جنگ اُحد کا مکمل اور مفصل بیان تو ہم اپنی کتاب ''سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم'' میں تحریر کرچکے ہیں مگر ہم یہاں تو صرف منافقوں کی ایک خطرناک سازش کا ذکر کررہے ہیں جو جنگ اُحد کے دن ان بدبختوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی تھی۔ جس پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے اور جو بہت ہی قابل عبرت اور نہایت ہی نصیحت آموز ہے اور وہ یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے باہر جنگ کے لئے نکلے تو ایک ہزار کا لشکر پرچم نبوت کے نیچے تھا۔ اس لشکر میں تین سو منافقین بھی عبداللہ بن ابی کی سرکردگی میں ہم رکاب تھے۔ منافقین پہلے ہی کفار مکہ کے ساتھ یہ سازش کرچکے تھے کہ مخلص مسلمانوں کو بزدل بنانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کریں گے کہ شروع میں مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ نکلیں گے پھر مسلمانوں سے کٹ کر مدینہ واپس آجائیں گے۔ چنانچہ منافقوں کا سردار یہ بہانہ بنا کر لشکر اسلام سے کٹ کر جدا ہو گیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم تجربہ کاروں کی بات نہیں مانی کہ مدینہ میں رہ کر مدافعانہ جنگ کرنی چاہے بلکہ الٹا نوجوانوں کی بات مان کر مدینہ سے نکل پڑے تو ہم کو کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالیں۔ مگر الحمدللہ عزوجل!کہ منافقوں کا مقصد پورا نہیں ہوا کیونکہ مخلص مسلمانوں پر ان لوگوں کے لشکر اسلام سے جدا ہوجانے کا مطلق کوئی اثر نہیں پڑا۔ البتہ مسلمانوں کے دو قبیلے ''بنوسلمہ''و ''بنو حارثہ''میں کچھ تھوڑی سی بددلی اور بزدلی پیدا ہوچکی تھی مگر مخلص مسلمانوں کے جوش جہاد کو دیکھ کر ان دونوں قبیلوں کی بھی ہمت بلند ہو گئی اور یہ لوگ بھی ثابت قدم رہ کر پورے جاں نثارانہ جذبات سرفروشی کے ساتھ مشرکین کے دل بادل لشکروں سے ٹکرا گئے اور آخری دم تک پرچم نبوت کے زیرِ سایہ مشرکوں سے جنگ کرتے رہے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ؕ وَاللہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿121﴾ۙ اِذْ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمْ اَنۡ تَفْشَلَا ۙ وَاللہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوۡنَ ﴿122﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور یاد کرو اے محبوب جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کر جائیں اور اللہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہے۔(پ4،اٰل عمران:121)
الغرض جنگ اُحد میں منافقوں کی یہ خطرناک سازش اور خوفناک تدبیر بالکل ناکام ہو کر رہ گئی اور بحمداللہ عزوجل اگرچہ ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن آخر میں فتح مبین نے پیغمبر کے قدم نبوت کا بوسہ لیا اور مشرکین ناکام ہو کر میدانِ جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور پرچم اسلام بلند ہی رہا۔
درسِ ہدایت:۔ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر مومنین ا خلاصِ نیت کے سا تھ متحد ہوکرمیدانِ جنگ میں کافروں کے ساتھ جواں مردی اور اُولو العزمی کے ساتھ جہاد میں ڈٹے رہیں تو منافقوں اور کافروں کی ہر سازش و تدبیر کو خداوند قدوس ناکام بنا دیتا ہے مگر یہ حقیقت بڑی ہی صداقت مآب ہے کہ
برائے فتح پہلی شرط ہے ثابت قدم رہنا
جماعت کو بہم رکھنا، جماعت کا بہم رہنا
0 Comments: