مذاہب اور خواہشات پرتعصب کرنا، مخالف سے کینہ رکھنااور اسے حقارت کی نظرسے دیکھنا یہ ایسی چیزیں ہیں جو علماوصلحاء کو بھی ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں، عوام توپھر عوام ہیں کیونکہ لوگوں پر طعن وتشنیع میں مشغول ہونا اور ان کے طبعی نقائص کا ذکر کرنا ایسی چیزیں ہیں کہ شیطان جب بندے کو یہ خیال دلاتا ہے کہ یہی حقیقت ہے تو وہ مزید پیش رفت کرتا ہے اور اپنی کوشش میں اضافہ کر دیتا ہے اور پھر یہ گمان کرتے ہوئے خوش ہوتا ہے کہ وہ دین کے لئے کوشش کر رہا ہے حالانکہ وہ شیطان کی پیروی میں ہوتا ہے، دینی غيرت رکھنے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور ان کے بعد والوں کی پیروی میں نہیں ہوتا، اگر وہ اپنی اصلاح کی جانب توجہ دیتا اور دینی حميت وغيرت رکھنے والوں کی پیروی کرتا تو یہ اس کے لئے بہتر ہوتا، اورہر وہ شخص جو حاکمِ اسلام سے تعصب رکھے اس کی مخالفت کرے اور اس کے قواعد وضوابط پر نہ چلے تو وہ حاکم اس سے جھگڑے گااور اُسے کولعن طعن کریگا۔
(103)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی لختِ جگر حضرت سیدتنافاطمہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے ارشاد فرمایا:''عمل کرو کیونکہ میں اللہ عزوجل کے مقابلے میں تمہیں کوئی فائدہ نہ دوں گا۔''
(صحیح البخاری،کتاب الوصایا، باب ہل یدخل النساء۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۷۵۳،ص۲۲۱)
لہٰذاتم پربھی اپنے ظاہروباطن کی اصلاح لازم ہے اور دوسروں کا صرف اتنا ہی خیال کرو جتنا شریعتِ مطہرہ نے تمہیں پابندبنایا ہے جیسے شرائط پائی جانے کی صورت میں نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا وغیرہ۔
0 Comments: