اللہ عزوجل کی رحمت پر بھروسہ بھی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو کربندہ گناہوں میں بھی مستغرق ہو تو یہ گناہِ کبیرہ ہے۔اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے :
(1) فَلَا یَاۡمَنُ مَکْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿٪99﴾
ترجمۂ کنزالایمان :تو اللہ کی خفی تدبیر سے نڈرنہیں ہوتے مگر تباہی والے۔(پ9، الاعراف :99)
(2) وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیۡ ظَنَنۡتُمۡ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰىکُمْ فَاَصْبَحْتُمۡ مِّنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿23﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اوریہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں۔(پ24، حٰمۤ السجدۃ:23)
(1)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اللہ عزوجل اسے اس کی خواہش کے مطابق عطا فرماتاہے حالانکہ وہ اپنے گناہ پر قائم ہے تو یہ اللہ عزوجل کا اُسے درجہ بدرجہ عذاب ميں مبتلا کر نا ہے پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیۡہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوۡا بِمَاۤ اُوۡتُوۡۤا اَخَذْنٰہُمۡ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمۡ مُّبْلِسُوۡنَ ﴿44﴾
ترجمۂ کنزالایمان :پھر جب انہو ں نے بھلادیا جو نصیحتیں ان کو کی گئیں تھیں ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اس پر جو انہیں ملاتو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیااب وہ آس ٹو ٹے رہ گئے۔(پ7، الانعام:44)
(المعجم الاوسط، الحدیث:۹۲۷۲،ج۶،ص۴۲۲)
یعنی وہ نجات اور ہر بھلائی سے مایوس ہیں اور ان پر نعمتوں کی بارش ہونے اور دوسروں کی ان سے محرومی سے دھوکا کھانے کی وجہ سے ان کے لئے حسرت، غم اور رسوائی ہے۔اسی لئے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''اللہ عزوجل جس پر وسعت فرمائے اوروہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر ہے، تو وہ بالکل بے عقل ہے۔''
اورایک ناشکری قوم کے بارے میں فرمایا:''رب کعبہ کی قسم! اللہ عزوجل نے ان کے ساتھ خفیہ تدبیر فرمائی ان کی مرادیں پوری فرمائیں پھر ان پر پکڑ فرمائی۔''
(2)۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے :''جب اللہ عزوجل نے ابلیس لعین کے ساتھ خفیہ تدبیر فرمائی تو حضرت سیدنا جبرائیل اور حضرت سیدنا میکائیل (علیہما الصلوٰۃ و السلام)رونے لگے، اللہ عزوجل نے ان سے استفسار فرمایا(حالانکہ وہ بخوبی جانتا تھا) تم دونوں کو کس چیز نے رلایا ہے؟'' تو انہوں نے عرض کی ،''یارب عزوجل! ہم تیری خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں۔'' تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :''ایسے ہی رہو میری خفیہ تدبیر سے بے خوف مت ہونا۔''
(تفسیرروح المعانی، سورۃ النمل ، تحت الآیۃ:۱۰،ج۱۹،ص۲۱۷)
(3)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ! ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔ یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کواپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔''
(جامع الترمذی، ابواب الدعوات، باب دعاء''یا مقلب القلوب'' الحدیث:۳۵۲۲،ص۲۰۱۴)
(4)۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ''یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کیا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خوف رکھتے ہیں؟''تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''دل رحمن عزوجل کی (قدرت کی)دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ جیسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔''
(کنزالعمال، کتاب الایمان، قسم الاقوال، فصل الثالث، الحدیث:۱۲۱۲/۱۲۱۳،ج۱،ص۱۳۳)
یعنی قلوب اللہ عزوجل کے خیر وشر کے ارادوں کے دو مظہروں کے درمیان ہیں، وہ انہیں اس تیز ہَوا سے بھی جلد پھیر دیتا ہے جو قبول ومردود اور پسند و ناپسند وغیرہ اوصاف میں پھرتی رہتی ہے، اورقرآن پاک میں ہے:
وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ
ترجمۂ کنزالایمان : اور جان لو کہ اللہ کاحکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتاہے۔(پ9، الانفال:24)
یعنی اس کے اور اس کی عقل کے درمیان یہاں تک کہ وہ یہ نہیں جان پاتا کہ وہ کیاکررہاہے۔ یہ حضرت سیدنامجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے اور اس کی تائید اللہ عزوجل کایہ فرمانِ عالیشان بھی کرتا ہے :
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ
ترجمۂ کنزالایمان : بے شک اس میں نصیحت ہے اس کے لئے جو دل رکھتاہو۔(پ26، ق:37)
یہاں قلب سے مراد عقل ہے اور سیدناامام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختار مذہب یہ ہے اس حائل ہونے سے مراد بندوں کو یہ خبر دینا ہے کہ وہ ان کے دلوں کاان سے زیادہ مالک ہے اور وہ جب چاہتاہے ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی بھی اللہ عزوجل کی مشیّت کے بغیرکچھ نہیں جان پاتا۔''
(5)۔۔۔۔۔۔جب دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم یہ دعا مانگتے: ''یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ! ثَبِّتْ قَلْبِیَ عَلٰی
ترجمۂ کنز الایمان:اورقیامت کے دن تم دیکھوگے انہیں جنہوں نے اللہ پرجھوٹ باندھا کہ ان کے منہ کالے ہیں۔(پ 24,الزمر: 60)
دِیْنِکَ۔'' (یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کواپنے دین پر ثابت قدم رکھ) تو اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی ''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کثرت سے یہ دعا مانگتے ہیں کیا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بھی کوئی خوف ہے؟'' تو رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''میں بے خوف کیسے رہ سکتا ہوں، حالانکہ قلوب رحمن عزوجل کی(قدرت کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جب اپنے کسی بندے کے دل کو پھیرنا چاہتا ہے پھیر دیتاہے۔''
بے شک اللہ عزوجل نے پختہ علم والوں کی اس دعاپران کی تعریف فرمائی:
رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوۡبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیۡتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿8﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اے رب ہمارے دل ٹیرھے نہ کربعد اس کے کہ تونے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطاکربے شک تو ہے بڑادینے والا۔(پ3، اٰل عمران:8)
یاد رکھئے ! اس آیتِ مبارکہ میں معتزلہ کے عقائد کے رد اور اہل سنت کے اعتقاد کی حقیقت پرظاہر دلالت اور واضح حجت ہے کہ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ عزوجل کی مخلوق اور اس کے ارادے سے ہیں، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ دل خیرو شر اور ایمان وکفر کی طرف مائل ہونے کی صلاحیت رکھتاہے، لیکن اس کا ان میں سے کسی کی طرف کسی داعی کے بغیرمائل ہونا محال ہے بلکہ اس کے مائل ہونے کے لئے کسی ایسے داعی اور ارادے کا ہونا ضروری ہے جسے اللہ عزوجل ہی عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ کفرکے دواعی کے لئے قرآن پاک میں مدد چھوڑ دینا، بھٹکانا، منہ پھیرنا، مہر لگنا، زنگ آلود ہونا، دل کاسخت ہونا، کان بھر جانا وغیرہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جبکہ ایمان کے دواعی کے لئے قرآن مجید میں توفیق، ارشاد، ہدایت، تسدید، ثابت قدمی اور عصمت وغیرہ کے الفاظ واردہوئے ہیں۔
(6)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''مؤمن کادل رحمن عزوجل کی (قدرت کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب وہ اسے قائم رکھنا چاہتا ہے تو قائم رکھتاہے اور جب بھٹکانا چاہتا ہے تو راہِ حق سے بھٹکا دیتا ہے۔''
(کنزالعمال، کتاب الایمان، قسم الاقوال، فصل الثالث، الحدیث:۱۱۶۴،ج۱،ص۱۲۸،بدون''قلب المؤمن'')
گذشتہ بیان کی گئی اس اوردیگر احادیث مبارکہ میں دو انگلیوں سے مراد یہی مذکورہ دواعی ہیں، لہٰذا اس میں خوب غور کرنا چاہے۔
(7)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیرکا خوف دلانے کے لئے سیدعالم،نورمجسّم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کایہ فرمان عالیشان بھی ہے :''تم میں سے کوئی جنتیوں والے عمل کرتاہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کافاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ جہنمیوں کے کام کرتے ہوئے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔''
(صحیح مسلم، کتاب القدر،باب کیفیۃ الخلق الآدمی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۷۲۳،ص۱۱۳۸)
(8)۔۔۔۔۔۔ شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''بندہ جہنمیوں کے کام کرتاہے حالانکہ وہ جنتی ہوتاہے اور کوئی شخص جنتیوں کے عمل کرتاہے حالانکہ وہ جہنمیوں میں سے ہوتاہے، کیونکہ اعمال کادارومدار خاتمہ پر ہی ہوتا ہے۔''
(صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب الاعمال بالخواتیم، الحدیث:۶۴۹۳،ص۵۴۵،تقدما تأخرا)
0 Comments: