عورت کا جسم سر سے پاؤں تک ستر ہے جس کا چھپانا ضروری ہے سِوا چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں اور ٹخنے سے نیچے تک پاؤں کے ، کہ ان کا چھپانا نماز میں فرض نہیں باقی حصّہ اگر کُھلا ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔لہٰذا اُسکا لباس ایسا ہونا چاہے جو سرسے پاؤں تک اس کو ڈھکا رکھے۔اور اسقدر باریک کپڑا نہ پہنے جس سے سرکے بال یا پاؤں کی پنڈلیاں یا پیٹ اوپر سے ننگا ہو۔ گھر میں اگر اکیلی یا شوہر یا ماں باپ کے سامنے ہو تو دوپٹہ اتار سکتی ہے لیکن اگر داماد یا دوسرا قرابت دار ہو تو سر باقاعدہ ڈھکا ہوا ہونا ضروری ہے اور شوہر کے سوا جو بھی گھر میں آئے وہ آواز سے خبر کرکے آئے ۔
اجنبی عورت کو سوائے چند صورتوں کے دیکھنا منع ہے (۱)طبیب مریضہ کے مرض کی جگہ کو(۲)جس عورت کے ساتھ نکاح کرنا ہے اس کو چھپ کر دیکھ سکتا ہے ۔(۳)گواہ جو عورت کے متعلق گواہی دینا چاہے۔(۴)قاضی جو عور ت کے متعلق کوئی حکم دینا چاہے۔وہ بھی بقدرِ ضرور ت دیکھ سکتا ہے ۔آوارہ عورتوں سے بھی شریف عورتیں پردہ کریں۔
(درمختار وردالمحتار، کتاب الصلوٰۃ ، با ب شروط الصلوٰۃ ،مطلب فی ستر العورۃ،ج۲،ص۹۵تا۱۰۰ملخصاًورد المحتار،کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی النظر والمس،ج۹،ص۶۱۳)
عورت کو اپنے گھر سے نکلنا بھی منع ہے ۔سوائے چند موقعہ کے (۱)قابلہ یعنی دائی پیشہ کرنے والی عورت گھر سے نکل سکتی ہے۔(۲)شاہدہ گواہی دینے کے لئے عورت قاضی کے گھر جاسکتی ہے(۳)غاسلہ جو عورت مردہ عورتوں کو غسل دیتی ہے وہ بھی اس ضرورت سے نکل سکتی ہے (۴)کاسبہ جس عورت کاکوئی کمائی کرنے والا نہ ہو وہ روزی حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکل سکتی ہے (۵)زائرہ ۔والدین اور خاص اہلِ قرابت سے ملنے کیلئے بھی گھر سے نکل سکتی ہے وغیرہ اگر اس کی پوری تحقیق کرنا ہو تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی کتاب مروج النجا لخروج النساء کا مطالعہ کرو۔ہم نے جو کہا ان موقعوں میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ پردہ سے نکلے اس طرح نہ نکلے جیسے آ ج کل رواج ہے کہ یا تو بے برقع باہر پھرتی ہیں یا اگر برقع ہے تو منہ کھلا ہوا اور برقع بھی نہایت خوش نما اور چمکدار کہ دوسرے مردوں کی اس پر خواہ مخواہ نظر پڑے یہ جائز نہیں یہ احکام تھے گھر سے باہر نکلنے کے۔ اب رہا سفر کرنا اس کے متعلق یہ ضرور یاد رکھو کہ عورت کو اکیلے یا کسی اجنبی کے ساتھ سفر کرنا حرام ہے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔آجکل جو رواج ہوگیا ہے کہ گھر کو خط لکھ دیا کہ ہم نے اپنی بیوی کو فلاں گاڑی پر سوار کردیا ہے تم اسے اسٹیشن پر آکر اتارلینا۔یہ ناجائز بھی ہے اور خطر ناک بھی دیور اور بہنوئی وغیرہ سے بڑے بڑے گھروں میں بھی پردہ نہیں بلکہ بعض عورتیں تو کہتی ہیں کہ ان سے پردہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ محض غلط ہے حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا کہ
اَلْحَمْوُالْمَوْتُ دیور تو اور بھی زیادہ موت ہے ۔
( صحیح البخاری ، کتاب النکاح ، باب لا یخلون رجل ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث ۵۲۳۲ ، ج ۳ ،ص ۴۷۲)
بعض جگہ ان سے ہنسی اور مذاق تک کیا جاتا ہے خیال رکھو کہ جس عورت سے کبھی بھی نکاح ہوسکے اس سے پردہ ضروری ہے کہ وہ اجنبی ہے اور جس سے کبھی بھی نکاح جائز نہ ہو جیسیداماد،رضاعی،بیٹا،باپ،بھائی،خسر،وغیرہ۔ان سے پردہ ضروری نہیں اگر ان لوگوں سے باقاعدہ پردہ نہ ہوسکے تو کم ازکم گھونگھٹ سے رہنا اور اُن کے سامنے حیا اور شرم سے رہنا ضروری ہے ایسا باریک لباس نہ پہنو جس سے ننگی معلوم ہو اور ایسا لباس نہ پہنو جو پنڈلیوں سے بالکل چمٹ جاتا ہو اور جس سے بدن کا اندازہ ہوتا ہو ہاں اگر اس گھر میں سوائے شوہر وغیرہ کے کوئی اجنبی نہ آتا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں مگر ایسے گھر آج کل مشکل سے ملیں گے۔ڈاکٹر اقبال نے خوب کہاہے۔
چو زہرا باش از مخلوق روپوش
کہ درآغوش شبّیر ے بہ بینی
یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرح اللہ والی پردہ داربنو تاکہ اپنی گود میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔
0 Comments: