وہ نافع دوا یہ ہے کہ وہ ریاکاری سے منہ پھیر لے کیونکہ یہ نقصان دہ اور دل کی اصلاح کھو دینے والی، دنیامیں توفیق اور آخرت میں بلند درجات سے محروم کر دینے والی اور سخت عذاب، شدید ناراضگی اور ظاہری رسوائی کا باعث بننے والی ہے کہ جب ریاکارکو لوگوں کے سامنے بلا کر کہا جائے گا :''اے فاجر! اے دھوکے باز! اے ریاکار! کیا تجھے حیانہ آئی جب تُو نے اللہ عزوجل کی اطاعت کے بدلے دنیا کا ساز وسامان خریدا؟ تُو نے بندوں کے دلوں پر نظر رکھی، اللہ عزوجل کی نظرِرحمت اور اس کی اطاعت کا مذاق اڑایا، اللہ عزوجل سے بغض رکھا اور اس کے بندوں سے محبت کی، لوگوں کے لئے ایسی چیزوں سے آراستہ ہوا جو اللہ عزوجل کے نزدیک بری تھیں اور اللہ عزوجل سے دوری اختیار کرکے لوگو ں کی قربت پائی۔''
اگر ریا کی برائی فقط یہ ہوتی کہ اس کی وجہ سے کوئی ایک عبادت ہی برباد ہوتی تب بھی اس کا نقصان کافی تھا کیونکہ قیامت کے دن انسان نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کے لئے ایک ایک عبادت کا محتاج ہو گا ورنہ جہنم میں جاپڑے گا۔ جو اللہ عزوجل کو نارا ض کر کے مخلوق کی رضا چاہتا ہے، اللہ عزوجل اس پر خود بھی ناراض ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس پر ناراض کر دیتا ہے کیونکہ لوگوں کو راضی رکھنا ایک ایسی چیز ہے جو حاصل نہیں ہو سکتی، ہوسکتاہے وہ کسی ایک قوم کو راضی کرے تو دوسری قوم ناراض ہو جائے، پھر لوگوں کی طرف سے مدح سے کوئی نفع نہ ہونے کے باوجود اللہ عزوجل کی طر ف سے مذمت اور غضب کے مقابلے میں لوگو ں کی طرف سے تعریف کو ترجیح دینے میں اس کی کون سی غرض پوشیدہ ہے؟ نہ تو اسے اس تعریف سے نفع حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے کوئی نقصان دور کر سکتی ہے کیونکہ نفع دینے اور نقصان سے بچانے والا اللہ عزوجل ہی ہے، اسی کا حق ہے کہ صرف اسی کا قصد کیا جائے کیونکہ وہی دلوں کو منع اور عطا کے ساتھ مسخر کرنے والا ہے اور اس کے سوا کوئی رازق، معطی، نافع اور ضارّ نہیں۔حقیقت یہی ہے کہ مخلوق سے طمع رکھنے والاانسان ذلت ورسوائی یا احسان جتلائے جانے کے بوجھ واہانت سے محفوظ نہیں رہ سکتا لہٰذا وہ جھوٹی اور فاسداُمید کے بدلے میں اللہ عزوجل کے اِنعامات کیسے چھوڑ دیتاہے؟ ایسا شخص کبھی تواپنا مقصد پا لیتاہے اور کبھی ناکام رہتا ہے، جیسے اگر لوگ اس کے دل کی ریا پر مطلع ہوجائیں تو اسے دھتکار دیں، اس پر ناراض ہوں اور اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے محروم کر دیں۔ لہٰذا جوان باتوں کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھے گا لوگوں میں اس کی رغبت ختم ہو جائے گی اور وہ سچائی کو قبول کرلے گا۔
0 Comments: