قرآن مجید نے بار بار اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور اعلان فرمایا کہ ہر کافر مسلمان کا دشمن ہے اور کفار کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے خلاف ایک زہر بھرا ہوا ہے اور ہر وقت اور ہر موقع پر کافروں کے سینے مسلمانوں کی عداوت اور کینے سے آگ کی بھٹی کی طرح جلتے رہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کفار کے تین مشہور فرقوں یہود و مشرکین اور نصاریٰ میں سے مسلمانوں کے سب سے بڑے اور سخت ترین دشمن کون ہیں؟ اور کون سا فرقہ ہے جس کے دل میں نسبتاً مسلمانوں کی دشمنی کم ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں سورہ مائدۃ کی مندرجہ ذیل آیت شریفہ نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا اس پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اپنے بڑے اور چھوٹے دشمنوں کو پہچان کر ان سبھوں سے ہوشیار رہنا چاہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الْیَہُوۡدَ وَالَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیۡسِیۡنَ وَرُہۡبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوۡنَ ﴿82﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے۔ (پ6،المائدۃ:82)
درسِ ہدایت:۔ اس آیت کی روشنی میں گزشتہ تواریخ کے صفحات کی ورق گردانی کر کے اپنے ایمان کو مزید اطمینان بخشیے کہ یہودیوں اور مشرکوں نے مسلمانوں کے ساتھ جیسی جیسی سخت عداوتوں کا مظاہرہ کیا ہے، عیسائیوں نے ان لوگوں سے بہت کم مسلمانوں کے ساتھ بُر ا برتاؤ کیا ہے اور یہودیوں اور مشرکوں نے مسلمانوں پر جیسے جیسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، عیسائیوں نے اس درجہ مسلمانوں پر مظالم نہیں کئے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہے کہ یہود و مشرکین کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کر کے کبھی بھی ان لوگوں پر اعتماد نہ کریں اور ہمیشہ ان بدترین دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور عیسائیوں کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھیں کہ یہ بھی مسلمانوں کے دشمن ہی ہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے کچھ نرم گوشے بھی ہیں۔ اس لئے یہ یہودیوں اور مشرکوں کی بہ نسبت کم درجے کے دشمن ہیں۔
یہی اس آیت مبارکہ کا خلاصہ ومطلب ہے جو مسلمانوں کے واسطے ان کے چھوٹے بڑے دشمنوں کی پہچان کے لئے بہترین شمع راہ بلکہ روشنی کا منارہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: