معراج کی رات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر کی چھت کھلی اور ناگہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے اور آپ کوحرم کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آب ِزمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا۔ پھر آپ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے۔ براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ بیت المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس حلقہ میں باندھ دیا جس میں انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے دو رکعت نماز نفل جماعت سے پڑھائی۔(1) (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲)
جب یہاں سے نکلے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیے آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان میں حضرت یحیی و حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ملاقاتیں ہوئیں اور کچھ گفتگو بھی ہوئی۔ تیسرے آسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام ،چوتھے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام اورپانچویں آسمان میں حضرت ہارون علیہ السلام اورچھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے اور ساتویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ بوقتِ ملاقات ہر پیغمبر نے ''خوش آمدید! اے پیغمبر صالح ''کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ اس کے بعد آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ اس درخت پر جب انوار الٰہی کا پر توپڑا تو ایک دم اس کی صورت بدل گئی اور اس میں رنگ برنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کی کیفیتوں کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل علیہ السلام یہ کہہ کر ٹھہر گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں بڑھ سکتا۔ پھر حضرت حق جل جلالہٗ نے آپ کو عرش بلکہ عرش کے اوپر جہاں تک اس نے چاہا بلا کر آپ کو باریاب فرمایا اور خلوت گاہ راز میں نازو نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰﴾ (1) کے رمزو اشارہ میں خداوند قدوس نے اس حقیقت کو بیان فرما دیا ہے۔(2)
بارگاہ الٰہی میں بے شمار عطیات کے علاوہ تین خاص انعامات مرحمت ہوئے جن کی عظمتوں کو اﷲ و رسول کے سوا اور کون جان سکتا ہے۔
(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں۔ (۲) یہ خوشخبری کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کا ہر وہ شخص جس نے شرک نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا۔ (۳) امت پر پچاس وقت کی نماز۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان خداوندی عطیات کو لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے عرض کیاکہ آپ کی امت سے ان پچاس نمازوں کا بار نہ اٹھ سکے گا لہٰذا آپ واپس جاےئے اور اﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے چند بارآپ بارگاہ الٰہی میں آتے جاتے اور عرض پرداز ہوتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میرا قول بدل نہیں سکتا۔ اے محبوب ! آپ کی امت کے لیے یہ پانچ نمازیں بھی پچاس ہوں گی۔ نمازیں تو پانچ ہوں گی مگر میں آپ کی امت کو ان پانچ نمازوں پر پچاس نمازوں کااجرو ثواب عطا کروں گا۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرما کر اور آیات الٰہیہ کا معاینہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اوربیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ نے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا۔ ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد حرام میں پہنچ کر چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا سوگئے اور صبح کو بیدار ہوئے اور جب رات کے واقعات کا آپ نے قریش کے سامنے تذکرہ فرمایا تو رؤسائے قریش کو سخت تعجب ہوا یہاں تک کہ بعض کو رباطنوں نے آپ کو جھوٹا کہا اور بعض نے مختلف سوالات کیے چونکہ اکثر رؤسائے قریش نے بار بار بیت المقدس کو دیکھا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی بھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں اس لیے امتحان کے طور پر ان لوگوں نے آپ سے بیت المقدس کے درودیوار اور اس کی محرابوں وغیرہ کے بارے میں سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کی نگاہ نبوت کے سامنے بیت المقدس کی پوری عمارت کا نقشہ پیش فرما دیا۔ چنانچہ کفار قریش آپ سے سوال کرتے جاتے تھے اور آپ عمارت کو دیکھ دیکھ کر ان کے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیتے جاتے تھے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، کتاب الانبیاء ،کتاب التوحید، باب المعراج وغیرہ مسلم باب المعراج و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۴تا ص ۱۰ وغیرہ کا خلاصہ)
0 Comments: