نکاح کے بعد کبھی شوہر بیوی میں نا اتفاقی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شوہر عورت کی صورت سے بیزار ہوتا ہے او ر عورت شوہر کے نام سے گھبراتی ہے جس میں کبھی تو قصور عورت کا ہوتا ہے کبھی مرد کا۔ مرد تو دوسرا نکاح کرلیتا ہے اور اپنی زندگی آرام سے گزارتا ہے مگر بے چاری عورت ہی نہیں بلکہ اس کے میکے والوں تک کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے جس کا دن رات تجربہ ہورہا ہے۔ لڑکی والے رو رہے ہیں۔ کبھی مر دغائب یا دیوانہ پاگل ہوجاتا ہے جس کی طلاق کا شرعا اعتبار نہیں۔ اب عورت بے بس ہے غیر مسلم قومیں مسلمانوں پر طعن دیتی ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم او ر مردو ں کو بے جا آزادی ہے اس کا علاج عورتوں نے تو یہ سو چا کہ وہ مرد سے طلاق حاصل کرنے کے لئے مرتد ہونے لگیں یعنی کچھ رو ز کے لئے عیسائی یا آریہ وغیرہ بن گئیں پھر دو بارہ اسلام لا کر دو سرے نکاح میں چلی گئیں، یہ علاج خطرناک ہے اور غلط بھی کیونکہ اس میں مسلم قوم کے دامن پر نہایت بد نما دھبہ لگتا ہے اور بہت سی عورتیں پھر اسلام میں واپس نہیں آتیں جس کی مثالیں میرے سامنے موجود ہیں نیز عورت بے ایمان بن جانے سے پہلا نکاح ٹو ٹتا بھی نہیں بلکہ قائم رہتا ہے۔ بعض لیڈر ان قوم نے اس کا یہ علاج سوچا کہ فسخ نکاح کاقانون بنوادیا لیکن اس قانون سے بھی شرعا نکاح نہیں ٹو ٹتا۔ طلاق شوہر دے تب ہی ہوسکتی ہے بعض عقلمند لوگو ں نے یہ تد بیر سوچی کہ بڑے بڑے مہر بندھوائے پچاس ہزار ایک لاکھ روپیہ یا اپنی لڑکیوں کے نام دولہا سے مکان یاجائیداد لکھوائی مگر یہ علاج بھی مفید ثابت نہ ہوا کیونکہ اتنے بڑے مہر کے وصول کرنے کے لئے عورت کے پاس کافی روپیہ چاہيے اور بہت دفعہ ایسا ہو ا کہ مقدمہ چلا۔ شوہر نے ادائے مہر کے جھوٹے گواہ کھڑے کر دیئے کہ میں نے مہر دے دیا ہے یا اس نے معاف کر دیا ہے اس کی بھی مثالیں موجود ہیں اگر کوئی مکان وغیرہ نام کر الیا تو بھی بیکار کیونکہ جب مرد عورت سے آنکھ پھیر لیتا ہے تو پھر مکان یا تھوڑی زمین کی پرواہ نہیں کرتا اگر وہ مکان چھوڑ بیٹھے تو کیا عورت مکان چاٹے گی۔ ایسے ہی اگر شو ہر سے کچھ ما ہوار تنخواہ لکھوالی تو اولا تو وصول کرنا مشکل، اگر شو ہر غائب ہوگیا یا وہ غریب آدمی ہے تو کس طر ح ادا کرے اور اگر تنخواہ ملتی بھی رہی تو جوانی کی عمر کیوں کر گزارے۔ دوستو ! یہ سارے علاج غلط ہیں۔ اس کا صرف ایک علاج ہے وہ یہ کہ نکاح کے وقت کابین نامہ شوہر سے لکھوالیا جائے۔ کابین نامہ یہ ہے کہ ایک تحریر لکھی جائے جس میں شوہر کی طر ف سے لکھا ہو کہ اگر میں لاپتہ ہوجاؤں یا اس بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کر کے اس پر ظلم کرو ں یا اس کے حقوق شرعی ادا نہ کرو ں وغیرہ وغیرہ تو اس عورت کو طلاق بائنہ لینے کا حق ہے لیکن یہ تحریر نکاح کے ایجاب وقبول کے بعد کرائی جائے یا نکاح خواں قاضی ایجاب تو مرد کی طر ف سے کرے اور عورت اس شرط پر قبول کرے کہ مجھ کو فلاں فلاں صورت میں طلاق لینے کا حق ہوگا او رمختار پھر ان شاء اللہ عزوجل! شوہر کسی قسم کی بدسلوکی نہ کر سکے گا اور اگر کرے تو عورت خود طلاق لے کر مرد سے آزاد ہوسکے۔
اس میں شرعا کچھ حرج نہیں اور یہ علاج بہت مفید ثابت ہوا۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ مسلمانوں کے گھر بگڑیں بلکہ میں یہ چاہتاہوں کہ بگڑنے سے بچیں مرد اس ڈر سے عورتیں کے ساتھ بد سلو کی کرنے سے بازر ہیں۔
0 Comments: