گذشتہ ساری بحث سے آپ پر مکمل طور پر یہ بات واضع ہو گئی ہو گی کہ ان تمام اوصاف کا نقصان کتنا بڑا ہے، نیز ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کو سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے کبیرہ گناہ شمار کیا ہے، حالانکہ وہ ان کو کبیرہ شمار کرنے میں منفرد نہیں بلکہ کئی دوسرے علماء وائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو کبیرہ ہی شمار کیا ہے، لہٰذا اپنے دل اور باطن کو ان کبائر کی خباثت سے محفوظ رکھیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے باطن بلکہ ظاہر کو بھی فساد میں مبتلا کردیں گے۔
تنبیہ 3:
گذشتہ تمام کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بدخلقی کا باعث بنتا ہے جبکہ ان سے کنارہ کَش ہونے سے انسان حسنِ اخلاق کا پیکر بن جاتا ہے، پھر یہی حسن اخلاق اس کو کمالِ حکمت سے عقلی قوت کے اعتدال اور شہوانی اور غضب کی قوت کی عذرخواہی تک لے جانے کے ساتھ ساتھ عقلی طور پر شریعت کے عطا کردہ اَحکامات کی بجاآوری تک لے جاتا ہے، اس اعتدال کا حصول یا تو اللہ عزوجل کے خاص کرم اور فطری کمال سے ہوتا ہے یا پھر مجاہدہ اور ریاضت جیسے اسباب کو اپنانے سے ہوتا ہے، مثلا ً
(۱)وہ اپنے نفس کو ہر اس کام پر مجبور کرے جس کے کرنے کا تقاضا حسنِ اخلاق کرے،
(۲)ہر برائی کی مخالفت کرے کیونکہ وہ نہ تو اللہ عزوجل کی محبت کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی اس وقت تک اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت حاصل ہو سکتی ہے جب تک کہ اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل نہ کر لیا جائے،
(۳)شہوانی خواہشات سے نفس کو خلوت اور عزلت نشینی سے بچایا جائے تا کہ سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں اپنی پسندیدہ اشیاء سے محفوظ رہ سکیں،
(۴)اس کے بعد اسی خلوت نشینی میں دائمی ذکر ودعا کو اپنا معمول بنا لیا جائے یہاں تک کہ انسان پر اللہ عزوجل اور اس کے ذکر کی محبت غالب آجائے،
جب انسان مذکورہ تمام اسباب مہیا کر لے تو بالآخر وہ اس اعتدال کی نعمت کو پانے میں کامیاب ہو جائے گا اگرچہ ابتدا میں اس پر یہ سب کچھ کرنا گِراں گزرے گا، بعض اوقات مجاہدات کوکرنے والا شخص یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ شاید اس نے ان چھوٹے چھوٹے مجاہدات سے اپنے نفس کو مہذب اور حسنِ اخلاق کا پیکر بنا لیا ہے حالانکہ ابھی کہاں اس مرتبہ کا حصول ممکن ہو گیا، ابھی نہ تو اس میں کاملین کی صفات پائی جاتی ہیں اور نہ ہی اس نے سچے مؤمنین کے اخلاق اپنائے ہیں جیسا کہ
(۱) ان اوصاف کا تذکرہ اللہ عزوجل نے اپنی لاریب کتاب میں کچھ اس طرح کیا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوۡبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیۡہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیۡمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ
ترجمۂ کنزالایمان:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚۖ2﴾الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿3﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿4﴾
پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔وہ جو نماز قائم رکھیں اور ہمارے دیئے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کریں۔یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لئے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(پ9،الانفال:2تا4)
(2) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿1﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿2﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ3﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿4﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِفُرُوۡجِہِمْ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿5﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿6﴾فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوۡنَ ۚ﴿7﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَ عَہۡدِہِمْ رَاعُوۡنَ ۙ﴿8﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿9﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوۡنَ ﴿ۙ10﴾الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿11﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔اور وہ جو کسی بے ہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔ اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں،اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:1تا 11 )
(3) اَلتَّآئِبُوۡنَ الْعٰبِدُوۡنَ الْحمِٰدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالْمَعْرُوۡفِ وَالنَّاہُوۡنَ عَنِ الْمُنۡکَرِ وَ الْحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللہِ ؕ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿112﴾
ترجمۂ کنزالایمان:توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔(پ11،التوبۃ:112)
(۴)وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا0 وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ
ترجمۂ کنزالایمان:اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اورجب جاہل ان سے بات کرتے ہیں توکہتے ہیں بس سلام، اور وہ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿64﴾وَالَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ65﴾اِنَّہَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿66﴾وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمْ یُسْرِفُوۡا وَلَمْ یَقْتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿67﴾ وَالَّذِیۡنَ لَا یَدْعُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوۡنَ النَّفْسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوۡنَHوَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا ﴿ۙ68﴾یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ یَخْلُدْ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ69﴾اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَکَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿70﴾وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللہِ مَتَابًا ﴿71﴾وَالَّذِیۡنَ لَا یَشْہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغْوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿72﴾وَالَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا ﴿73﴾وَالَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿74﴾اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوْنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ75﴾خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿76﴾قُلْ مَا یَعْبَىؤُا بِکُمْ رَبِّیۡ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ ۚ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪77﴾
جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں، اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے پھیر دے جہنم کا عذاب بیشک اس کا عذاب گلے کا غل(پھندا) ہے، بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں،اوروہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کوجس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا، بڑھایا جائے گا اس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا، مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے تھی، اور جوجھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں، اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے، اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دے ہماری بیبیوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا، ان کو جنت کا سب سے اونچا بالا خانہ انعام ملے گا بدلہ انکے صبر کا اور وہاں مجرے اور سلام کے ساتھ انکی پیشوائی ہو گی، ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا ہی اچھی ٹھہرنے اور بسنے کی جگہ، تم فرماؤ تمہاری کچھ قدر نہیں میرے رب کے یہاں اگر تم اسے نہ پوجوتوتم نے جھٹلایا تو اب ہو گا وہ عذاب کہ لپٹ رہے گا۔(پ19،الفرقان:63تا77)
جس شخص پر اپنے نفس کی حالت مشتبہ ہو جائے تو اسے ان آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کرنا چاہے اور پھرغورکرے کہ آیاان آیات میں مذکور اوصافِ حمیدہ مجھ میں پائے جاتے ہیں یا نہیں،کیونکہ ان تمام اوصاف کا پایا جانا حسنِ اخلاق اور نہ پایا جانا بداخلاقی کی علامت ہے، اور بعض کا پایا جانا بعض عادات پر ہی دلالت کرتاہے نہ کہ مکمل اخلاقِ حسنہ پر۔
(105)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے اس فرمانِ عالیشان میں ان تمام اخلاقِ حسنہ کو جمع فرما دیا ہے ''مؤمن اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔''
(البخاری،کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۳،ص۳)
نیز مؤمن اپنے اسلامی بھائی کو ہمیشہ اپنے مہمان اور پڑوسی کی عزت کرنے کا ہی حکم دے گا اور اس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ بات کریگا تو صرف بھلائی کی، ورنہ خاموش رہے گا۔
(106)۔۔۔۔۔۔نبئ کریم،رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''جب کسی مؤمن کو پروقار انداز میں خاموشی کا پیکر پاؤ تو اس کی قربت حاصل کیا کرو کیونکہ وہ (جب بھی بولے گا تو) صرف حکمت آموز باتیں ہی کہے گا۔''
(احیاء علوم الدین،کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاَخلاق،بیان علامات حسن الخلق،ج۳،ص۸۵،یلقی بدلہ''یلقن'')
(107)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف ایسی نگاہ سے اشارہ کرے جو اسے اَذیت دینے والی ہو۔''
(احیاء علوم الدین،کتاب آداب الآ لفۃ۔۔۔۔۔۔الخ،حقوق المسلم،ج۲،ص۲۴۳)
(108)۔۔۔۔۔۔نبئ کریم،ر ء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ڈرائے۔''
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب، باب من یأخذ الشیء من مزاح،الحدیث: ۵۰۰۴،ص۱۵۸۹)
(109)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''شرکاء مجلس اللہ عزوجل کےامین ہوتے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کی وہ بات ظاہر کرے جس کا ظاہر کرنا اسے ناپسند ہو۔''
(الزہد لابن المبارک،باب ماجاء فی الشح،الحدیث۶۹۱،ص۲۴۰،اخیہ بدلہ''صاحبہ'')
کسی صاحبِ علم نے حسنِ اخلاق کی تمام علامات کو اپنے اس قول میں یوں جمع کر دیا ہے:'' حسنِ اخلاق کا پیکر وہ ہے جوحد سے زیادہ حیا والا ہو، بہت کم کسی کو اذیت دے، نیکیوں کا جامع ہو، سچ بولے، گفتگوکم اور عمل زیادہ کرے اور وقت بھی کم ضائع کرے نیز بہت کم لغزش کاشکار ہو، وہ نیک، پروقار، صابر، راضی بقضائے الٰہی عزوجل ، شکر گزار، بردبار، نرم دل، پاکدامن اور شفیق ہو نہ کہ عیب جُو، گالیاں دینے والا، غیبت کرنے والا، جلدباز، کینہ پرور، بخیل اور حاسد ہو بلکہ ہشاش بشاش رہتا ہو اللہ عزوجل کی خاطر محبت اور بغض رکھے، اللہ عزوجل کی ہی خاطر کسی سے راضی یا ناراض ہو تو وہی شخص حسنِ اخلاق کا پیکر کہلانے کا حق رکھتا ہے ۔''
اللہ عزوجل ہمیں ان اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر ہمیشہ اپنے فضل وکرم کی بارش نازل فرمائے، ہمیں اپنے قرب کی دولت سے سرفراز فرمائے اور اپنے اولیاء کرام، محبین عِظام اور غلاموں کی صف میں شامل فرما لے۔ آمین!
0 Comments: