٭۔۔۔۔۔۔ریاکاری کے باعث ریاکاروں کے بھی چند درجات ہیں، جن میں سے سب سے برا درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کے ذریعے حکمرانی کا قصد کرے جیسے کوئی شخص اس لئے تقویٰ اور زہد کا اظہار کرے تا کہ یہ اس کی پہچان بن جائیں اور ان کی وجہ سے اسے اعلیٰ منصب دیا جائے، اس کے لئے وصیت کی جائے اور اس کے سپرد امانتیں کی جائیں یا صدقات تقسیم کرنے پر اسے مقرر کیا جائے اور وہ ان تمام اُمور سے خیانت کا قصد کرے یا کوئی شخص کسی عورت یا لڑکے کو پانے کے لئے وعظ ونصیحت کرے یا علم سیکھے اور سکھائے۔ اللہ عزوجل کے نزدیک ایسے تمام ریاکار اِنتہائی برے ہیں جنہوں نے پروردگار عزوجل کی اطا عت کو معصیت کے زینے اور اپنے فسق تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا نیز ان کی عاقبت نہایت ہی بری ہو گی۔
٭۔۔۔۔۔۔ان کے بعد اس شخص کا درجہ ہے جسے گناہ یاخیانت کی تہمت لگائی جائے تو وہ اس تہمت کو دور کرنے کے لئے اطاعت اور صدقہ کا اظہار کرنے لگے۔
٭۔۔۔۔۔۔اس کے بعد دنیا کی مباح چیزیں مثلا ًمال یاحصولِ نکاح کی نیت سے عبادت کرنے والے کا درجہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس شخص کا درجہ ہے جو اس نیت سے عبادت، خوفِ خدا اور تقویٰ ظاہر کرے تا کہ اسے حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے یااس لئے کہ اسے نیک لوگوں میں شمار کیا جائے اور جب وہ تنہائی میں ہو تو ان میں سے کوئی بھی عمل نہ کرے اور جس دن کا روزہ رکھنا سنت ہے اس کے بارے میں وہ اس نیت سے اپنی رائے کا اظہار نہ کرے تا کہ اس کے بارے میں یہ گمان نہ کیا جائے کہ اسے نوافل میں کوئی دلچسپی نہیں۔
يہ تمام صورتیں ریاکاری کے درجات کی اصل اور ریا کاروں کی اقسام کے درجات ہیں۔ سیدناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی ارشاد فرماتے ہیں :''یہ سب لوگ اللہ عزوجل کی ناراضگی اور اس کے غضب کے مستحق ہیں۔'' اور یہ بات سخت ترین مہلکات میں سے ہے۔
0 Comments: