابتداء:
اس کے معنی گذرچکے۔ جیسے:تَبَارَکَ اللہُ۔ (اللہ کی شان بلندہے )مجرد (بَرَکَ یَبْرُکُ)اونٹ کے بیٹھنے کے معنی میں آتاہے۔
(۴) باب تفعل
(۱)۔۔۔۔۔۔تحول :
فاعل کا ماخذ بن جانا ۔جیسے: تَنَصَّرَ۔( معاذ اللہ ، وہ نصرانی ہوگیا ) ماخذنصرانی ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اتخاذ :
فاعل کا ماخذ بنا نا، یاماخذاختیارکرلینا، یامفعول کو ماخذبنانا، یامفعول کوماخذمیں لینا۔جیسے: تَبَوَّبَ ( اس نے دروازہ بنایا )تَجَنَّبَ(اس نے کونہ پکڑلیا) تَوَسَّدَ الْحَجَرَ(اس نے پتھر کو تکیہ بنایا) تَئَبَّطَ الصَّبِیَّ (اس نے بچہ کو بغل میں لیا)
پہلی مثال میں ماخذ ''بَابٌ'' (دروازہ) دوسری میں ''جَنْبٌ''(کونہ، کنارہ) تیسری میں ''وِسَادَۃٌ''(تکیہ)اور چوتھی میں ''اِبْطٌ'' (بغل) ہے ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مطاوعت :
اس کے معنی بیان ہوچکے۔ جیسے: عَلَّمْتُہ، فَتَعَلَّمَ ( میں نے اس کو سکھایا تووہ سیکھ گیا)
(۴)۔۔۔۔۔۔موافقت :
باب تَفَعُّلٌ کا مجرد کے ہم معنی ہونا۔ جیسے: قَبِلَ کے معنی ہیں ( اس نے قبول کیا ) اور تَقَبَّل َکے بھی یہی معنی ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ابتداء :
اس کے معنی بھی بیان کردیے گئے ۔جیسے: تَشَمَّسَ۔ (وہ دھوپ میں بیٹھا )اس
کا مجرد فعل استعمال ہی نہیں ہوتا ۔
(۵) باب مفاعلہ
(۱)۔۔۔۔۔۔تصییر :
فاعل کا مفعول کو صاحب ماخذ بنانا ۔جیسے: عَافَاکَ اللَّہُ۔ (اللہ تعالی تجھے عافیت عطا فرمائے ) ماخذ مُعَافَاۃٌ(محفوظ رکھنا، صحت دینا)ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مشارکت :
جیسے: قَاتَلَ زَیْدٌ وَبَکْرٌ۔ (زید اور بکر نے آپس میں لڑائی کی ) ۔
(۳)موافقت :
مجرد کے ہم معنی ہونا۔جیسے: سَفَرْتُ۔کے معنی ہیں(سفر کرنا )اور سَافَرْتُ کے بھی یہی معنی ہیں۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ابتداء :
جیسے: قَاسٰی زَیْدٌ ہٰذِہٖ الْمُصِیْبَۃَ۔ (زید نے اس مصیبت کو برداشت کیا )اس کا مجرد فعل قَسَا یَقْسُوْ قَسْواً ہے جس کے معنی سخت ہونے کے ہیں ۔
0 Comments: