پنجاب اورکاٹھیا واڑ میں طلاق کابہت رواج ہے۔ معمولی سی باتوں پر تین طلاقیں دے دیتے ہیں اور ہندومحرروں سے طلاق نامہ لکھواتے ہیں۔جو اسلامی مسائل سے بالکل جاہل ہیں۔ پھر بعد میں پچھتا کر مفتی صاحب کے پاس روتے ہوئے آتے ہیں کہ مولوی صاحب خدا کے لئے کوئی صورت نکالو کہ میری بیوی پھر نکاح میں آجائے میں چونکہ فتو ؤں کا کام کرتا ہوں اس لئے مجھے ان واقعات سے بہت سابقہ پڑتا رہتا ہے پھر بہانہ یہ بتا تے ہیں کہ غصہ میں ایسا ہوگیا۔
دوستو ! طلاق غصہ میں ہی دی جاتی ہے، خوشی میں کون دیتا ہے پھر یہ حیلہ کرتے ہیں کہ وہابیوں سے مسئلہ لکھواتے ہیں کہ ایک دم تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی ہے اس میں رجوع جائز ہے۔ دو ستو ! یہ حیلہ بہانہ بالکل بے کار ہے اگر تم وہابی کیا عیسائی آریہ سے بھی لکھوالاؤ کہ طلاق نہ ہوئی۔ کیا اس سے شرعی حکم بد ل جائے گا ہر گز نہیں(اس کی تحقیق کہ طلاقیں ایک ہوتی ہیں یا نہیں ہمارے فتا وی میں دیکھو جس میں اس مسئلہ کی پوری تحقیق کردی گئی ہے اورمسلم کی حدیث سے جو د ھو کا دیا جاتا ہے اس کو بھی صاف کردیا گیا ہے لہٰذا میر امشورہ یہ ہے کہ اوّل تو طلاق کانام ہی نہ لو، یہ بہت بری چیز ہے ''اَبْغَضُ الْمُبَاحَاتِ الطَّلَاقُ'' (یعنی جائز چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ شے طلاق ہے )۔
اگر ایسا کرنا ہی ہو تو صرف ایک طلاق دوتا کہ اگر بعد کو اور دو بارہ نکاح کی گنجائش رہے اور ہمیشہ طلاق نامہ مسلمان واقف کا ر محرّ ر یا کسی عالم دین کی رائے سے لکھواؤ۔
0 Comments: