قبح کے اعتبارسے ریاء کے مختلف درجات ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ایمان میں ریاء کا سب سے قبیح درجہ ان منافقین کا ہے جن کی مذمت اللہ عزوجل نے اپنی پاک کتاب میں بہت سے مقامات پر فرمائی، نیز اس فرمانِ عبرت نشان میں ان سے وعدہ فرمایا :
اِنَّ الْمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرْکِ الۡاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ
ترجمۂ کنزالایمان: بے شک منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقہ میں ہیں۔(پ5،النسآء: 145)
یہ لوگ اگرچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے زمانے کے بعد کم ہو گئے مگر قباحت میں ان جیسے لوگ کثرت سے ہونے لگے، جیسے کفریہ بدعات کا عقیدہ رکھنے والے مثلاً حشر کا انکار، اللہ عزوجل کے علمِ جزئیات کا انکار اور مخالفت کے اظہار کے باوجود ہر شئے میں اباحتِ مطلقہ کا عقیدہ رکھنا، ان قبیح احوال کے بعد کوئی چیز نہیں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔فرض عبادات پر ریاکاری کرنے والوں کا مرتبہ ان کے بعد ہے جیسے کوئی شخص خلوت میں عبادت ترک کرنے کی عادت بنائے اور لوگوں کے سامنے مذمت کے خوف سے اسے ادا کرلیا کرے، اللہ عزوجل کے نزدیک اس کا گناہ بہت سخت ہے کیونکہ یہ عمل جہالت کی اِنتہاء کا پتہ دیتا ہے اور نافرمانی کے سب سے بڑے درجے کی طرف لے جاتا ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔نوافل میں ریاکاری کرنے والوں کا درجہ ان کے بعد ہے، مثلاً کوئی تنہائی میں اس وجہ سے نوافل ادا کرنے کی عادت بنائے تا کہ لوگوں کے سامنے اس میں کوتاہی نہ ہو اور سستی دور ہو جائے حالانکہ خلوت میں ان کے ثواب میں رغبت نہ ہو۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ان کے بعد اپنی عبادت میں عمدہ اوصاف کے ذریعے ریا میں مبتلا لوگوں کادرجہ ہے جیسے نماز اچھی طرح ادا کرنا، اس کے ارکان کو طویل کرنا، اس میں خشوع کا اظہارکرنا، لوگوں کے سامنے تمام ارکان کا مل طور پر ادا کرنا اورتنہا ئی میں نفلی عبادت اور دیگر واجبات کی کم سے کم ادائیگی پر اکتفاء کرنا، یہ بھی جائز نہیں کیونکہ اس میں بھی گذشتہ مثالوں کی طرح مخلوق کو خالق پر مقدم کرنا پایا جا رہا ہے۔
کبھی شیطان عبادت کرنے والے کو دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسے یہ خیال دلاتا ہے کہ لوگوں کے سامنے عبادت اچھے طریقہ سے ادا کر تا کہ وہ تیری مذمت نہ کریں، حالانکہ اگر وہ سچا ہوتا تو خود تنہائی میں عبادت کی وجہ سے ان کمالات سے محرومی سے بچ جاتا، لہٰذا اس کے احوال کے قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ریاکاری کا اصل سبب مخلوق کی تعریف پر نظر رکھنا ہے نہ کہ ان کے شر سے محفو ظ رہنا۔
0 Comments: