شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے پیر طریقتحضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی
ولادت باسعادت حضرت والا بتاریخ ۲۲ ماہ صفرالمظفر بروزدوشنبہ ۱۲۳۳ھ مقد سہ بمقام نانوتہ ضلع سہارنپور ہوئی۔ قصبہ مذکور وطن اجداد مادری حضرت کا ہے ۔ اسم مبارک والد ماجدنے امداد حسین اورتاریخی نام ظفراحمد رکھا اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق محد ث دہلوی نواسئہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محد ث دہلوی قدس سرہما نے بہ لقب ’’امداد اللہ‘‘ ملقب فرمایا۔ آپ کے والدماجد کا اسم گرامی حضرت حافظ محمد امین تھا۔اور حضرت صاحب کے دو برادر کلاں ایک براد ر وہمشیرہ خور د بھی تھیں۔ بڑے بھا ئی ذوالفقار علی ومنجھلے فداحسین نام تھے، اور تیسرے خود حضرت اور چھوٹے بھائی بہادر علی وہمشیرہ بی بی وزیرالنساء نام تھیں۔ ابھی زمانہ سن حضرت کا صرف سات سال کا تھا کہ حضور کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی حسینی بنت حضر شیخ علی محمدصدیقی نانوتوی نے انتقال فرمایا۔ وقت وفات انھوںنے حضرت کے لیے ان الفاظ میں وصیت فرمائی کہ بعد میری وفات کے میر ے اس تیسرے بچہ کو کسی وقت او رکسی وجہ سے کبھی کوئی شخص ہاتھ نہ لگاوے اورزجر وحزب نہ کرے چنانچہ ان کی اس وصیت کی تعمیل میں یہا ں تک مبالغہ کیا گیا کہ کسی کو آپ کی تعلیم کی طرف کچھ توجہ والتفات نہ ہوا ، چونکہ تائید ربانی ابتدائے خلقت سے مربی حضرت کی تھی، اس زمانہ صغر سنی میں بھی باوجود عدم توجہی ومطلق العنانی کبھی لہوو لعب نا مشروع میں مشغول نہ ہوتے تھے اور اپنے باطنی شوق سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع فرمایا۔ اپنے شوق سے اکثر حفاظ کو استا ذ بنایا۔ مگر تقدیرات سے کچھ ایسے موانع پیش آتے گئے کہ نوبت تکمیل حفظ کی نہ پہنچی یہاں تک کہ بتوفیق الہی ۱۲۵۸ھ چند دن میں مکہ معظمہ میں اس کی تکمیل ہو گئی اور سولہ سال کے سن میں وطن شریف سے بہمراہی حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی نوراللہ مرقدہ دہلی کے سفر کا اتفاق ہو ا اسی زمانہ میں چند مختصرات فارسی تحصیل فرمائے او رکچھ صرف نحو اساتذہ عصر کی خدمت میں حاصل کی او رمولانا رحمت علی صاحب تھانوی نوراللہ مر قدہ سے تکمیل الایمان شیخ عبدالحق دہلوی قدس سرہ کی قرأت اخذ فرمائی۔
ہنوزتکمیل علوم ظاہرہ میسرنہ ہوئی تھی کہ ولولہء خد ا طلبی جوش زن ہو ا اور نوعمر ی میں حضرت مولانا نصیرالدین حنفی نقشبندی مجددی کے ہاتھ پر طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کی اور اذکار طریقہ نقشبندیہ مجددیہ اخذ فرمائے او ر چند دن تک اپنے پیر ومرشد کی خدمت میں حاضـررہ کر اجازت وخر قہ سے مشرف ہو ئے ، بعد ازاں بہ الہام مشکوٰۃ شریف کا ایک ربع قراۃ حضرت مولانا محمد قلندر محد ث جلال آبادی پر گزرا نا اور حصن حصین وفقہ اکبر حضرت مولانا عبدالرحیم مر حوم نانوتوی سے اخذ کیا او ریہ ہر دوبزرگوارارشد تلامذئہ عارف مستغرق حضرت مولانا مفتی الہی بخش صاحب کا ندہلوی کے تھے۔
ایک دن آپ نے خواب بیان کیا: میں مجلس اعلی واقدس حضرت سرور عالم مر شد اتم صلی اللہ علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم میں حاضر ہوں ، غایت رعب سے قدم آگے نہیں بڑ ھتا ہے کہ ناگاہ میرے جدامجد حضرت حافظ بلاقی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ا ور میرا ہاتھ پکڑ کر حضور حضرت نبوی ﷺ میں پہنچا دیا او رآنحضرت ﷺ نے میر ا ہاتھ لے کر حوالہ حضرت میانجیوصاحب چشتی قدس سرہ کے کردیا او راس وقت تک بعالم ظاہر میانجیوصاحب رحمتہ اللہ تعالی سے کسی طرح کا تعارف نہ تھا۔ بیان فرماتے ہیںکہ جب میں بیدار ہو اعجب انتشار و حیرت میں مبتلاہوا کہ یارب یہ کون بزرگ وار ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے میر ا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا او رخود مجھ کو ان کے سپر د فرمایا ۔اسی طرح کئی سال گزر گئے کہ ایک دن حضرت استاذی مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے میر ے اضطرار کو دیکھ کر بکمال شفقت وعنایت فرمایا کہ تم کیو ں پریشان ہوتے ہو ، موضع لوہاری یہاں سے قریب ہے ۔ وہاں جاؤ اور حضرت میانجیو رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ملاقات کرو، شاید مقصود دلی کو پہنچواور اس حیص وبیص سے نجات پاؤ۔ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت مولانا سے میں نے یہ سنا متفکر ہو ا او ردل سے سوچنے لگا کہ کیا کرو ں آخر بلالحاظ سواری وغیرہ میں نے فوراًراہ لوہاری کی لی اور شدت سفر سے حیران وپر یشان چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ پیروں میںآبلے پڑگئے ، بارے بہ کشش وکوشش آستانہ شریف پر حاضر ہو ااو رجیسے ہی دور سے جمال باکمال ملاحظہ کیا ، صورت انور کو کہ خواب میںد یکھا تھا، بخوبی پہچانااور محو خودرفتگی ہو گیا اورآپ سے گزر گیا۔ افتاں وخیزاں ا ن کے حضور میں پہنچکر قدموں پر گر پڑا ۔ حضرت میانجیو صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے میرے سر کواٹھایا اور اپنے سینہ نور گنجینہ سے لگایا اور بکمال رحمت وعنایت فرمایاکہ تم کو اپنے خواب پر کامل وثوق ویقین ہے ۔ یہ پہلی کرامت منجملہ کرامات حضرت میانجیو صاحب ؒ کی ظاہرہوئی اور دل کو بکمال استحکام مائل بخود کیا،الحاصل ایک مدت خدمت بابرکت جناب موصوف میں حلقہ نشین رہے تکمیل سلوک سلاسل اربعہ عموماوطریق چشتیہ صابریہ خصوصاً کیا خرقہ وخلافت نامہ واجازت خاصہ وعامہ سے مشرف ہو ئے بعد عطاء خلافت حضرت میانجیوصاحب ؒ نے فرمایا کہ کیا چاہتے ہو تسخیریا کیمیا جس کی رغبت ہو وہ تم کوبخشوں ، آپ یہ سن کر رونے لگے اور عرض کیا کہ دنیا کے واسطے آپ کا دامن نہیں پکڑا ہے خداکو چاہتا ہوں ، وہی مجھ کو بس ہے ۔ حضرت میانجیو صاحب قدس سر ہ یہ جواب سن کر بہت مسرور وخوش مزہ ہوئے اور بغل گیر فرما کر علوہمت پر آفریں کی اور دعا ہائے جزیلہ وجمیلہ دیں اورخود حضرت میانجیوصاحب اناراللہ ضریحہ نے ۱۲۵۹ھ میں رحلت فرمائی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یادِ الہٰی:۔
بعد ازاں قلبِ مبارک میںجذبہ الہیہ پیدا ہوا اور آپ آباد ی سے ویرانہ کو چلے گئے مخلوق سے نفرت فرماتے تھے ، اور اکثر دولت فاقہ سے کہ سنت نبویہ ﷺ ہے، مشرف ہو تے تھے ، یہاں تک کہ آٹھ آٹھ روز اور کبھی زیادہ گزرجاتے اور ذرا سی چیز حلق مبارک میں نہ جاتی اورحالت شدت بھوک میں اسرار و عجائب فاقہ مکشوف ہوتے تھے ۔ بیان فرماتے تھے کہ ایک دن بہت بھوک کی تکلیف میں ایک دوست سے کہ نہایت خلوص دلی رکھتا تھا، چند روپے میں نے بطور قرض مانگے باوجود موجود ہونے کے انکار صاف کردیا ۔ اس کی اس ناالتفاتی سے تکدر وملال دل میں پید ا ہو ا ، چند منٹ کے بعد تجلی توحید افعالی نے استعلا فرمایا اور معلوم ہو اکہ یہ فعل فاعل حقیقی سے متکون ہواہے ، اس وقت سے خلوص اس دولت کا زائد ہو ااور وہ تکدر مبدل بہ لطف ہو گیا۔ اس واقعہ کو چند ماہ گزرے تھے کہ میں مر اقبہ میں تھا سیدنا جبرئیل وسید نا میکائیل علیہماالسلام کو دیکھا محو خود رفتہ ہو گیا جو لذت کہ حاصل ہو ئی احاطہء بیان میں نے آسکتی او روہ دونو ں تبسم کناں دزدید ہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسی طر ح چلے گئے اور کچھ نہ کہا۔
سفر حجازمقدس:۔
سید کائنات اشرف مخلوقات ﷺ کو خواب میں دیکھا فرماتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آؤ ۔ یہ خواب دیکھ کر خواہش زیارت مدینہ طیبہ دل میں متمکن ہوئی ۔ یہاں تک کہ بلا فکر زاد راحلہ کے آپ نے عزم مدینہ منورہ کردیا اور چل کھڑے ہو ئے جب ایک گاؤں میں پہنچے آپ کے بھا ئیوں نے کچھ زادر اہ روانہ کیا ۔ حضور نے اس کو بخوشی خاطر قبول کیا او رروانہ ہو ئے یہاں تک کہ پنجم ذی الحجہ ۱۲۶۱ھ کو بمقام بندرلیس کہ متصل بندر جدہ کے ہے ، جہاز سے اُترے او ربراہ راست عرفات کو تشریف لے گئے او جملہ ارکان حج بجالائے اور مکہ معظمہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی قدسرہ وحضرت عارف باللہ سید قدرت اللہ حنفی بنارسی ثم المکی سے کہ کرامات وخرق عادات میں مشہورتھے فیض وفوائد حاصل کیے او ر حضرت مولانا محمد اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے چند وصایا فرمائے ۔
شاہ اسحاقؒ کے وصایا:۔
ازاں جملہ یہ کہ اپنے کو کمترین مخلوقات سمجھنا چاہیے او ریہ کہ تاامکان خود قوت حرام ومشتبہ سے پر ہیزواجب جانے ، کیوںکہ لقمہ مشتبہ وحرام سے برابر نقصان ہے اور مراقبہ {الم یعلم بان اللہ یریٰ} تعلیم فرمایا تاکہ ملاحظہ معنی صورت رویت حق تعالی خود کو ملاحظ کرے اوراس پر مواظبت رکھے تاکہ وجدان صورت ملکہ کا ہو وے اور دوسری باتیں تعلیم فرمائیں اور اپنے خاندان کے معمولات کی اجازت دی اور فرمایا کہ فی الحال بعد زیارت مدینہ طیبہ تمہارا ہند کو جانا قرین مصلحت ہے ، پھر انشا ء اللہ تعالی تمام تعلقات منقطع کرکے او ربہ ہمت تمام یہا ں آؤ گے۔ البتہ چند ے صبرضروری ہے۔ اس وقت مدینہ منورہ کا راستہ مامون تھا اور کوئی شورش بدوؤ ں وغیرہ کی نہ تھی اور آپ کے دل کو سخت اضطراب وقلق مدینہ طیبہ کی حاضری کا تھا کہ علت غائی اس سفر کی یہی تھی ۔ خیال تھا کہ اگر وہاں جانا نہ ہو اتویہ تمام محنت مفت رائگا ں ہوئی، بالآخر آپ نے یہ انتشار بحضور جناب سید قدرت اللہ عرض کیا ۔ حضرت سید صاحب نے تسکین فرمائی او رچند بدوی مریدان خود کو آپ کے سپردکیا او ر حکم دیا ، کہ بحفاظت تمام ان کومدینہ طیبہ لے جاؤ اور ان کے قلب کو کوئی رنج نہ پہنچنے پاوے کیونکہ ان کے ملال سے تمہاری عاقبت کی خرابی متصور ہے ، مولانا فرماتے ہیں۔
ہیچ تومے را خدا رسوا نہ کرد
تا ازو صاحبدلے نامد بدرد
بالجملہ آپ مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے او ردل میں خیال آیا کہ اگر کوئی عامل کامل وعارف واصل بلا میر ی طلب کے اجازت پڑھنے درودتنجینا کی دیتا تو بہت اچھا ہوتا بارے بفضلہ تعالی اس جوار پاک شاہ لولاک میں پہنچے او ر شرف جواب صلوٰۃ وسلام حضرت خیرالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام سے مشرف ہوئے اور عارف خدا حضرت شاہ غلام مرتضی جھنجھانوی ثم المدنی سے ملاقات فرمائی اوراپنے شوق دلی کا نسبت قیام مدینہ منورہ کے اظہار فرمایا حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی جاؤ چند ے صبر کرو پھر انشاء اللہ یہاں بہت جلد آؤ گے اور صاحب جذب واحسان حضرت مولانا شاہ گل محمد خانصاحب رحمتہ اللہ علیہ سے کہ متوطن قدیم رام پور تھے او رعر صہ تیس سال سے مجاور روضہ شریف تھے، ملاقات کی او ران کی خدمت سے بہت فوائد حاصل کیے ، حضرت خانصاحب موصوف نے بلا ذکر وطلب اجازت درودتنجیناکی دی کہ ہر روز اگر ممکن ہو ایک ہزار بارورنہ تین سوساٹھ بار پڑھاکرو اور اگر اس قد ر میںبھی دقت ہو تو اکتالیس بار تو ضرور پڑھا کرو اور ہرگزناغہ نہ ہو نے پاوے کہ اس میںبہت سے فوائد ہیں۔ آپ گو ظاہری علم شریعت میں علامہ دوران او رمشہور زمان مولوی نہ تھے مگر علم لدنی کے جامہ سے آراستہ اور نور عرفان وایقان کے زیورات سے سرتاپا پیراستہ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کو مہبط انوار وبرکات او رفیوض وتجلیات بنائے ہوئے تھے ۔ خلقۃً ضعیف ونحیف خفیف اللحم اس پر مجاہدات وریاضات اورتقلیل طعام ومنام اور سب سے بڑھ کر عشق حسن ازلی جو استخواں تک کوگھلا دیتا ہے ،جس کے باعث آخر میں کروٹ تک بد لنا دشوارتھا۔
ہجرت غدر کے بعد:۔
ْٓایام غدر میں فساد و الزام بغاوت کے زمانہ میں مکہ معظمہ ہجرت فرما ہوئے ۔اور کل چوراسی سال تین مہینہ بیس روزگوشہ ہائے عالم دنیا کو منور فرماکر بارہ یا تیرہ جمادی الاخریٰ ۱۳۱۷ھ بروزشنبہ بہ وقت اذان صبح اپنے محبوب حقیقی سے واصل ہوئے او رجنت معلی (مقبر ہ مکہ معظمہ ) میں مولوی رحمت اللہ کی قبر کے متصل مدفون ہوئے ۔ طاب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ۔
استغنا اور قناعت :۔
اعلی حـضرت گھر سے خوشحال او رموروثی جائد اد کا معقول حصہ پائے ہوئے تھے جو بہ ظاھر الحال گزران معیشت کے لیے کا فی ووافی سامان تھا، مگر آپ کا قلب سلیم چونکہ بالطبع زہد و توکل کا شیداتھا۔ اس لیے آپ نے اپنی ساری جائداد سکنی وزرعی اپنے بھائی کے نام منتقل کردی اور مسجد کے حجرہ کو مسکن بنایاتھا۔ اعلی حضرت زاویہ خمول کی زیست او رگمنامی کے ساتھ ایام گزاری کی جانب بہت راغب تھے۔ اس لیے ہمیشہ اپنے کو چھپایا اورعلحدگی ویکسوئی کو اخفاء کتمان حال کا سبب بنایا مگر بقول ، {مشک انست کہ خود ببوید نہ کہ عطا ر بگوید !}
اپنے چھپائے کب چھپ سکتے تھے ۔ خدائی مخلوق نے جبہ سائی کو فخر سمجھا او رجیساکہ دین کا اپنے زمانہ ولادت سے حال رہاہے۔ غربا ومساکین اور عوام الناس طالب دین نیک بندوں کی آمد شروع ہوئی ، مجبوراً امتثا لا للامر آپ طالبین کو بیعت فرماتے او راللہ کا نام سیکھنے کے لیے آنے والی خلقت کی دستگیری فرماتے تھے۔ آخر میں طالبین کا ہجوم دن بدن بڑھتا گیا ، آپ اسی توکل کے وسیع خوان پر مہانوں کی بخوشی ضیافت فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی بھاوج نے آپ کے پاس پیغام بھیجاکہ موروثی جائداد آپ منتقل فرما چکے خود تو کل پر بہ عسرت وفقر گزران ہے، پھر اس پر مہمانوںکی کثرت او رنووارد مسافروں کی زیادتی گوآپ کو بار نہ معلوم ہو مگر میر ی غیر ت تقاضا نہیں کرتی کہ اس خدمت سے چشم پوشی کروں ۔ اس لیے آج سے جتنے مہمان آئیں ان کی اطلاع غریب خانہ پر فرمادیں، ان کا کھانا دونوں وقت یہاں سے آئے گا۔ اوّل تو اعلیحضرت نے انکار فرمایا کہ نہیں میر ے مہمان ہیں ان کی خدمت کا مجھ ہی پر حق ہے مگر آخر بھابھی صاحبہ کے اصرار کے سبب جو محض اخلاص کے ساتھ تھا آپ نے قبول فرمالیا او راس روز سے مہمانوں کا کھانا دونوں وقت وہاں سے آنے لگا، اعلیحضرت کی بھاوج کا حسن اعتقاد اور مخلصانہ برتاؤ تھا، کہ مہمانوں کا کھانا خود پکاتی تھیں او ر کسی مہمان کے ناوقت آنے سے بھی کبھی تنگ دل نہ ہوتی تھیں۔
ہجرت مکہ معظمہ ونکاح:۔
ایام غدر ہندوستان میں بوجہ بے نظمی دین وتغلب معاندان دین قیام ہند گراں خاطر ہو ا اور ارادئہ ہجرت واشتیاق زیارت روضئہ حضرت رسالت پناہ ﷺ جو ش وخروش میں آیا اور ۱۲۷۶ھ میں براہ پنجاب روانہ ہوئے او راثنا ے راہ میں پاک پٹن و حیدرآباد سندھ وغیرہ مواضع میں زیارات بزرگان مقامات مذکورسے مشرف اور فیوض وبرکات سے مالامال ہو تے ہوئے کراچی بندر پہنچے ، وہاں سے جہاز پر سوار ہو ئے اور انوار وبرکات ہجرت ابتدائے سفرسے مشاہد ہ فرمانے لگے ، اور بعد طے منازل خیرالبلاد مکہ معظمہ پہنچے اور انوار وبرکات اس مقام متبرک سے فیض یاب ہوئے اور اس مقام مقدس کو مسکن وماویٰ اپنا بنایا ۔ اوّلا چند سال تک جبل صفاء پر اسمعیل سیٹھ کے رباط کے ایک خلوۃ میں معتکف رہے اور مشغولی حضرت حق جل وعلا مہلت نہ دیتی تھی،کہ جو دوسرے سے مخاطب ہو ں ناچار مخلوق سے کم ملتے تھے، لیکن مشاہیر علماء وشیوخ کے ساتھ کبھی کبھی خلوت وجلوت میں اکٹھا ہو تے تھے اور کلمات رمزو اسرار ولطف واخلاق درمیان میں آتے تھے اور باہم رسم دوستی مستحکم رکھتے تھے او ریہ حضرات کمال تعظیم واحترام حضرت فرماتے تھے۔
آپ کے ارشادات پر از حکمت ہیں:۔
ایک شخص نے تصوف کے معنی پوچھے، فرمایا کہ تصوف کے معنی میں بسبب احوال مشائخ مختلف اقوال ہیں ہر کوئی اپنے مقام یا حال کے موافق مسائل کا جواب دیتاہے، یعنی مبتدی سائل کو ازروئے معاملات مذہب ظاہر اورمتوسط کو ازروئے احوال، منتہی کو ازروئے حقیقت البتہ تمام اقوال میں اظہر قول یہ ہے کہ اوّل ابتدائے تصوف علم ہے اوراوسط عمل وآخر عطاء وبخشش وجذبہ الہٰی ہے اور علم مراد مرید کی کشایش کرتا ہے او رعمل اس کی توفیق وطلب پر مدد کرتاہے اور بخشش مرتبہ غایت رجاکو کہ احاطہء بیان سے باہر ہے ، پہنچاتی ہے ، اور حق سبحانہٗ کے ساتھ واصل کرتی ہے اور اہل تصوف تین قسم کے ہیں یعنی تین مراتب رکھتے ہیں : اوّل مرید کہ اپنی مراد طلب کرتا ہے ، دوم متوسط کہ طلب گار آخرت ہے ، سوم منتہی کہ اصل مطلوب تک پہنچ گئے ہیں ، اور انتقالات احوال سے محفوظ ہیں۔
پھر ارشاد ہو اکہ طالب طریق تصوف کو چائیے کہ ادب ظاہر وباطنی کونگاہ میں رکھے۔ادب ظاہریہ ے کہ خلق کے ساتھ بحسن ادب وکمال تواضع واخلاق پیش آئے ، اور ادب باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات واحوال مقامات میں باحق سبحانہ رہے۔ حسن ادب ظاہر سرنامہ ء ادب باطن کا ہے اور حسن ادب ترجمان عقل ہے بلکہ {التصوف کلّہ ادب}دیکھوحق تعا لیٰ اہل ادب کی بزرگی کی مدح فرماتے {انّ الّذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقویٰ لہم مغفرۃ وَّاجر عظیم } جو کوئی کہ ادب سے محروم ہے وہ تما م خیرات ومبرات سے محروم ہے اور جو کہ محروم ازادب ہے وہ قرب حق سے بھی محروم ہے۔
ازادب پر نور گشت است ایں فلک
وازادب معصوم و پاک آمد ملک
ژایک شخص نے حاضرین سے عر ض کیا صوفی کون ہے اور ملامتی کو ن ؟ فرمایا صوفی وہ ہے کہ سواے اللہ کے دنیا وخلق سے مشغول نہ ہو اور رد و قبول مخلوق کی پر وانہ رکھے ، مدح وذم اس کے نزدیک برابر ہو اور ملامتی وہ ہیکہ نیکی کو چھپائے اور بدی کو ظاہر کرے -
ژ ایک آدمی نے فقیر کے معنی دریافت کئے فرمایا فقر دو طرح پر ہے ، اختیاری و اضطراری ، فقر اختیاری جو واسطے رضائے حق کے ہو، دولت مندی سے بدر جہاافضل ہے کہ حدیث الفقرفخری میں اسی فقر کی طرف اشارہ ہے اور فقر اضطراری عوام کو ہلاکت کفر تک پہنچا تا ہے کہ حدیث کاد الفقران یکون کفراً، سے یہی مراد ہے ، اور معنی فقر کے محتاجی ہیں اور فقیر حقیقی وہ ہے ، کہ اپنے نفس سے بھی محتاج ہو یعنی مالک اپنے نفس کا بھی نہ رہے کیوں کہ جس قدر فقیر کا ہاتھ ہر چیز سے خالی ہو گا ، اسی قدر اس کا دل ماسوی اللہ سے خالی ہو گا فانی فی اللہ و باقی باللہ ہو جائے گا۔
ژایک دن بطور نصیحت کے بیان فرمایا کہ ہر گزہر گزگرد دنیا کے نہ جاؤ او ردل کو اسکا گرویدہ نہ بناؤ کیونکہ دنیا کی مثال آدمی کے سایہ کے ہے ، اگر کوئی سایہ کی طرف متوجہ ہو تو وہ اس کے آگے آگے بھا گتا نظر آئے اور اگر سایہ کو پس پشت کرے وہ خود پیچھا نہ چھوڑے ، یہی حال دنیا کا ہے کہ جوکوئی دنیا کو ترک کرتاہے ، دنیا اس کا پیچھا کرتی ہے ، اور جو کوئی طلب دنیا میں کوشش کرتا ہے اس سے کوسوں دوررہتی اور ترک کرنے والے کوتلاش کرتی ہے۔
ژ ایک دن ایک شخص نے سوال کیا کہ طالب راہ حق کو کیا کیا ضرور ہے، فرمایا اوّل طالب شے کو لازم ہے کہ حقیقت وماہیت شئے مطلوبہ کی دریافت کرے تاکہ رغبت اس کے حاصل کرنے کی دل میں پید ا ہو پس جوشخص کہ ارادہ کرے کہ صوفیوں کے طریق وراہ حق پر چلے ، اولاً ماہیت وحقیقت وغایت تصوف کہ راہ حق ہے معلوم کرے بعد ازاں اس کے اعتقادات وآداب ظاہری وباطنی کو سمجھے ۔ خصوصاً اطلاقات کوکہ ان کے حال وقال وتصنیفات میں آتے ہیں ، جانے اور خاص خاص اصطلاحات کہ ان کے کلمات میں پائی جاتی ہیں ان سے واقف ہو تاکہ تابعداری ان کے افعال واقوال واحوال کی کرسکے ۔
ژ ایک دن ایک شخص نے مسئلہ وحدت وجود کا سوال کیا فرمایا کہ یہ مسئلہ حق وصحیح مطابق الواقع ہے ۔ اس مسئلہ میں کچھ شک وشبہ نہیں ۔ معتقد علیہ تمامی مشائخ کا ہے، مگر قال وقرار نہیں ہے۔ البتہ حال وتصدیق ہے یعنی اس مسئلہ میں تیقن اور تصدیق قلبی کافی ہے اور استتار اس کا لازم اور افشا ناجائز ہے کیوں کہ اسباب ثبوت اس مسئلہ کے کچھ نازک ہیں بلکہ بحد دقیق کہ فہم عوام بلکہ فہم علماء ظاہر میں کہ اصطلاح عرفاسے عاری ہیں،نہیں آتے تو الفاظ میں کہنا اور دوسرے کو سمجھانا کب ممکن ہے بلکہ جن صوفیوں کا سلوک ناتمام ہے اور مقام نفس سے ترقی کرکے مرتبہ قلب تک نہیں پہنچتے ہیں، اس مسئلہ سے ضررشدید پاتے ہیں اورمکرِ نفس سے چاہ الحاد وقعر ضلالت میں پڑجاتے ہیں۔ نعوذ باللہ منہا، اس جگہ پر زبان کوروکنا واجب ہے۔
ژ فرمایا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ طریقت شریعت سے جدا ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اقرار باللسان اشارہ طرف شریعت کے ہے اور تصدیق بالجنان سے مطلب طریقت ہے۔ پس ایک بغیر دوسرے کے کام کا نہیں، اقراربدون تصدیق نفاق ہے۔ اور تصد یق بلااقراربے کار۔ فرمایا کہ ایک روز دوآدمی آپس میں بحث کرتے تھے ایک کہتاتھا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ حضرت غوث اعظم قدس سرہٗ سے افضل ہیں اوردوسرا حضرت غوث پاک کوشیخ پر فضیلت دیتاتھا۔ میں نے کہا کہ ہم کو نہ چاہئے کہ بزرگوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کریں اگر چہ اللہ فر ماتاہے فضلنا بعضھم علیٰ بعض جس سے معلو م ہواکہ واقع میں تو تفاضل ہے لیکن ہم دید ئہ بصارت نہیں رکھتے ، اس واسطے مناسب شان ہمارے نہیںکہ محض رائے سے ایسی جرأت کریں البتہ مرشد کو تمامی اس کے معاصرین پر فضیلت بہ اعتبار محبت کے دینا مضائقہ نہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ باپ کی محبت چچا سے زیادہ ہوتی ہے اوراس میں آدمی معذورہے ، اس نے یعنی قادری نے دلیل پیش کی کہ جس وقت حضرت غوث پاک نے قد می علی رقاب اولیاء اللہ فرمایا تو حضرت معین الدین ؒنے فرمایا بل عینی یہ ثبوت افضیلت حضرت غوث اعظم کا ہے ، میں نے کہا کہ اس سے تو فضیلت حضرت معین الدین صاحب ؒ کی حضرت غوث اعظم پر ثابت ہوسکتی ہے نہ بر خلاف اس کے کیوں کہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث ؒ اس وقت مرتبہ الوہیت یعنی عروج میں تھے اور حضرت شیخ مرتبہ عبدیت یعنی نزول میں اور نزول کا افضل ہونا عروج سے مسلم ہے ۔
ژفرمایا کہ کلمہ لا الہ الااللہ کے بہ اعتبار مراتب مردمان کے تین معنی ہے لامعبود لا مطلوب لاموجود الا اللہ اور یہ سب مراتب اعلی۔
ژفرمایا سیر تین طرح پر ہے سیرالی اللہ وفی اللہ ومن اللہ۔
ژ فرمایا کہ ایمان رجااور خوف میں ہے ہم لوگ رجاپر بھروسہ اور غرور کررہے ہیں اور خوف کو بھول بیٹھے ہیں۔
فرمایا عاشق دوطرح پر ہے عاشق ذاتی وعاشق صفاتی اور مرتبہ عاشق ذاتی کا عاشق صفاتی سے زیادہ ہے کیونکہ عاشق ذاتی پر جو کچھ وارد ہو تا ہے اس کو ذات الہٰی سے جانتا ہے ۔ پس اس وجہ سے رضا وتسلیم میں مرتبہ عالی پاتا ہے ، اک دن حضرت غوث الاعظم ؒ سات اولیاء اللہ کے ہمراہ بیٹھے ہو ئے تھے ناگاہ نظر بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے آپ نے ہمت توجہ باطنی سے اس کو غرق ہو نے سے بچالیا وہ ساتو ں آدمی کہ عاشق ذات اور مرتبہ رضاوتسلیم میں ثابت قدم تھے۔ اس امر حضرت غوث کو خلاف خیال کرکے آپ سے نا خوش ہوئے اوراپنی مجلس سے علحدہ کردیا۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ سات ڈھانچے ہڈیوں کے مسلم رکھے ہیں دریافت ہوا کہ ایک درندے نے خداسے دعا مانگی کہ مجھ کواپنے دوستوں کا گوشت کھلا وہ ساتوں آدمی پیش کیے گئے اور اس درندے نے گوشت ان مردان خدا کا کھا نا شروع کیا جس وقت درندہ دانت مارتا تھا وہ لوگ ہر گز دم نہ مارتے تھے یہاں تک کہ تمام گو شت اپنا راہ مولی میں نثار کردیا اور صرف ہڈیا ں باقی رہ گئیں۔
ژفرمایا انماالاعمال بالنیات تصوف کی جڑ ہے۔
ژفرمایا ایک آدمی نے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی غیبت کی ، آپ نے ایک طبق دینار کا اس کو ہدیۃ ً دیا لوگو ں نے پوچھا کہ یہ کیسا الٹا معاملہ ہے امام صاحب نے فرمایا ھل جزا ء الا حسان الا الاحسان اس شخص نے مجھ کونعمت اخروی دی تو کیا میں اس کو دنیا کی نعمت بھی نہ دوں ۔
ژفرمایاتواضع نفاق کے ساتھ ممنوع ہے ۔
ژفرمایا کہ مولد شریف تمامی اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرت رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتا ہے ، البتہ جو زیا دتیاں لو گوں نے اختراعی کی ہیں نہ چاہئیں، اورقیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔
ژفرمایا واسطے تقویت حافظہ کے یا علیم علمنی مالم اکن اعلم یا علیم اکتالیس بار بعد نماز عصر پڑھنا چاہیے اور سورئہ فاتحہ بعد نمازفجر گیارہ بارپڑ ھنا چائیے یا روٹی پرلکھ کر کھائیں۔
ژفرمایا :
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ژفرمایا کہ وظائف میں عدد طاق عمدہ ہیں نوہو ں یا گیارہ
ژفرمایا اصل ذوق وشوق محبت ہے کشف وکرامات ثمرات زائدہ ہیں ، ہو ئے ہوئے نہ ہوئے، عارف اس کو ایک جو کے برابر نہیں سمجھتے بلکہ اکثر حجاب ہو تا ہے ۔
ژفرمایا صورت نیکوں کی اختیار کرنا چاہئیے ، سیرت اللہ تعالی درست کردے گا کیونکہ وہ واہب فیاض ہے ۔ دریافت کیا گیا کہ ساحران موسیٰ علیہ السلام مشرف بہ ایمان ہوئے اور فرعونیاں کافر رہے اس کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا کہ ساحر وں نے صورت موسوی اختیار کی تھی اس کے طفیل وہ نیک ہوئے۔
ژ فرمایا کہ مراتب (عرفا) چار ہیں: مجذوب ، سالک، مجذوب سالک، سالک مجذوب ، اور یہ سب سے بڑا مرتبہ ہے ایک آدمی قوم ہند و ناتھونامی حالت جذب میں تھا ، ایک دن مجھ سے کہا کہ اولے گریں گے ، ایسا ہی ہوا اگر کافرسے ایسا ظاہر ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں اور ایسے آدمی حالت کفر میں مرتے ہیں۔
ژفرمایا کہ عذاب وثواب اس جسم پر نہیںہے بلکہ جسم مثالی پر کہ خواب میں نظر آتا ہے ہوگا و نیز روح اعظم انسانی پر کہ ایک تجلی حق ہے ، عذاب نہ ہو گا وہ مثل آفتاب کے ہے اور روح حیوانی مانند چراغ ۔
ژفرمایا کہ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب نے مجھ کوچار چیز یں تلقین فرمائیں: (۱)طلب رزق حلال (۲)تمام عالم سے اپنے کو بدتر سمجھنا (۳) مراقبہ احسان (۴) ترک اختلاط غیر جنس۔
ژفرمایا کہ مولانا فخرالدین وشاہ ولی اللہ وخواجہ میردرد ومرزا مظہر جان جاناں رحمہم اللہ تعالیٰ کی کسی شخص نے ضیافت کی اور اپنے گھر بٹھا کر خود غائب ہو گیا اور بہت دیر کے بعد یہا ں تک کہ نماز کا وقت آگیا ، آکر دو دو پیسے سب کے ہاتھ پر رکھ دیے مولانا صاحب پر چونکہ اخلاق رحمت اور انکسار غالب تھا آپ نے اس کی تعظیم اور پیسوں کو سروچشم سے لگا کر قبول کیا ، او رمرزا صاحب چونکہ بہت نازک طبیعت مزاج تھے (یہا ں تک کہ زمانہ بچپن میں بد صورت دایہ کی گودمیں نہ جاتے تھے) کہنے لگے کہ میاں اگر یہی ارادہ تھاتو خواہ مخواہ اتنی دیر کی اور دوسرے حضرات نے کچھ نہیں کہا۔ فرمایا کہ شیرخاں صاحب خلیفہ حضرت میانجی شاہ نور محمد صاحب قدس سرہ میر ے برادرارشادی جب قریب رحلت ہو ئے وقت نزع لوگوں نے تلقین کلمہ شروع کیا اور وہ منہ پھیر لیتے تھے۔ سب کوتعجب تھا کہ ایسے بزرگ کی یہ حالت ہے کہ جس سے سوئے خاتمہ کا خیال ہوتاہے ، جب حضرت مرشد تشریف لائے اور پو چھا کہ کیا حال ہے فرمایا الحمد للہ ، لیکن یہ لوگ مجھ کوپریشان کرتے ہیں اور مسمی سے طرف اسم کے لاتے ہیں، پس مراتب لوگوں کے مختلف ہیں۔ اعراض کلمہ سے سو ء خاتمہ پراستدالال نہ کرنا چاہئے ممکن ہے اس میںکوئی وجہ خاص ہو جیسے ذکر ہوا۔ اقول پس وہ شخص معذورہوگا ، لیکن اس سے زیادہ کمال جامعیت ہے کہ باوجود مشاہدہ مسمی کے اسم کا حق بھی اداکرے ۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ تشریف رکھتے ہیں اور ایک کتاب پڑھی جاتی ہے جس کو حضور کمال توجہ سے سن رہے ہیں۔ دریافت فرمایا کہ یہ کو ن سی کتاب ہے۔ احیاء العلوم حجۃ الاسلام امام غزالی کی ہے فرمایا یہ لقب عطیہ حضرت ﷺ ہے۔
ژفرمایا کہ کو ئی مہم پیش آئے سورئہ یٰسین پڑھیں اور ہر دفعہ مبین پر پہنچ کر سات بار سورہ فاتحہ مع تسمیہ پڑھیں اور اوّل واخر سورۃ کے درود شریف پڑھیں ۔درود مثل صندوق کے ہے کہ اپنے اندر لپیٹ کر (وظیفہ و دعاکو )لے جاتا ہے ۔ یا سورئہ مزمل سات بار پڑ ھیں کہ معمولات مشائخ سے اور مجرب ہے او رسورۃ فاتحہ اکتالیس بار جو میں نے اپنے آدمیوں (مریدوں ) پر لازم کیا ہے۔ اس سے بہتر اموردینی و دنیاو ی کے لیے کچھ نہیںہے۔فقط
ژفقیر کو چاہئے کہ نہ طمع کرے نہ منع کرے ۔
ژ مومنؔ خاں دہلوی ، مجھ سے بہت اعتقادرکھتے تھے ، میں نے پوچھا کہ بعض لو گ کہتے ہیں کہ مثنوی کی نظم سست ہے جو اب دیا کہ کو ئی جاہل کہتا ہو گا ، اساتذہ کے نزدیک مثنوی سند ہے ۔ بعد انتقال خاں صاحب کے لوگ حسب وصیت ان کی قبر پر گئے ، ان کا حال عمدہ پایا۔
ژفرمایا کہ مولوی محمدقاسم صاحب نے پوچھا کہ میں نوکری چھوڑدوں میں نے (حضرت نے ) جو اب دیا کہ جب ایسی حالت ہو کہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے تب چھوڑیو۔
ژفرمایا دعا میں درود مثل صندوق کے ہے۔
ژفرمایا کہ جو مزہ میں فقر وفاقہ میں دیکھا اور اس میں میرے مراتب کی ترقی ہوئی اور انبیاء علیہم السلام وملائک مقر بین کی زیارت ہوئی اور انوار و تجلیات مجھ پر نازل ہوئے وہ امور پھر فراغت میں میسر نہ ہوئے فرمایا فقر و فاقہ بڑی نعمت ہے۔حضرت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں الفقرفخری۔
ژفرمایا کہ مومن ؔخاں صاحب دہلوی فرماتے تھے کہ ایک بار چند حضرات شاہ عبدالعزیز صاحبؒ سے حدیث شریف پڑھ رہے تھے ۔ شاہ صاحب نے تذکرہ اکابرین دین کا کیا ہم لوگوں نے عر ض کیا کہ اب بھی کوئی ایسا ہے ۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ پر سوں ہمارے پاس فلاں حلیہ کا ایک شخص مسئلہ دریافت کر نے آوے گا وہ مرد کامل ہے اورسمت ووقت بھی معین کردیا ۔ ہم لوگ روزموعود میں زینت المساجد میں کہ کنارے جمنا کے واقع ہے، ان کے اشتیاق میں بیٹھے تھے۔ وقت مقر رہ پر دریا کے کنارے سے اسی حلیہ کے ایک بزرگ صاحب نمودار ہو ئے ۔ ہم لوگ دوڑے اور زیارت سے مشرف ہوئے ، وہ شاہ عبدالرحیم صاحب تھے۔ مومن ؔخاں صاحب اس واقعہ کی وجہ سے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ۔
ژفرمایاکہ دہلی میں چند مشائخ کامل ہمعصر تھے۔ چشتیہ نظامیہ میں حضرت فخرالدن صاحب اور قادریہ میں حضرت میر درد صاحب، نقشبندیہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور صابریہ میں حضرت غلام سادات صاحب ۔
ژ فرمایا کہ حضرت غلام سادات صاحب کے تھانہ بھون میں اکثر لوگ مرید تھے ، اس وجہ سے وہ اکثر یہاں تشریف لاتے تھے ، ایک مرتبہ آپ آئے تو تمام لوگ گئے ، مگر حافظ ضامن صاحب کے دادا میر عبدالغنی حاضر نہ ہوئے۔ آپ نے دریافت کیا کہ میر عبدالغنی کیوں نہیںآئے ، لوگوں نے عر ض کیا کہ ان کا ایک حسین وجمیل لڑکا انتقال کرگیا ہے۔ اس وجہ سے مخبوط الحواس ہوگئے ، آپ نے فرمایاکہ ایک بارانہیں میر ے پاس لاؤ ، مگر وہ نہ گئے ۔ اتفاقیہ راستہ میں حضرت غلام سادات کو مل گئے ۔ آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ، عشق برمردہ نباشد پائدار، اسی وقت ان کاخبط جاتارہا اور عشق حق غالب ہو گیا ۔ مسجد میں بیٹھے رہے او رخدا کی یاد میں راہی ملک بقاہوئے۔
ژفرمایا کہ عذاب اُخروی اس عالم میں بھی بعض اشخاص کو معلوم ہو جاتاہے ۔ (جلال آباد میں جوہمارے قصبہ کے قریب ایک بستی ہے) ایک رئیس نے بہ طمع دنیوی ہنود کو اپنی زمین بت خانہ بنانے کو دے دی،جب ان کا وقت اخیرآیا حکیم غلام حسن ان کے معالج نبض دیکھ رہے تھے ، مریض نے پکار کے کہا کہ حکیم جیومجھے اس پنجرہ آہنی آتشیں سے بچاؤ مجھ کو اس پنجر ے میں ڈالے دیتے ہیں۔ لوگ متعجب تھے اور کچھ تدارک نہیں کرسکتے تھے۔ آخر اسی فریاد وزاری میں اس کی روح پروازکرگئی ۔
ژفرمایاکہ مولانا احمد علی صاحب محدث سہانپوری جب حافظ عبدالکریم تاجر میر ٹھ کے ملازم تھے ، یہاں مع حافظ عبدالکریم کے زیارت حرمین شریفین کوگئے ، میں نے کہا مولانا مملوک علی صاحب نے میر ا سبق گلستان آپ کے سپر دکیاتھا۔ اس وجہ سے آپ میر ے استاد ہیں مگر میں ایک بات عرض کروں گا۔ اگر ناگوارنہ ہو ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو اپنا بزرگ جانتاہوں جو فرمائیے بسر و چشم منظور ہے۔ میں نے کہا آپ کایہ منصب نہیں ہے کہ حافظ عبدالکریم وغیر ہ آپ کو کام کا حکم دیں ، بلکہ انکو آپ کا محکوم ہو نا چاہیئے ، لیکن نوکری بجز محکومی چارہ نہیں ۔ اب آپ اپنے مکان پردرس احادیث نبویہ ﷺ کا فرمایا کریں تاکہ خلق کو فیض ہو۔ مولانا صاحب نے قبول کرکے فرمایا کہ آپ حرم محترم میں میر ے لئے دعا کریں چنانچہ یہاں سے جاکر ترک تعلق کرکے درس حدیث کا شغل اختیار کیا او رصد ہا طلبہ کو محدث بنادیا اور حافظ عبد الکریم نے میر ے سامنے بہت کچھ معذرت کی کہ مولا نا کو ہم لوگ اپنا مخدوم جانتے ہیں ۔ میں نے کہا سچ ہے ، مگر نوکردرحقیقت خادم ہی ہوتا ہے چاہے اس کا آقا اسے اپنا مخدوم بھی تصور فرمائے او رلفظ خادمی کا زبان پر نہ لائے۔
ژحضرت حاجی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ حضرت میں اللہ کا نام لیتا ہوں ، مگر نفع نہیں ہوتا حضرت نے فرمایا کہ یہ تھوڑا نفع ہے کہ نام لیتے ہو یہ تمہارا نام لینا یہی نفع ہے اور کیا چاہتے ہو۔
گفت آں اللہ تو لبیک ماست
دین نیاز و سوز دردت پیک ماست
ژحضرت مولانا فتح محمد صاحب ؒ حضرت حاجی صاحب ؒ کی حکایت بیان فرماتے تھے کہ میں حضرت کے پاس بیٹھا ہو ا تھا، بہت دیر تک بیٹھا باتیں کرتارہا ۔ آخرجب بہت دیر ہو ئی تو میں اٹھااور عر ض کیا کہ حضرت آ ج میں نے آپ کی عبادت میں بہت حر ج کیا حضرت فرمانے لگے کہ مولانا آپ نے یہ کیا فرمایا کہ نماز روزہ ہی عبادت ہے اور دوستوں کا جی خوش کرنا عبادت نہیں۔
ژ حضرت حاجی صاحب کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص آپ کو یوں کہتا تھا ۔ حضرت نے فرمایا کہ اس نے تو پس پشت ہی کہا ، لیکن تم اس سے زیادہ بے حیا ہو کہ میرے منہ پر کہتے ہو۔
حضرت کی کرامتیں:۔
ظ ہنگام قیام رباط اسمعیل سیٹھ اس کے لڑکے سے بعض باتیں خلاف طبع مبارک ہوئیں اس وجہ سے آپ نے وہا ں کا قیام تر ک کر کے رخ توجہ بحـضو رباری تعالی کیا ، اسی بارے مں بلاکسی تحر یک کے ایک حکم نامہ بتاکید ریاست حیدرآباد سے وہاں کے وکلا کے نام پہنچا کہ منجملہ دومکانات ریاست کے جومکان وجگہ آپ پسند فرمائیں ، اس کی کنجی خدام حضرت کے سپر د کردی جائے۔ چنانچہ وکلا ریاست نے بڑی التجا سے یہ کیفیت حضور ی میں عرض کی او رایک مکان کی کنجی حوالہ ملازمان عالی کردی۔
ظ اسی زمانہ میں ایک مہندس نے آپ کے قریب ایک مکان تعمیر کیا اور اس میں ایک راستہ رکھا جس سے حضرت کے دولت خانہ کی بے پر دگی ہو تی تھی ۔وہ انواع واقسام کے ظلم وجبر خدمت شریف میں کرتا تھا اور آپ کی طر ف سے اپنے دل میں عناد رکھتا تھا۔ حضرت نے ایک شخص کے ذریعہ سے کلمۃ الخیر تبلیغ فرمایا ، لیکن اس نے کچھ خیال نہ کیا بلکہ کلمات بیہودہ زبان پرلایا ۔ لوگوںنے یہ واقعہ حضرت سے عرض کیا او راکثر احباب کی رائے ہوئی کہ حاکم وقت کے یہا ں استغاثہ کیا جائے بجواب اس کے حضرت نے ارشاد فرمایاکہ میر ا استغاثہ حاکم حقیقی کے یہاں ہے۔ حکام مجازی کے آگے درخواست کرنا درست نہیں ہے۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ تیغ برہنہ اہل چشت نے اس پر گزر کیا او رباوجو د اعزاز بلیغ واعتبار عظیم بلاوجہ ظاہری اپنے منصب وعہد ے سے علحدہ کردیا گیا اورایسی ذلت وخواری میں مبتلا ہو ا کہ اللہ کسی کو نہ دکھاوے ۔ میاں امیر احمد رام پوری کا واقعہ میرے سامنے کا ہے ، امیر احمد باربار حضرت سے دریافت کرتے تھے کہ یاحضرت میں ہندوستان جاؤں اور حضرت فرماتے تھے کہ ہاں جاؤ ، مگر امیر احمد کو اپنے اوپر مقدمات کا قوی خطرہ تھا۔اس واسطے شبہ ہو تا تھاکہ ضرور گرفتار اور سزایاب ہو ںگا،اس واسطے باجود حضرت کے ان کو اطمینان نہیں ہو تاتھا او رباربار دریافت کرتے تھے۔ ایک روز حضرت نے خود ارشاد فرمایا کہ تمہارا جی گرفتارہو نے کو چاہتاہے میا ں جاؤ تب میں نے ان سے کہا کہ اب تو شک وشبہ چھوڑو اور حضرت نے خود ارشاد فرمایا ہے خدا کا نام لے کر چلو اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا ۔ چنانچہ وہ میر ے ساتھ ہندوستان آئے او رچند روز دہلی ایک مسجد میں رہ کر حاضر عدالت ہو گئے چنانچہ گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے اور بالآخر تمام مقدمات سے بری ہو کر اپنے گھر بخیر یت تمام پہنچ گئے۔
ظ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب کے یہا ں مہمان بہت سے آگئے ، کھانا کم تھا ، حضرت نے اپنا رومال بھیج دیا کہ اس کو ڈھانک دو کھانے میں ایسی برکت ہوئی کہ سب نے کھا لیا او رکھانا بچ گیا ۔ حضرت حافظ ضامن صاحب کو خبر ہو ئی تو عرض کیا کہ حضرت آپ کا رومال سلامت چاہئے اب تو قحط کیوں پڑے گا ،۔ حضرت شرمندہ ہو گئے اور فرمایا کہ واقعی خطاہوگئی توبہ کرتاہوں پھر ایسا نہ ہو گا۔
صورت وسیرت:۔
سرمقدس کلاں وبزرگ ہے اور پیشانی کشادہ وبلند ہے اور انوار حقانی پیشانی مبارک سے واضح ولائح ہیں ۔ ابرو و سیع و خمدار چشمان مبارک کلاں ہیں اورہمیشہ خمار ذوقیہ ربانیہ میں سرشار رہتی ہیں ۔ رنگ شریف گندم گوں ہے ، نحیف الجسم معتدل القامت گونہ مائل بطوالت ، لیکن نہ اتنا کہ طویل کہنے کے قابل بلکہ جیسا کہ قامت شریف آنحضرت ﷺ کے بارے میں آیا ہے خفیف العارضین، طویل اصابع الیدین گویا حجازی ہیں فصیح البیان، عذب الکلام ،کثیر المروت، عظیم الاخلاق جس کسی سے بات کرتے ہیں بکمال بشاشت وخوشی وتبسم فرماتے ہیں اورافضل ترین اخلاق حضرت ایشاںتخلق بہ اخلاق قرآن ہے کماورد عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی وصف خلقہ ﷺ جمیع اخلاق حسنہ کہ قرآن شریف میںان کی مدح ہے ذات مبار ک میں جمع ہیں اور جتنے اخلاق رذیلہ کہ قرآن شریف میں ان کی برائی ہے بالطبع ان سے متنفر ۔ اتباع سنت سنیہ واجتناب بدعات قبیحہ عادات جبلیہ سے ہے او راستقامت بہ شریعت غرا و طریقت بیضا اخلاق لازمہء رضیہ سے ہے کہ الا ستقامۃ فوق الکرامۃ والکرامۃ یتحصل بعد الاستقامۃ خمیرشریف آپ کا ہے ، ذات پاک صاحب اشارات علمیہ وحقائق قدسیہ جامع انوار محمدیہ ومنازل عر شیہ ہے دال علی اللہ سبحان وعلی سبیل الجنان وداعی الی العلم و العرفان ہے اور حامل لو اء عرفان وضیا ء قلوب ناقصاں ومبین اسرار وکاشف ومظہر عوارف معارف مربی علم وحال صاحب ہمت و مقال ہے۔ طریقہ شریفہ آپ کا متضمن جذب ومجاہدہ وعنایت ہے ۔ سکرآپ کا ادب کو پہنچانتا ہے اور صحومقامات حجاب سے ترقی کو پہنچاتاہے ۔حقائق توحید سامی باشریعت دمساز ہیں واسرارمجاہدات گرامی معرفت سے ہمراز۔ اولیاء عصر آپ کی ولایت پر اجماع رکھتے ہیں اور علماء زماں آپ کے علومنز ل کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ نے علوم اسماء وصفات سے مخصوص فرمایا ہے اورمعارف خاص وخصوصیات علوم اعلی سے مقامات مرحمت فرمائے ہیںاور مقام اکبرو مدد اکثر وعطاے انفع ونوال اوسع پر ممتاز فرمایاہے۔ (شمائم امدادیہ ص۳۵)
(اقتباس از:’’انواراصفیاء ‘‘ ادارہ تصنیف وتالیف، شیخ غلام علی اینڈ سنس، لاہور، پاکستان ، ۱۹۸۵ء)
0 Comments: