حضرت شیخ الاسلام کی مشیخت تفسیر اشرفی کے آئینے میں
مولانا شہباز عالم مصباحی شیخ الحدیث مدنی میاں عربک کالج ہبلی
حضرت شیخ الاسلام کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے،۔تا ہم چند اشعار حاضر خدمت ہیں، گر قبول افتد زہے عز وشرف،
اَلشَّمسُ َمن حُسَّادِہ وَالعِلمُ مِن
قُرَنَائِہ وَالحِلمُ مِن ِمّیرَاثِہ
اَینَ الثَّلَاثَۃُ مِن ثَلاثِ خِلَا لِہ
مِن حُسنِہ وَذَکَائِہ وَصَفَائِہ
مَضَتِ الدُّھُورُوَمَااَتَینَ بِمِثلِہ
وَلَقَداَتیٰ فَعَجَزنَ عَن نُظَرائِہ
علم تفسیر کی فضیلت: اس کی فضیلت شک و شبہ سے بالا تر ہے ،خود اس کی بابت اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ۔یُّؤۡتِی الْحِکْمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُۚ وَمَنۡ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ "خیر کثیر’’ سے قرآن کی معرفت مراد ہےکہ اس میں ناسخ کیا ہے منسوخ کیا،محکم کیا ہے اور متشابہ کیا،مقدم کون چیز ہے اور موخر کیا ،حلال کیا ہے اور حرام کیا اور امثال کون کونسی ہیں ۔انہی سے مرفوعا یہ بھی مروی ہے کہ’یوتی الحکمۃ ‘ سے مراد قرآن شریف کا عطا کرنا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں’’یعنی قرآن شریف کی تفسیر‘‘کیونکہ پڑھنے کو تو اسے نیک و بد سب ہی پڑھتے ہیں ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’قرآن شریف کی تعریب (تفسیر)میں سر گرم رہو‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ’’جو شخص قرآن شریف پڑھ کر اسکی تعریب کرے (سمجھائے) تو اسے حق تعالی کے یہاں ایک شہید کا اجر ملے گا‘‘۔ علامہ جلال الدین سیوطی کا قول ہے کہ علماء کااس بات پر اجماع ہے کہ تفسیر کا جاننا فرض کفایہ ہے اور من جملہ تین شرعی علوم کے یہ بزرگ ترین علم ہے‘۔اصبہانی کا قول ہے کہ ’’سب سے اچھا پیشہ یا کام جو انسان کرتا ہے وہ قرآن شریف کی تفسیر ہے‘‘۔انہیں ارشادات عالیہ کے پیش نظر حضرت شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی مد ظلہ العالی نے اس پر آشوب مادیت زدہ زمانہ جس میں ہر کس و ناکس مادیت کا دیوانہ نظر آتاہے، زر و سیم کو ٹھکراتے ہوے اور مادیت سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوے، صبر و توکل کا دامن تھام کر اپنی سنہری زندگی کے بڑے قیمتی وقت کو خالصتا لوجہ اللہ اس کار عظیم کے لیے وقف فرمایا۔
تفسیر کے لیے کن کن علوم کی ضرورت ہے:۔
تفسیر کے دو جز ہیں ایک معرفت ناسخ و منسوخ، معرفت اسبا ب نزول، مقاصد آیات کی تشریح، غریب الفاظ کی توضیح، ابہام و اجمال کی تنقیح، دوسرا حصہ وہ ہے جو صرف و نحو، بیان و معانی اور لغت وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے۔ان دونوں جزوں کے لحاظ سے فن تفسیر میں صرف ونحو، بیان و معانی، بدیع، لغت، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، قرات و کلام، تاریخ و رجال، زہد و تصوف، جدل و خلاف، سیر ت و اسرار، حقائق وحساب وغیرہ سب کی ضرورت پڑتی ہے۔
ایا تفسیر اشرفی میں یہ ضروری علوم و فنون پیوست ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ عصر حاضرکے علماء کرام و مفکرین اسلام اس بابت کیا فرماتے ہیں،
استاذ العلماء حضرت مولانا عارف اللہ مصباحی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس نافع و مفید تفسیر (تفسیر اشرفی) میں وہ سب کچھ موجود ہے جو فہم قرآن کے لیے لازم و ضروری ہے‘‘،(شخص و عکس نمبر صفحہ 40)
حضرت مولانا سید سیف الدین اصدق صاحب فرماتے ہیں کہ ’ آپ جہاں کلام الہی کے رمز شناس مفسر ہیں، وہیں ذخیرئہ احادیث کے فہیم بھی، علم فقہ پر دسترس رکھنے والے فقیہ ہیں تو وہیں ایک نکتہ رس معقولی بھی، علم کلام کے اگر ماہر ہیں تو بحر تحقیق و تدقیق کے شناور بھی‘‘۔ (شخص و عکس نمبر صفحہ 78)
حضرت مولانا ضیاء الرحمن علیمی صاحب فرماتے ہیں کہ’’ یہ تفسیر حضرت مصنف کا تحریری شاہکار ہے، کلام الہی کے تفسیری اثاثے میں ایک شاندار اضافہ ہے‘‘۔(محدث اعظم حیات کارنامے)
پروفیسر محمد عبد الحمید اکبر صدر شعبئہ اردو وفارسی گلبرگہ یونیور سٹی فرماتے ہیں کہ’ ’تفسیر اشرفی عصر حاضر کی شاہکار تفسیر ہے‘‘۔(شخص و عکس نمبر صفحہ 81)
پرو فیسر مجید بیدار سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدر آباد فرماتےہیں کہ ’’تفسیر اشرفی کو بلا شبہ سید التفاسیر قرار دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے، بلا شبہ اس تفسیر کو مقصدی اور انسانی زندگی کو خدا حکم کے تابع بنانے والی تفسیر سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا،غرض تفسیر اشرفی کے اسلوب میں جہاں سادہ و عام فہم الفاظ جلوہ گر ہیں وہیں لفظوں کی صوتی خصوصیات او ر ان کی گہرائی و گیرائی سے یہ ثبوت فراہم ہو تا ہے کہ حضرت علامہ کو تحریر کا یہ وصف من جانب اللہ حاصل ہوا، اس لئے ان کی تفسیر میں کیفیاتی فضا جلوہ گر ہے، جس سے دل متاثر ہوتے ہیں اور ذہن کے دریچے کھلنے کے علاوہ گہرائی و گیرائی کی وجہ سے عقل و فراست کے بہترین نمونے جلوہ گر ہوتے ہیں، اس قسم کا تحریری منفرد رویہ اردو کی بہت کم تفسیروں میں دکھائی دیتا ہے‘‘۔ (شخص و عکس نمبر صفحہ 90)
ڈاکٹر منظور احمد دکنی کہتے ہیں کہ’تفسیر اشرفی کے سرسری مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اسکے کئی ادبی زاویے ہیں اور ہر زاویہ ایک کتاب کا متقاضی ہے جیسے ایجاز و اختصار ، روز مرہ محاورہ ،انتخاب الفاظ،ادبی معنویت،فصاحت و بلاغت،علوم و فنون،وغیرہ وغیرہ ۔غرض تفسیر اشرفی میں ادبی جواہر پارے موجود ہیں ،اسکا اپنا اسلوب و منہج بھی ہے اور امتیازی شان و شوکت بھی،عبارت مختصر ،تفسیر اشرفی اللہ اور رسول کی حقیقی شان کی غماز اور زبان و بیان اور ادبی اعجاز کا مرقع کہلائی جا سکتی ہے‘‘۔( شخص و عکس نمبر صفحہ 102)
محترم و مکرم مولانا غلام ربانی فداؔ مدیر جہان نعت کا قول ہے کہ’’تفسیر اشرفی یہ تفسیر مختصر اور جامع ترین تفسیر ہے،اسکا انداز محققانہ ہے‘‘ (شخص و عکس نمبر صفحہ104)
اس وقت میرے پیش نظر ہم خیال علماء و مفکرین اسلام کی ایک لمبی فہرست موجود ہے، ظاہر ہے کہ یہاں ہر ایک کو ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے اسی لیے اختصارًا میں نے چند حضرات علماء و مفکرین کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے۔
بہر حال ان ارباب علم و فضل کی شہادتوں سے یہ مسئلہ مستند ہو جاتا ہے کہ اس تفسیر میں مدارس اسلامیہ میں رائج تمام علوم و فنون کی شعاع جلوہ گر ہے اور جب صورت حال یہ ہے کہ تفسیر اشرفی جمیع مروجہ علو م و فنون پر مشتمل ہےاور یہ امر مسلم ہے،پھر تو یہ بھی مسلم ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ العالی ذخیرئہ علم و فضل کے تمام زیورات سے آراستہ و پیراستہ ہیں ،اور جب ایسا ہے پھر تو مجال نہیں ہے کہ کوئی جری و بے باک حضرت کی بابت کہہ سکے ،
فضل وہنر بڑوں کے گر تم میں ہوں تو جانیں
گر یہ نہیں تو بابا وہ سب کہانیاں ہیں
مدارس و جامعات میں تدریسی زندگی بسر کر نے والی شخصیات کا جب جائزہ لیا جاتا ہے، تو انتہائی قلیل مقدار ایسے اساتذہ کی ملتی ہے جو رائج علوم و فنون کے اصول و مسائل کے جامع و حافظ ہوں ، خوش قسمتی سے ایسی شخصیات دستیاب ہو بھی جاتی ہیں تو ان کا دائرہ عمل جمع و حفظ یا پھر زیادہ سے زیادہ مفاہیم کے تصورات کی پاسبانی ہے، یہ ان کی آخری سرحد ہو تی ہے جہاں ان کی نظریں مفاہیم کی سلاخوں و زنجیروں میں ایسی جکڑی ہوتی ہیں کہ اس سے آگے کے تمام راستے مسدود ہوتے ہیں او ر اگلی منزل یعنی مصادیق کی انہیں ہوا بھی لگتی ہے، او ر اگر معدودے چند مصادیق کے شناور دستیاب بھی ہو جاتے ہیں تو تطبیق ان کے لیے معما بن جاتی ہے اور اگر کسی طرح اس میدان کے کچھ شہسوار نظر آبھی جاتے ہیں تو مقام تخریج و تفریع پر مرغ بسمل کی طرح تڑپتے ہوے نظر آتے ہیں، یہ ہے واقعہ مگر ان سب کے بر عکس ، ایک ایسےشخص کا عکس نظر آتا ہے جن کے علم و ادراک او ر قوت استدلال کی سواری روکے نہیں رکتی ہے،بلکہ ہر ایک میدان خواہ شریعت ہو کہ طریقت، حقیقت ہو کہ معرفت اور ہر ایک جولان گاہ میں ایکساںسر پٹ دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے، اللہ رے یہ ہمہ جہتی و ہمہ دانی! بعد و قرب کا یہ حیرت انگیز کرشمہ ! بہر حال یہ گتھی عقل کے ناخن سے سلجھنے سے رہی، قصہ مختصر،
ایں سعاد ت بزور بازونیست
تا نخشد خدائے بخشندہ
0 Comments: