علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا اور قیامت کی ہولناکیوں کا اس انداز میں بیان فرمایا کہ سامعین متاثر ہو کر زار و قطار رونے لگے، اور لوگوں کے دل دہل گئے اور لوگ اس قدر خوف و ہراس سے لرزہ براندام ہو گئے کہ دس جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عثمان بن مظعون حجمی کے مکان پر جمع ہوئے جن میں حضرت ابوبکر صدیق و حضرت علی و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن عمر و حضرت ابو ذر غفاری و حضرت سالم و حضرت مقداد و حضرت سلمان فارسی و حضرت معقل بن مقرن و حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے اور ان حضرات نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ بنایا کہ اب آج سے ہم لوگ سادھو بن کر زندگی بسر کریں گے، ٹاٹ وغیرہ کے موٹے کپڑے پہنیں گے اور روزانہ دن بھر روزے رکھ کر ساری رات عبادت کریں گے، بستر پر نہیں سوئیں گے اور اپنی عورتوں سے الگ رہیں گے اور گوشت چربی اور گھی وغیرہ کوئی مرغن غذا نہیں کھائیں گے نہ کوئی خوشبو لگائیں گے اور سادھو بن کر روئے زمین میں گشت کرتے پھریں گے۔
جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے اس منصوبہ کی اطلاع ملی تو آپ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ مجھے ایسی ایسی خبر معلوم ہوئی ہے تم بتاؤ کہ واقعہ کیا ہے؟ تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حضور کو جو اطلاع ملی ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ اس منصوبہ سے بجز نیکی اور خیر طلب کرنے کے ہمارا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔ یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال نبوت پر قدرے جلال کا ظہور ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ میں جو دین لے کر آیا ہوں اس میں ان باتوں کا حکم نہیں ہے۔ سنو! تمہارے اوپر تمہاری جانوں کا بھی حق ہے۔ لہٰذا کچھ دن روزہ رکھو اور کچھ دنوں میں کھاؤ پیو اور رات کے کچھ حصے میں جاگ کر عبادت کرو اور کچھ حصے میں سو رہا کرو۔ دیکھو میں اللہ کا رسول ہو کر کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی روزہ نہیں بھی رکھتا ہوں۔ اور گوشت، چربی، گھی بھی کھاتا ہوں۔ اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں اور اپنی بیویوں سے بھی تعلق رکھتا ہوں اور خوشبو بھی استعمال کرتا ہوں یہ میری سنت ہے اور جو مسلمان میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میرے طریقے پر اور میرے فرماں برداروں میں سے نہیں ہے۔
اس کے بعد صحابہ کرام کا ایک مجمع جمع فرما کر آپ نے نہایت ہی مؤثر وعظ بیان فرمایا جس میں آپ نے برملا ارشاد فرمایا کہ سن لو! میں تمہیں اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ تم لوگ سادھو بن کر راہبانہ زندگی بسر کرو۔ میرے دین میں گوشت وغیرہ لذیذ غذاؤں اور عورتوں کو چھوڑ کر اور تمام دنیاوی کاموں سے قطع تعلق کر کے سادھوؤں کی طرح کسی کُٹی یا پہاڑ کی کھوہ میں بیٹھ رہنا یا زمین میں گشت لگاتے رہنا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ سن لو! میری امت کی سیاحت جہاد ہے اس لئے تم لوگ بجائے زمین میں گشت کرتے رہنے کے جہاد کرو اور نماز و روزہ اور حج وزکوٰۃ کی پابندی کرتے ہوئے خدا کی عبادت کرتے رہو اور اپنی جانوں کو سختی میں نہ ڈالو۔ کیونکہ تم لوگوں سے پہلے اگلی امتوں میں جن لوگوں نے سادھو بن کر اپنی جانوں کو سختی میں ڈالا، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں پر سخت سخت احکام نازل فرما کر انہیں سختی میں مبتلا فرما دیا جن احکام کو وہ لوگ نباہ نہ سکے اور بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑ کر وہ لوگ ہلاک ہو گئے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲، ص ۲۶۷، پ۷،المائدۃ:۸۶)
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس وعظ کے بعد ہی سورہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیات شریفہ نازل ہو گئیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیۡنَ ﴿87﴾وَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰـلًا طَیِّبًا ۪ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤْمِنُوۡنَ ﴿88﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ تعالیٰ کو ناپسندہیں۔ اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ تعالیٰ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔ ( پ7،المائدۃ:87)
درسِ ہدایت:۔ ان آیات سے سبق ملتا ہے کہ اسلام میں سادھو بن کر زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے، عمدہ غذاؤں اور اچھے کپڑوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا کر اور بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے سادھوؤں کی طرح کسی کٹیا میں دھونی رما کر بیٹھ رہنا، یا جنگلوں اور بیابانوں میں چکر لگاتے رہنا ، یہ ہرگز ہرگز اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ خوب سمجھ لو کہ جو مفت خور بابا لوگ اس طرح کی زندگی گزار کر اپنی درویشی کا ڈھونگ رچا کر کٹیوں یا میدانوں میں بیٹھے ہوئے اپنی بابائیت کا پرچار کررہے ہیں اور جاہلوں کو اپنے دام تزویر میں پھانسے ہوئے ہیں۔ خوب آنکھ کھول کر دیکھ لو اور کان کھول کر سن لو کہ یہ سادھوؤں کا رنگ ڈھنگ اسلامی طریقہ نہیں ہے بلکہ اصل اور سچا اسلام وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے مقدس طریقے کے مطابق ہو۔ لہٰذا جو شخص سنتوں کا دامن تھام کر زندگی بسر کررہا ہو، درحقیقت اسی کی زندگی اسلامی زندگی ہے اور صوفیہ کرام کی درویشانہ زندگی بھی یہی ہے۔
خوب سمجھ لو کہ نبوت کی سنتوں کو چھوڑ کر زندگی کا جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے وہ درحقیقت نہ اسلامی زندگی ہے نہ صوفیہ کی درویشانہ زندگی۔ لہٰذا آج کل جن باباؤں نے راہبانہ اور سادھوؤں کی زندگی اختیار کررکھی ہے ان کے اس طرز عمل کو اسلام اور بزرگی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہے۔ اور یقین رکھنا چاہے کہ یہ سب مکر و کید کا خوبصورت جال بچھائے ہوئے ہیں جس میں بھولے بھالے عقیدت مند مسلمان پھنسے رہتے ہیں اور اس بہانے بابا لوگ اپنا اُلو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ ایک سچی حقیقت کا اظہار اور حق کا اعلان ہم عالموں کا فرض ہے جس کو ہم ادا کررہے ہیں۔
مانو نہ مانو آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد جناب کو سمجھائے جائیں گے
0 Comments: