جب یہ بات ثابت ہوگئی تو جان لیں کہ پہلی صورت یعنی حسد حرام اور ہر حا ل میں فسق ہے، البتہ فاسق کی نعمت کے زوال کی اس لئے تمنا کرنا کہ وہ نعمت اس کے فساد اور مخلوق کو ایذاء دینے کا ذریعہ ہے اور یہ کہ اگر اس کی حالت درست ہوتی تو اس کی نعمت کے زوال کی تمنا نہ کی جاتی تو یہ ہر گز حرام نہیں کیونکہ اس کے زوال کی تمنا اس کے نعمت ہونے کے اعتبار سے نہیں کی جا رہی بلکہ اس کے آلۂ فساد اورذریعہ ایذاء ہونے کی وجہ سے کی جا رہی ہے، جبکہ ہماری بیان کردہ احادیث حسد کی حرمت، اس کے فسق اور کبیرہ گناہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
حسد کی ایک آفت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ عزوجل کے فیصلے پر ناراضگی پائی جاتی ہے کہ وہ کسی کو ایسی نعمت عطا فرمائے جس میں تمہارے لئے کسی نقصان کاپہلو نہ ہو تب بھی تم اس سے حسد کرتے ہو نیز اس میں اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کرنا بھی پایا جاتاہے ۔چنانچہ ،
(۱)اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ۫ وَ اِنۡ تُصِبْکُمْ سَیِّـَٔۃٌ یَّفْرَحُوۡا بِہَا ؕ
ترجمۂ کنز الایمان: تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگے اور تم کو برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوں۔(پ4، ال عمران: 120)
(2)وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ اِیۡمَانِکُمْ کُفَّارًا ۚ حَسَدًا مِّنْ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ
ترجمۂ کنز الایمان: بہت کتابیوں نے چاہا کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیر دیں اپنے دلوں کی جلن سے۔ (پ1، البقرۃ:109)
(3) وَدُّوۡا لَوْ تَکْفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً
ترجمۂ کنز الایمان:وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کہیں تم بھی کافر ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے توتم سب ایک سے ہوجاؤ۔(پ5،النساء: 89)
(4) اَمْ یَحْسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان:یالوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔ (پ5، النساء: 54)
۱؎ :دوآدمیوں سے رشک کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :''(۱)وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے قرآن عطافرمایا تواس نے اس کے احکامات کی پیروی کی، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانااور (۲)وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے مال عطا فرمایا تو اس نے اس کے ذریعے صلہ رحمی کی اور رشتہ داروں سے تعلق جوڑا اور اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کا عمل کیا تو اس جیسا ہونے کی تمنا کرنا درست ہے۔'' (کنزالعمال،کتاب الاخلاق،الحدیث:۷۴۳۶،ج۳،ص۱۸۵)
0 Comments: