شادی کے بعد بھی مختلف قسم کی رسمیں قریب قریب ہرجگہ موجود ہیں نکاح کے بعد کی رسموں میں یو۔پی۔کا علاقہ سب ملکوں سے آگے بڑھاہوا ہے یوپی میں تین طرح کی رسمیں جاری ہیں۔ ایک چوتھی،دوسری کنگنااور سہراکھولنےکی رسم،تیسری کھیرکی رسم، چوتھی کو یہ ہوتاہے کہ رخصت کے دوسرے دن دلہن کے میکے سے تیس یا چالیس آدمی یا کچھ کم وبیش چوتھی لوٹانے کیلئے دولہا کے گھر جاتے ہیں، جہاں ان کی پر تکلّف دعوت ہوتی ہے کھانا کھا کر میٹھے چالوں کے تھال میں اپنی حیثیت سے زیادہ روپیہ رکھتے ہیں یہ روپیہ بھی دلہن والوں کی طرف سے چندہ ہوکر بطورنیوتا جمع ہوتا ہے بعض بعض جگہ اس وقت تھال میں سویادوسویاکچھ زیادہ روپیہ ڈالتے جاتے ہیں پھر لڑکی کو اپنے ہمراہ لے آتے ہیں چوتھے دن دولہاکی طرف سے کچھ عورتیں اور کچھ مرد دلہن کے میکے جاتے ہیں اپنے ساتھ سبز ترکاریاں آلو،بینگن وغیرہ اور کچھ مٹھائی جس میں لڈّو ضرور ہوں لے جاتے ہیں۔وہاں کی تواضع خاطرکے لئے پتلی پتلی کھیر تیار ہوتی ہے۔ایک ٹوٹی کرسی پر کھیر کی تھالی بھری ہوئی رکھ کر اوپر سے سفید چادر ڈال دیتے ہیں دولہا کو بیٹھنے کیلئے وہ کرسی پیش کی جاتی ہے دولہا میاں بے خبراس پربیٹھتاہے،بیٹھتے ہی تمام کپڑے کھیر میں خراب ہوجاتے ہیں اور ہنسی اڑاتی ہے پھر دلہن والے دولہا والوں کے کپڑے اور منہ خوب اچھی طرح خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنا بچاؤ کرتے ہیں اس میں خوب دل لگی رہتی ہے جب اس شیطانی رسم سے نجات ہوئی تب کھانا کھلایا۔
بعد ظہر ایک چوکی پردولہا، دلہن، آمنے سامنے بیٹھے وہ لڈو جو دولہا کی طرف سے لائے گئے ہیں آس پاس پھکوائے گئے یعنی دولہا نے دولہن کی طرف پھینکا اور دلہن نے دولہا کی طرف جب سات چکر پورے ہوگئے تب وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ شيطان بھی دم دبا کر بھاگ جائے۔وہ ترکاریاں اور آلو،شلغم، بینگن وغیرہ جو دولہا والے ساتھ لائے تھے اب ان کے دو حصّے کئے جاتے ہیں ایک حصّہ دولہا والوں کا اوردوسرا حصّہ دلہن والوں کا پھر ایک دوسرے کو اس سے مارلگاتے ہیں اس کے بعد جو اور ترّقی ہوتی ہے وہ بیان کے قابل نہیں یہ تو چوتھی ہوئی اب آگے چلئے جب دلہن کو واپس سُسرال لے گئے۔تب کنگنا کھولنے کی رسم ادا ہوئی وہ اس طرح کہ دلہن سے کنگنا کھلوایا گیا۔ ادھر سے دولہا نے اس کی گانٹھیں سخت کر رکھی ہیں ادھر سے دلہن کی پوری کوشش ہے کہ اس کو کھول ڈالے جب یہ بمشکل تمام کھولا جا چکاتب آپس میں ایک دوسرے پر پانی پھینکا اور اس میں بڑا ہر(یعنی گروہ)وہ مانا جاتا ہے جو کسی شریف آدمی کو دھوکے سے بلاکراس کو بھگودے اور جب وہ خفا ہو تو ادھر سے خوشی میں تالیاں بجیں۔سہرا کھولنے کی یہ رسم ہے کہ جب سہرا کھولا گیاتو کسی قریب کے دریا میں اور اگر دریا موجود نہ ہو تو کسی تالاب میں اگر تالاب بھی نہ تو کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈال دیا جائے مگر یہ سہرا اگر ڈالنے کے لئے عورتیں جائیں تو گاتی بجاتی ہوئی اور واپس ہوں تو گاتی بجاتی ہوئی اور اگر مرد جاکر ڈالیں تو پڑھے لکھے تو ویسے ہی پھینک آتے ہیں اور جاہل لوگ دریا کو سلام کرکے اس میں ڈالتے ہیں پھر کچھ میٹھے چاول پکا کر خواجہ خضر کی فاتحہ نیاز ہوتی ہے، لیجئے جناب آج ان رسموں نے پیچھا چھوڑا۔
0 Comments: