بہت سے اسلامی بھائی مالِ زکوٰۃ مدارس وجامعات میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ مدرسہ کے مُتَوَلِّی کو اطلاع دیں کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے تاکہ متولّی اس مال کو جُدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صَرف کرے، کسی کام کی اُجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
ایک ہی شخص کو ساری زکوٰۃ دے دینا
زکوٰۃ دینے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو مالِ زکوٰۃ تمام مصارفِ زکوٰۃ میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کردے اور اگر چاہے تو کسی ایک کو ہی دے دے ۔اگربطورِ زکوٰۃ دیا جانے والا مال بقدرِنصاب نہ ہوتو ایک ہی شخص کو دے دینا افضل ہے اور اگر بقدرِ نصاب ہو تو ایک ہی شخص کو دے دینا مکروہ ہے لیکن زکوٰۃ بہرحال ادا ہوجائے گی ۔ ایک شخص کو بقدرِ نصاب دینا مکروہ اُس وقت ہے کہ وہ فقیر مدیُون نہ ہو اور مدیُون ہو تو اتنا دے دینا کہ دَین نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے مکروہ نہیں۔ يونہی اگر وہ فقیر بال بچوں والا ہے کہ اگرچہ نصاب یا زیادہ ہے، مگر اہل و عیال پر تقسیم کریں تو سب کو نصاب سے کم ملتا ہے تو اس صورت میں بھی حرج نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۸،ملخصاً)
0 Comments: