اپنی لڑکی کو وہ علم و ہنر ضرور سکھادو جس کی اس کو جوان ہوکر ضرور ت پڑے گی لہٰذا سب سے پہلے لڑکی کو پاکی پلیدی، حيض و نفاس کے شرعی مسئلے روزہ ،نماز،زکوٰۃوغيرہ کے مسئلے پڑھا دویعنی قرآن شریف اور دینیات کے رسالے پڑھادو۔پھر کچھ ایسی اخلاقی کتابیں جس میں شوہر کے حقوق بجالانے بچوں کے پالنے ساس نندوں سے میل ومحبت رکھنے کے طریقے سکھائے گئے ہوں وہ بھی ضرور پڑھادو ۔بہتر یہ ہے کہ ان کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تاریخ بھی مطالعہ کراؤ جس سے دنیا میں رہنے سہنے کا ڈھنگ آجائے۔اس کے بعد ہر طرح کا کھانا پکانا ،بقدرِ ضرورت سینا پرونا اور دوسری زنانہ دستکاری اور سوئی کا ہنر ضرور سکھاؤ کیونکہ سوئی ہی وہ چیز ہے جس کی ضرورت مرنے کے بعد بھی پڑتی ہے ۔یعنی مردہ سلاہوا کفن پہن کر قبر میں جاتا ہے سوئی عورتوں کا خاص ہنر ہے کہ اگر (خدانہ کرے)کبھی عورت پر کوئی مصیبت پڑ جائے یابیوہ ہوجائے اور کسی مجبوری کی وجہ سے دوسرا نکاح نہ کرسکے تو گھر میں آبرو سے بیٹھ کر اپنی دستکاریوں سے پیٹ پال سکے۔آجکل کھانا پکانے اور سینے پرونے کی بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔
چنانچہ دہلی کا باورچی خانہ ، خوان نعمت ، خوان یغما ۔کھانے پکانے کے ہنر کے لیے ضرور پڑھا دو بلکہ ان سے ہر طرح کا کھانا پکوالو۔ اوردوستو!تین چیزوں سے اپنی لڑکیوں اوربیویوں کو بہت بچاؤ ایک ناول، دوسرے کالج اورسکولوں کی تعلیم، تیسرے تھیٹراورسینما ۔ یہ تین چیزیں لڑکیوں کے لیے زہر قاتل ہیں ۔ اس وقت لڑکیوں میں جس قدر شوخی ، آزادی اوربے غیرتی ہے وہ سب ان تین ہی کی وجہ سے ہے ۔ ہم نے دیکھاکہ لڑکیوں کے لیے پہلے تو زنانہ اسکول کھلے اور ان میں پردہ دار گاڑیاں بچیوں کو لانے اورلے جانے کے لیے رکھی گئیں اگرچہ ان میں کانا پردہ تھا مگر خیر کچھ عار اورشرم تھی ۔ پھر وہ گاڑیاں بند ہوئیں اورصرف ایک عورت جس کو ماماں کہتے تھے لانے اورپہنچانے کے لیے رہ گئی۔ پھر وہ بھی ختم۔ صرف یہ رہا کہ جوان لڑکیاں برقعہ پہن کر آتیں ۔ پھر یہ بھی ختم ہوا۔ آزادانہ طور سے آنے جانے لگیں ۔ پھر عقل کے اندھوں نے لڑکیوں اورلڑکوں کی ایک ہی جگہ تعلیم شروع کرادی اورشارد اایکٹ جاری کرایاجس کے معنی یہ تھے کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی نکاح نہ کرسکے پھر لڑکیوں اورلڑکوں کو سینما کے عشقیہ ڈرامے دکھائے بیہودہ ناولوں کی روک تھام نہ کی جس کا مطلب صاف یہ ہوا کہ ان کے جذبات کو بھڑکایا گیااور نکاح روک کر بھڑکے ہوئے جذبات کو پورا ہونے سے روک دیا گیا جس کا منشا صرف یہ ہے کہ حرام کاری بڑھے ۔ کیونکہ بھڑکی ہوئی شہوت جب حلا ل راستہ نہ پائے گی تو حرام کی طرف خرچ ہوگی ۔ اورایسا ہورہا ہے ۔ اب اس وقت یہ حالت ہے کہ جب اسکولوں ، کالجوں کی لڑکیاں صبح شام زرق برق لباس میں راستوں سے آپس میں مذاق دل لگی کرتی ہوئی زور سے باتیں کرتی ہوئی عطر لگائے ، دوپٹہ سر سے اتارے ہوئے نکلتی ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ شاید ہندوستان میں پیرس آگیا۔اوردردمنددل رکھنے والے خون کے آنسوروتے ہیں۔ اکبرالہ آبادی نے خوب فرمایا ہے :
بے پردہ مجھ کو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔزمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا
پوچھا جوان سے آپ کا پردہ کدھر گیا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
کوشش کروکہ تمہاری لڑکیاں حیادار اورادب والی بنیں تاکہ ان کی اولاد میں یہ اوصاف پائے جائیں ۔ ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے :
بے ادب ماں باادب اولاد جن سکتی نہیں
معدنِ زر معدنِ فولاد بن سکتی نہیں
یادرکھوکہ اس زمانہ میں ان سکولوں اورکالجوں نے قوم میں انقلاب پیداکردیا ہے ۔آج طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کا نقشہ بدلنا ہوتو اس قوم کے بچوں کو کالج کی تعلیم دلاؤ ۔ بہت جلد اس قسم کی حالت بدل جائے گی ۔ اکبرؔ نے خوب کہا ہے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اوردوستو! بعض اسکولوں اورکالجوں کے نام میں اسلام کا نام بھی لگا ہوتاہے یعنی ان کا نام ہوتاہے اسلامیہ سکول، اسلامیہ کالج اس نام سے دھوکہ نہ کھاؤاسلامیہ سکول ، اسلامیہ کالج نام رکھنا، فقط مسلم قوم سے اسلام کے نام پر چندہ وصول کرنے کے لیے ہے ۔ ورنہ کام سب کا لجو ں کا قریب قریب یکساں ہے ۔ غضب تو دیکھوکہ نام اسلامیہ اسکول اورتعطیل ہوتی ہے اتوار کے دن ۔ اسلام میں تو بڑا دن جمعہ کا ہے ۔ ہر کام انگر یزی میں ، وہاں کے طلباء کے اخلاق اورعادات انگر یزی۔پھر یہ اسلامیہ اسکول کہاں رہا؟ بعض اسکولوں کے نام بجائے اسلامیہ اسکول کے محمڈن اسکول یا محمڈن کالج رکھ دیے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کا نام رکھا ہے ''مسلمین''قرآن فرماتاہے:
ہُوَ سَمّٰىکُمُ الْمُسْلِمِیۡنَ ۬ۙ
اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔(پ17،الحج :78)
مگرعیسائیوں کی طرف سے ہمارا نام محمڈن رکھا گیا ۔ ہم لوگوں کو وہی نام پسند آیاجو کہ عیسائیوں نے ہم کو دیا ۔ غرضیکہ ان اسکولوں سے اپنی لڑکیوں کو بچاؤ اوراپنے لڑکوں کو بھی وہاں تعلیم ضرورتاًدلواؤ،مگر ان کا دین و مذہب سنبھال کر ،اس طرح لڑکیوں کو گھرپر جو ماسٹروں سے پڑھواتے ہیں یا عیسائی عورتوں یا لیڈیوں سے تعلیم دلواتی ہیں
وہ بھی سخت غلطی کرتے ہیں بہت جگہ دیکھا گیا کہ لڑکیاں ماسٹروں کے ساتھ بھاگ گئیں اوران آوارہ استانیوں کے ذریعہ سے ہزار ہا فتنے پھیلے ۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آخر لڑکیوں کو اس قدراعلیٰ تعلیم کی ضرورت کیا ہے ۔ ان کو تو وہ چیزیں پڑھاؤ، جس سے ان کو کام کرنا پڑتاہے۔ ان کا ساراخرچہ تو شوہروں کے ذمہ ہو گا۔ پھر ان کو اس قدر تعلیم سے کیا فائدہ ہے؟ غرضیکہ اپنی اولاد کو دین دار اورہنر مند بناؤ کہ اسی میں دین دنیا کی بھلائی ہے ۔ اپنی لڑکیوں کو صرف خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہاکے نقش قدم پر چلاؤ۔ ان کی پاک زندگی کا نقشہ وہ ہے جو ڈاکٹر اقبال نے اس طرح بیان فرمایا:
آں ادب پروردہ شرم وحیا
آسیا گردان ولب قرآن سرا
آتشین ونور یاں فرماں برش
گم رضا ئش دررضا شوہرش
ہاتھ میں چکی اورمنہ میں قرآن دونوں جہان ان کی فرمانبرداراور وہ خاوند کی مطیع۔
0 Comments: