بینک میں رقم اگرچہ امانت کے طور پر رکھوائی جاتی ہے مگر ہمارے عرف میں قرض شمار ہوتی ہے کیونکہ دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رقم بینک انتظامیہ کاروبار وغیرہ میں لگائے گی۔چنانچہ اس رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی مگر ادا اس وقت کی جائے گی جب نصاب کا کم از کم پانچواں حصہ وصول ہوجائے ۔
( ماخوذ از فتاوٰ ی امجدیہ،کتاب الزکوٰۃ،ج۱، ص۳۶۸)
فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ الھادیفتاویٰ امجدیہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : آسانی اسی میں ہے کہ جتنے روپے جمع ہوں ،سب کی زکوٰۃ سال بسال دیتا جائے ۔ معلوم نہیں کب موت آئے اور وارثین' زکوٰۃ دیں نہ دیں ،شیطان کو بہکاتے دیر نہیں لگتی ۔
0 Comments: