حضورشیخ الاسلام مدنی میاں کی ہمہ جہت
خدمات کا اجمالی تجزیہ
غلام مصطفی رضوی
نگران: رضالائبریری، مقابل نیا بس اسٹینڈ مالیگاؤں
عہدِ رواں کے مشاہیراہلِ سنت میں حضرت شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی دام ظلہ کا نام ومقام نمایاں و ممتاز ہے۔ متعدد اعتبارات اور جہات سے آپ کی شخصیت کو اختصاص و امتیاز کا درجہ حاصل ہے۔ جس پر ہم یہاں اختصار واجمال میں روشنی ڈالیں گے۔
[۱] عموماً روحانی خانوادے کے افراد کا مقام و مرتبہ روحانی وسلاسل کے اعتبار سے ہی نمایاں ہوتا ہے۔ اور ان کی خدمات کا دائرہ خانقاہی نظام اور روحانی امور، تزکیہ و تصفیۂ قلب ونگاہ، معمولاتِ و مراسمِ خانقاہی کے تناظر میں متعارف دیکھا جاتا ہے۔ دیگر شعبوںمیں ان کی توجہ شاید و باید ہی مرکوز ہوتی ہے۔ الاماشاء اللہ۔حضور شیخ الاسلام سلسلۂ اشرفیہ کی روحانی روایتوں کے امین بھی ہیں، بزرگوں کی فکری وراثت کے ترجمان بھی ہیں، اور یہ کہ آپ کی خدمات کا دائرہ متعدد جہات پر پھیلا ہوا ہے۔جسے آپ کی دینی، اعتقادی، اصلاحی، تربیتی، ادبی، روحانی، تعلیمی و تفسیری خدمات کے تناظر میں دیکھا و محسوس کیا جاسکتا ہے۔
[۲] تعظیم و عظمت کا ایک اہم معاملہ بڑی نسبت ہوتا ہے، حضور شیخ الاسلام کی نسبت عظیم ہے، وہ مخدوم سمناں رضی اللہ عنہ کے خاندانِ روحانیت سے رشتہ وتعلق رکھتے ہیں، عظیم نسبتوں سے فیض یاب ہیں۔ محدث اعظم ہندعلامہ سید محمد کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ کے فرزند ہیں، بڑے ہونے کے لیے تعلقات کی یہ بہاریں کم نہیں۔ حضور شیخ الاسلام محض ان نسبتوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے، وہ بڑے ہیںاپنے علم و فضل کے لحاظ سے، فہم وذکا کے لحاظ سے اور اپنی ذاتی محنت وکاوش اور علم و فن کی بلندیوں کے اعتبار سے۔ اس پر خاندانی عظمت و وجاھت مستزاد۔
[۳] مسلک اہل سنت مسلک اعلیٰ حضرت کی اعتقادی سرحدوں کی حفاظت کے لیے آپ نے جو کچھ تصنیفی کارنامہ انجام دیا یقینی طور پر وہ لائق قدر اور نتیجہ خیز ہے۔آپ نے ایسے وقت میں جب کہ الحاد و بے دینی کو وہابیت کی جدید شکل’’مودودیت‘‘ کے روپ میں پڑھے لکھے طبقے میں رائج کیا جا رہا تھے، متعدد کتابیں اس رُخ سے لکھ کر فکر ونظر کو مہمیز کیا اور شدت پسند سوچ و فکر کے مقابل اسلام کے معتدل پیغام کو اہلِ نظر تک پہنچایا۔ متذکرہ فتنہ پر ہمارے یہاں مواد کی جوکمی تھی، لٹریچر کا خلا تھا وہ حضور شیخ الاسلام کی قلمی جدوجہد سے پُر ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مودودی افکار کی شناعت پر آپ کے علمی اثاثے کو ہر علاقے میں شائع کر کے بہ قیمت وبلا قیمت عام کیا جائے تاکہ ایسے اہل علم و فکر ونظرجو اغیار کے شکار ہو گئے،ان کے عقیدہ و عقیدت کو بچایا جاسکے۔اور مسلمانوں کو نوپید افکار سے باخبر کیا جاسکے۔
[۴] حضور شیخ الاسلام کی شخصی عظمت کا ایک وصف تصلب فی الدین اور استقامت ہے۔ اشتراک و اختلاط نے مسلکی تشخص کو ضرب لگائی ہے۔ اس میں قوم کافائدہ کچھ نہ ہوا۔ اُلٹے اہل سنت ہی نقصان سے دوچار ہوئے۔ مسلمانوں کی تنزلی ہوئی۔ اختلاط واشتراک کے نتائج خلافت تحریک، گاندھی کے افکارکا مسلمانوں پر مسلط کیا جانا، ترک موالات کے تعلیمی اداروں پر اثرات، تحریک ہجرت کے نقصانات، تحریک گاؤ کشی کے شعارِ اسلامی پر اثرات اور شدھی تحریک کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ ایسے ناگفتہ بہ طوفانِ بلاخیز میں فیض یافتگان بارگاہِ اعلیٰ حضرت نے جس استقامت وعزیمت کا مظاہرہ کیا، مسلمانوں کی صحیح خطوط پررہنمائی کی اور حوادث کے مضر اثرات سے قوم کو باخبر کیا؛ اس دستے کے ایک مردِ مجاہد کا نام محدث اعظم ہند ہے، انھیں کے راستے پر استقامت کے ساتھ گامزن ہیں ہمارے -حضور شیخ الاسلام علامہ سید محمدمدنی میاں- یہی وجہ ہے کہ بہت سی تحریکات اُفق ہند سے اُبھریں لیکن ان سے حضور شیخ الاسلام قطعی متاثر نہ ہوئے اور اسلاف کی راہ پر مستقیم رہ کر مسلک اہل سنت کی حفاظت و صیانت کے لیے بروقت و دُرست فیصلے فرماتے رہے۔
[۵] جدید دور میں ذہنی وفکری آوارگی کے لیے اسلاف کی روش سے ہٹ کر سائنس کو قبلہ بنا کر متعدد تفسیریں لکھی گئیں؛ ممکن ہے کہ ماڈرن فکروں کے ساتھ ہی مستشرقین کے اثرات بھی اس کا موجب بنے ہوں۔ اس طرح قرآن کی منشا ومراد کو اپنے دل و دماغ سے بیان کر کے مسلکِ اسلاف سے بیزاری کی فکر استوار کی گئی اور لادینیت ودہریت کا فلسفہ پروان چڑھایاگیا۔ تقلید بیزاری کی لہر اسی کے بطن سے نمودار ہوئی۔ محسنینِ اسلام حتیٰ کہ صحابہ واہلِ بیت جیسے عظیم سلسلے تک کو نہیں بخشا گیا۔ ان حالات میں قرآنی منہج و فکر کی صحیح ودرست تفہیم کے لیے حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے اسلوب کی روشنی میں حضور شیخ الاسلام نے ’’سیدالتفاسیر‘‘[۱۰؍جلدیں] لکھ کر مسلکِ اہلِ سنت کے علمی اثاثے میں بہت مفید اضافہ کیا ہے۔ آپ کا یہ کارنامہ بہت سے کاموں پر حاوی ہے۔
[۶] حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کا شعری ذوق فکرِ رضا سے مستفیض و مستنیر تھا۔ اسلوب گرچہ ان کا اپنا تھا، لیکن فکر وہی تھی، متاعِ عشق وہی تھی جس کی حفاظت کے لیے امام احمد رضا نے اپنی توانائیاں صرف کیں اورعاشقانِ رسول کے دلوں کی دھڑکن بن گئے، بہ ایں سبب کلام محدث اعظم عشق وعرفان اور کیف وآگیں کا مرقع اور بلندیِ فکر کا گنجینہ ہے۔ اسی ادبی وراثت کے امین ہیں حضور شیخ الاسلام؛ آپ کے کلام میں سوزِ عشق ہے، محبت وتڑپ ہے، کسک اور درد ہے، پڑھنے والے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واُلفت میں وارفتہ ہو جاتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام ’’اخترؔ‘‘ کے کلام میں سنجیدگی و متانت کے ساتھ ساتھ فنی محاکات،الفاظ کا دروبست، معانی کی گہرائی،صنعات کا برمحل استعمال، فکر کا بانک پن سبھی کچھ موجود ہیں۔ دو مجموعہ ہاے کلام مطبوع ہیں۔
[۷] خطابت کا ملکہ موروثی ہے۔ محدث اعظم کی خطیبانہ شان محض لفاظی و لہجے کی نمائش نہ تھی، اس میں فکر کا جوہر ، سنیت کا درد، عقائد حقہ کی اشاعت کا پہلو کارفرما ہوتا تھا، اس پہلو سے حضور شیخ الاسلام مدنی میاں کا اسلوبِ خطابت نکھرا اور ستھرا ہے، جس میں نہ لفاظی ہے، نہ لطیفہ گوئی، لطافت ضرور ہے، عقیدے پر استقامت، مسلک حقہ پر تصلب کا پیغام بھی اور مواد کی فراوانی بھی۔اس لحاظ سے آپ کی مقبولیت کا ایک پہلو ملکۂ خطابت واسلوب کی دل کشی ہے۔ آپ کے یہاں نقلی وعقلی دلائل کے ساتھ ہی کلامی مباحث کی جلوہ آرائی ہے جس سے خطابت محض لفظوں کا انتخاب ہی نہیں بلکہ پیغام کی ترسیل کا باعث ہوتی ہے۔
[۸] تصنیف وتالیف میں موضوعات کے اعتبار سے یہ رعایت رکھی ہے کہ جو کتابیں خالص عام مسلمانوں کے لیے لکھی ہیں اُن کا اسلوب عام فہم، سادہ ہے، دقائق سے گریز ہے، بلکہ بعض دقیق وضروری عنوانات کو حتی الامکان عام فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس سبب سے علمی مباحث کی تفہیم بھی قدرے آسان وسہل ہو گئی ہے۔
[۹] موجودہ دور میں منافقین کے کام کے انداز میں نمایاں تبدیلی آگئی ہے۔ وہ اپنے مسلک و عقیدے کو چور دروازے سے پھیلا رہے ہیں۔ جب دیکھا کہ سلاسل سے وابستگی میں مسلمانوں کا ذوقِ خصوصی شامل ہے، تو دھڑا دھڑ لوگوں کو سلسلے کی آڑ میں وہابی بنانا شروع کردیا۔ ذکروفکر کی محفل، وردِ درود کی مجلس کا ٹائٹل لگا کر بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دام میں پھانسنے لگے، جو معمولاتِ اہلِ سنت کل تک ان کی ڈکشنری میں -بدعت- گردانے جاتے تھے، وہ آج -عینِ اسلام- ہوگئے، اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے ایسے کیا گیا، افسوس! کہ اس کے باوجود عقائد وہی، ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں جرأت وجسارت وہی، اور اپنے مولویوں کی بنانے کے لیے توہینِ رسالت جیسے حساس معاملے میں بے جاتاویلیں کر کے گمراہی وبدعقیدگی کو تقویت پہنچانے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ایسے حالات میں مشائخ اہلِ سنت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیعت وارشاد کے ذریعے مسلک کا تحفظ اور سلسلے کا فروغ کرنا چاہیے۔ اس رُخ سے حضور مدنی میاں کی خدمات لائق قدر ہے۔ انھوں نے اپنی فکرو فکر سے سلسلے کی اشاعت بھی کی اور باطن کوسنوارا بھی،تزکیۂ باطن و درستیِ فکرونظر کا یہ روحانی سلسلہ رواں دواں ہے۔ اللہ کریم اپنے محبوب پاک علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے صدقہ و طفیل آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور متوسلین کو بالخصوص اور اہلِ سنت کو بالعموم آپ کی تصانیف کی اشاعت و توسیع کا جذبۂ فراواں اور عزمِ جواںعطا کرے۔ مسلکِ اہلِ سنت کے تحفظ و فروغ کے لیے حضور شیخ الاسلام کی مساعیِ جمیلہ کو قبول و مقبول فرمائے اور ہمیں ان کی نصیحتوں پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین۔
٭٭٭
0 Comments: