محرم ۹ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بشر بن سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی خزاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے صدقات وصول کرکے جمع کئے کہ ناگہاں ان پر بنی تمیم نے حملہ کر دیا وہ اپنی جان بچا کر کسی طرح مدینہ آ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی سرکوبی کے لئے حضرت عیینہ بن حصن فزاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے بنی تمیم پر ان کے صحرا میں حملہ کرکے ان کے گیارہ مردوں، اکیس عورتوں اور تیس لڑکوں کو گرفتار کر لیا اور ان سب قیدیوں کو مدینہ لائے۔(1) (زرقانی ج۳ص ۴۳)
اس کے بعد بنی تمیم کا ایک وفد مدینہ آیا جس میں اس قبیلے کے بڑے بڑے سردار تھے اور ان کا رئیس اعظم اقرع بن حابس اور ان کا خطیب ''عطارد'' اور شاعر ''زبرقان بن بدر'' بھی اس وفد میں ساتھ آئے تھے۔ یہ لوگ دندناتے ہوئے کاشانہ نبوت کے پاس پہنچ گئے اور چلانے لگے کہ آپ نے ہماری عورتوں اور بچوں کو کس جرم میں گرفتار کرر کھا ہے۔
اس وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہر چند حضرت بلال اور دوسرے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو منع کیا کہ تم لوگ کاشانۂ نبوی کے پاس شور نہ مچاؤ۔ نماز ظہر کے لئے خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لانے والے ہیں۔ مگر یہ لوگ ایک نہ مانے شور مچاتے ہی رہے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باہر تشریف لا کر مسجد نبوی میں رونق افروز ہوئے تو بنی تمیم کا رئیس اعظم اقرع بن حابس بولا کہ اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گفتگو کریں کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جس کی مدح کردیں وہ مزین ہو جاتا ہے اور ہم لوگ جس کی مذمت کر دیں وہ عیب سے داغدار ہوجاتا ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔یہ خدا وند تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ اس کی مدح زینت اور اس کی مذمت داغ ہے تم لوگ یہ کہو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ؟ یہ سن کر بنی تمیم کہنے لگے کہ ہم اپنے خطیب اور اپنے شاعر کو لے کر یہاں آئے ہیں تاکہ ہم اپنے قابل فخر کارناموں کو بیان کریں اور آپ اپنے مفاخر کو پیش کریں۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں شعر و شاعری کے لئے بھیجا گیا ہوں نہ اس طرح کی مفاخرت کا مجھے خداعزوجل کی طرف سے حکم ملا ہے۔ میں تو خدا کا رسول
ہوں اس کے باوجود اگر تم یہی کرنا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں۔
یہ سنتے ہی اقرع بن حابس نے اپنے خطیب عطارد کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے مفاخر اور اپنے آباء واجداد کے مناقب پر بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایک دھواں دھار خطبہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جواب دینے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے اٹھ کر برجستہ ایسا فصیح و بلیغ اور موثر خطبہ دیا کہ بنی تمیم ان کے زورِ کلام اور مفاخر کی عظمت سن کر دنگ رہ گئے۔ اور ان کا خطیب عطارد بھی ہکا بکا ہو کر شرمندہ ہو گیاپھر بنی تمیم کا شاعر ''زبرقان بن بدر'' اٹھا اور اس نے ایک قصیدہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اشارہ فرمایا تو انہوں نے فی البدیہہ ایک ایسا مرصع اور فصاحت و بلاغت سے معمور قصیدہ پڑھ دیا کہ بنی تمیم کا شاعر اُلو بن گیا۔ بالآخر اقرع بن حابس کہنے لگا کہ خدا کی قسم! محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو غیب سے ایسی تائید و نصرت حاصل ہو گئی ہے کہ ہر فضل و کمال ان پر ختم ہے۔ بلا شبہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے ا ور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطیع و فرمانبردار ہو گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قیدیوں کو رہا فرما دیا اور یہ لوگ اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
بے شک وہ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔ ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (حجرات)
(2)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۳۲ و زرقانی ج۳ ص۴۴)
0 Comments: