نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے
عجب اُس کے گل کی بہار ہے کہ بہار بلبلِ زار ہے
نہ دلِ بشر ہی فِگار ہے کہ مَلک بھی اس کا شکار ہے
یہ جہاں کہ ہَژدَہ ہزار ہے جسے دیکھو اس کا ہزار ہے
نہیں سر کہ سجدہ کُناں نہ ہو نہ زباں کہ زَمزَمَہ خواں نہ ہو
نہ وہ دل کہ اس پہ تَپاں نہ ہو نہ وہ سینہ جس کو قرار ہے
وہ ہے بھینی بھینی وہاں مہک کہ بسا ہے عرش سے فرش تک
وہ ہے پیاری پیاری وہاں چمک کہ وہاں کی شب بھی نَہار ہے
کوئی اور پھول کہاں کھلے نہ جگہ ہے جوشِشِ حسن سے
نہ بہار اور پہ رُخ کرے کہ جھپک پلک کی تو خار ہے
یہ سَمَن یہ سوسَن و یاسمن یہ بنفْشَہ سُنبُل و نَسْتَرَن
گل و سَرْوْ و لالہ بھرا چمن وہی ایک جلوہ ہزار ہے
یہ صبا سنک وہ کلی چٹک یہ زباں چہک لبِ جُو چھلک
یہ مہک جھلک یہ چمک دمک سب اسی کے دم کی بہار ہے
وہی جلوہ شہر بَشہر ہے وہی اصلِ عالَم و دَہر ہے
وہی بحر ہے وہی لہر ہے وہی پاٹ ہے وہی دھار ہے
وہ نہ تھا تو باغ میں کچھ نہ تھا وہ نہ ہو تو باغ ہو سب فنا
وہ ہے جان، جان سے ہے بقا وہی بن ہے بن سے ہی بار ہے
یہ ادب کہ بلبلِ بے نوا کبھی کھل کے کر نہ سکے نوا
نہ صبا کو تیز رَوِش روا نہ چھلکتی نہروں کی دھار ہے
بہ ادب جھکالو سرِوِلا کہ میں نام لوں گل و باغ کا
گلِ تر محمدِ مصطفیٰ چمن اُن کا پاک دِیار ہے
وہی آنکھ اُن کا جو مُنہ تکے وہی لب کہ محوہوں نعت کے
وہی سرجو اُن کے لئے جھکے وہی دل جو اُن پہ نثار ہے
یہ کسی کا حسن ہے جلوہ گر کہ تَپاں ہیں خوبوں کے دل جگر
نہیں چاک جَیبِ گل و سحر کہ قَمر بھی سینہ فَگار ہے
وہی نذرِ شہ میں زرِ نکو جو ہو اُن کے عشق میں زَردْ رُو
گلِ خلد اس سے ہو رنگ جو یہ خزاں وہ تازہ بہار ہے
جسے تیری صفِّ نِعال سے ملے دو نوالے نَوال سے
وہ بنا کہ اس کے اُگال سے بھری سلطنت کا اُدھار ہے
وہ اٹھیں چمک کے تجلِّیّاں کہ مٹا دیں سب کی تعلِّیّاں
دل و جاں کو بخشِیں تَسلّیاں ترا نور بارِ د و حار ہے
رُسُل و مَلک پہ درود ہو وہی جانے اُن کے شمار کو
مگر ایک ایسا دکھا تو دو جو شفیعِ روزِ شُمار ہے
نہ حجاب چَرخ و مَسِیح پر نہ کلیم و طُور نِہاں مگر
جو گیا ہے عرش سے بھی اُدھر وہ عرب کا ناقَہ سوار ہے
وہ تری تجلّیِ دل نشیں کہ جھلک رہے ہیں فلک زمیں
ترے صدقے میرے مَہِ مبیں مری رات کیوں ابھی تار ہے
مِری ظلمتیں ہیں سِتم مگر ترا مَہ نہ مِہر کہ مِہرگَر
اگر ایک چھینٹ پڑے ادھر شبِ داج ابھی تو نَہار ہے
گنہِ رضاؔ کا حساب کیا وہ اگرچہ لاکھوں سے ہیں سِوا
مگر اے عَفُوّ ترے عَفْو کا نہ حساب ہے نہ شمار ہے
تِرے دینِ پاک کی وہ ضیا کہ چمک اٹھی رہِ اِصطَفا
جو نہ مانے آپ سقر گیا کہیں نور ہے کہیں نار ہے
کوئی جان بس کے مہک رہی کسی دل میں اس سے کھٹک رہی
نہیں اس کے جلوے میں یک رہی کہیں پھول ہے کہیں خار ہے
وہ جسے وہابیہ نے دیا ہے لقب شہید و ذبیح کا
وہ شہیدِ لیلیِ نَجد تھا وہ ذَبیحِ تیغِ خِیار ہے
یہ ہے دیں کی تَقْوِیَت اُس کے گھر یہ ہے مستقیم صراطِ شر
جو شقی کے دل میں ہے گاؤ خر تو زباں پہ چوڑھا چمار ہے
وہ حبیب پیارا تو عمر بھر کرے فیض و جُود ہی سر بسر
ارے تجھ کو کھائے تپِ سقر ترے دل میں کس سے بخار ہے
وہ رضاؔ کے نیزہ کی مار ہے کہ عَدُوّ کے سینہ میں غار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے پار ہے
٭…٭…٭…٭…٭…٭
0 Comments: