قرآن مجید نے متعدد جگہ پر یہودیوں کی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں کا تفصیلی بیان کرتے ہوئے بار بار یہ اعلان فرمایا ہے کہ ان ظالموں نے اپنے انبیاء اور پیغمبروں کو بھی قتل کئے بغیر نہیں چھوڑا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَقْتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّیَقْتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿21﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں انہیں خوشخبری دو دردناک عذاب کی۔ (پ3،ال عمران:21)
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں نے ایک دن میں پینتالیس نبیوں اور ایک سو ستر صالحین کو قتل کردیا تھا جو ان کو اچھی باتوں کا حکم دیا کرتے تھے۔ (تاریخ ابن کثیر، ج ۲، ص۵۵) چنانچہ حضرت یحییٰ و حضرت زکریا علیہما السلام کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت:۔ابن عساکر نے ''المستقصی فی فضائل الاقصیٰ'' میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ دمشق کے بادشاہ ''حداد بن حدار''نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر وہ چاہتا تھا کہ بغیر حلالہ اس کو واپس کر کے اپنی بیوی بنالے۔ اس نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فتویٰ طلب کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اب تم پر حرام ہوچکی ہے اس کی بیوی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہو گئی۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو مجبور کر کے قتل کی اجازت حاصل کرلی اور جب کہ وہ ''مسجد جبرون'' میں نماز پڑھ رہے تھے بحالت سجدہ ان کو قتل کرادیا اور ایک طشت میں ان کا سر مبارک اپنے سامنے منگوایا ۔ مگر کٹا ہوا سر اس حالت میں بھی یہی کہتا رہا کہ ''تو بغیر حلالہ کرائے بادشاہ کے لئے حلال نہیں''اور اسی حالت میں اس پر خدا کا یہ عذاب نازل ہوگیا وہ عورت ،سر مبارک کے ساتھ زمین میں دھنس گئی۔ (البدایہ والنہایہ،ج۲،ص۵۵)
حضرت زکریا علیہ السلام کا مقتل یہودیوں نے جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تو پھر ان کے والد ماجد حضرت زکریا علیہ السلام کی طرف یہ ظالم لوگ متوجہ ہوئے کہ ان کو بھی شہید کردیں۔ مگر جب حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ دیکھا تو وہاں سے ہٹ گئے اور ایک درخت کے شگاف میں روپوش ہو گئے۔ یہودیوں نے اس درخت پر آرا چلا دیا۔ جب آرا حضرت زکریا علیہ السلام پر پہنچا تو خدا کی وحی آئی کہ خبردار اے زکریا ! اگر آپ نے کچھ بھی آہ و زاری کی تو ہم پوری روئے زمین کو تہ و بالا کردیں گے۔ اور اگر تم نے صبر کیا تو ہم بھی ان یہودیوں پر اپنا عذاب نازل کردیں گے۔ چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے صبر کیا اور ظالم یہودیوں نے درخت کے ساتھ ان کے بھی دو ٹکڑے کردیئے۔ (تاریخ ابن کثیر، ج ۲،۵۲) اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ کس جگہ پیش آیا؟ پہلا قول یہ ہے کہ ''مسجد جبرون'' میں شہادت ہوئی۔ مگر حضرت سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور قربان گاہ کے درمیان آپ شہید کئے گئے جس جگہ آپ سے پہلے ستر انبیاء علیہم السلام کو یہودی قتل کر چکے تھے۔ (تاریخ ابن کثیر، ج ۲، ص ۵۵)
بہرحال یہ سب کومُسلّم ہے کہ یہودیوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید کردیا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی شہادت کا حال معلوم ہوا تو آپ نے علی الاعلان اپنی دعوتِ حق کا وعظ شروع کردیا اور بالآخر یہودیوں نے آپ کے قتل کا بھی منصوبہ بنا لیا۔ بلکہ قتل کے لئے آپ کے مکان میں ایک یہودی داخل بھی ہو گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بدلی بھیج کر آسمان پر اٹھا لیا جس کا مفصل واقعہ ہماری کتاب ''عجائب القرآن'' میں مذکور ہے۔
درسِ ہدایت:۔ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کی شہادت کے واقعات اور حالات سے اگرچہ حقیقت میں نگاہیں بہت سے نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ تاہم چند باتیں خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں:
(۱)دنیا میں ان یہودیوں سے زیادہ شقی القلب اور بدبخت کوئی اور نہیں ہو سکتا جو حضرات انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرتے تھے۔ حالانکہ یہ برگزیدہ اور مقدس ہستیاں نہ کسی کو ستاتی تھیں نہ کسی کے مال و دولت پر ہاتھ ڈالتی تھیں بلکہ بغیر کسی اجرت و عوض کے لوگوں کی اصلاح کر کے انہیں فلاح و سعادت دارین کی عزتوں سے سرفراز کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن سب سے بڑے اور زیادہ عذاب کا مستحق کون ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ:
رَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا اَوْمَنْ اَمَرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ۔
وہ شخص جو کسی نبی کویا ایسے شخص کو قتل کرے جو بھلائی کا حکم دیتا ہو اور برائی سے روکتا ہو۔
(تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص ۲۲، پ۳، آل عمران:۲۱)
بہرحال ظالم یہودیوں نے اپنی شقاوت سے خدا کے نبیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا اور جس بے دردی کے ساتھ ان مقدس نفوس کا خون بہایا اقوام عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس لئے خداوند قہار و جبار نے اپنے قہر و غضب سے ان ظالموں کو دونوں جہان میں ملعون کردیا۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ان ملعونوں سے ہمیشہ نفرت و دشمنی رکھے۔
(۲)بنی اسرائیل چونکہ مختلف قبائل میں تقسیم تھے اس لئے ان کے درمیان ایک ہی وقت میں متعدد نبی اور پیغمبر مبعوث ہوتے رہے اور ان سب نبیوں کی تعلیمات کی بنیاد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب توریت ہی رہی اور ان سب انبیاء کرام علیہم السلام کی حیثیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نائبین کی رہی۔
(۳)علماء کرام کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک حق پر ڈٹ کر اُس کی تبلیغ کرتے رہنا چاہے اور حق کے معاملہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہے۔ جیسا کہ آپ نے پڑھ لیا کہ سرکٹ جانے کے بعد بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر سے یہی آواز آتی رہی کہ تین طلاقوں کے بعد بغیر حلالہ کرائے ہوئے عورت سے اس کا شوہر دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
0 Comments: