غضب اگر کسی باطل کی وجہ سے ہو تو قابلِ مذمت ہوتا ہے اور اگر باطل کی بجائے حق کی وجہ سے ہو تو قابلِ تعریف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کسی پرغضب فرمایا تو صرف اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر فرمایا۔چنانچہ،
(97)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص نے عرض کی: یارسولَ اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!میں فجر کی نماز فلا ں شخص کی وجہ سے (جماعت کے بعد) تاخیر سے ادا کرتا ہوں کیونکہ وہ بہت لمبی قراء َت کرتا ہے۔'' (راوی فرماتے ہیں کہ)''میں نے مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوجتنے جلال وشدت میں اس دن نصیحت کرتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے اتنی شدت کبھی بھی نہ دیکھی تھی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''اے لوگو! تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کومتنَفِّرکرتے ہیں، لہٰذاجب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرائے تو نماز کو مختصر رکھے کیونکہ اس کے پیچھے بچے، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔''
(صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ ، باب امرالائمۃ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۱۰۴۴،ص۷۵۱،بتغیرٍ قلیلٍ)
(98)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں :''ایک مرتبہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے گھر کے دروازے پر ایک ایسا پردہ لٹکا رکھا تھا جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں، جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہ دیکھا تو اسے پھاڑ ڈالا یعنی اس میں موجود تصاویر کو مسخ کر کے اپنے دستِ اَقدس سے اسے پھینک دیا اور ارشاد فرمایا :''اے عائشہ! قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ عزوجل کی صفتِ تخلیق کا مقابلہ کرتے ہیں۔''
(صحیح البخاری،کتاب اللباس، باب ماوطئی من التصاویر،الحدیث:۵۹۵۴،ص۵۰۵)
(99)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے قبلہ کی جانب تھوک دیکھا توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر بہت گراں گزرا یہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے چہرۂ اقدس سے غضب عیاں ہونے لگا، پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خود کھڑے ہوئے اور اپنے دستِ اقدس سے اس کومَل کر صاف کر دیااور ارشاد فرمایا:''تم میں سے جب کوئی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب عزوجل سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔'' یا ارشاد فرمایا:''یقینا اس کے اور قبلہ کے درمیان اس کا رب کریم عزوجل(اپنی شان کے مطابق )ہوتا ہے لہٰذا تم میں سے کوئی بھی قبلہ کی جانب منہ کر کے نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں یا اپنے قدموں میں یا پھر مسجد کے علاوہ کہیں اور جا کر تھوکے۔'' پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ پکڑا اور اس میں تھوک کر اس کو بقیہ چادر کے حصے پر مَلتے ہوئے رگڑا اور ارشاد فرمایا: ''یا پھر وہ ایسا کر لیا کرے۔''
(السنن الکبری للبیہقی،کتاب الصلوٰۃ ، باب من بزق وھو یصلی ، الحدیث:۳۵۹۵،ج۲،ص۴۱۵،بدون ''الغضب'')
0 Comments: