انسان کا مطلق کمال یہ ہے کہ اس کی قوتِ غضب معتدل ہو یعنی نہ تو اس میں افراط ہو اور نہ ہی تفریط، بلکہ وہ قوت دین و عقل کے تابع ہو صرف اسی وقت بھڑکے جہاں حمیت کی ضرورت ہو، اور وہاں یہ بجھی رہے جہاں بردباری سے کام لینا ہی مناسب اور زیبا ہو، یہ وہی استقامت ہے کہ جس کا اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کومکلَّف(یعنی پابند)بنایا ہے اوریہی وہ حالت اعتدال ہے جس کی تعریف شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ان الفاظ میں فرمائی:
(96)۔۔۔۔۔۔''اُمور کی بھلائی ان کا اعتدال یعنی درمیانہ پن ہے۔''
(المصنف لابن ابی شیبۃ ، کتاب الزھد، مطرف بن الشخیر،الحدیث:۱۳،ج۸،ص۲۴۶)
لہٰذا جو شخص افراط یا تفریط کا شکار ہو تو اسے چاہے کہ وہ اپنے نفس کا علاج کرے تا کہ اس کا نفس بھی اس صراطِ مستقیم تک پہنچ جائے یا کم از کم اس کے قریب تو ہو ہی جائے،چنانچہ اعتدال کے بارے میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے کہ
وَلَنۡ تَسْتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعْدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الْمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ ؕ
ترجمۂ کنز الایمان: اور تم سے ہر گز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کوبرابر رکھو اور چاہے کتنی ہی حرص کرو تو یہ تو نہ ہو کہ ایک طرف پورا جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر میں لٹکتی چھوڑ دو۔(پ5، النساء:129)
وہ شخص جو مکمل طور پر خیر کے کام نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے یہ بھی مناسب نہیں کہ اب وہ شر کے کام کرنے لگے کیونکہ بعض شر کے افعال دوسرے برے کاموں سے زیادہ حقیر اور ہیچ ہوتے ہیں جبکہ بعض افعالِ خیر دوسرے نیک کاموں سے زیادہ قدرو منزلت والے ہوتے ہیں، اور اللہ عزوجل اپنے فضل وکرم سے ہرعمل کرنے والے کو اس کے ارادے کے مطابق نوازتا ہے۔
0 Comments: