Showing posts with label Family. Show all posts
Showing posts with label Family. Show all posts
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی  کے آباء و اجداد کی ہندوستان میں آمد

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے آباء و اجداد کی ہندوستان میں آمد

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کے آباء و اجداد کی ہندوستان میں آمد

بقلم: حضرت علامہ مفتی محمد رکن الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے جد اعلیٰ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی کابل کے بڑے امراء میں سے تھے۔ ہندوستان آکر آباد ہوئے۔ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ اور حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ ان ہی کی اولاد میں ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کا فرمان 
مولانا کی چھٹی پشت میں قاضی تاج الدین اس پایہ کے عالم گذرے ہیں کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر خلد مکاں نے ذریعہ فرمان مصدرہ ۱۴؍محرم ۴۸ ھ ؁ جلوس قندھار (دکن) کے عہدہ قضاء پر ممتاز فرمایا۔ قاضی صاحب موصوف نے اسی تعلق سے قندھار کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ 
حضرت قاضی محمد برہان الدین فاروقیؒ
آپ کے بعد آپ کے پوتے مولوی قاضی محمد برہان الدین ذریعہ فرمان نواب میر نظام علیخاں غفران مآب مزینہ ۲۷؍شعبان ۱۱۸۶؁ھ قندھار کے عہدہ قضاء پر مامور ہوئے۔ 
حضرت قاضی محمد سراج الدین فاروقیؒ
بعد ازاں مولوی قاضی برہان الدین کے پوتے مولوی قاضی محمد سراج الدین بموجب سند نواب صاحب ممدوح محررہ ۱۵؍محرم ۱۲۰۹؁ھ اس عہدہ پر سرفراز کئے گئے۔ پچھلے زمانہ میں قاضی زمانہ حال کے ناظم عدالت کا ہم پایہ تھا اور تمام مقدمات وہی فیصل کرتا۔ اس لیے عہدہ قضاء پر ایسے ہی لوگ معمور کئے جاتے تھے جو علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں مشہور انام ہوتے تھے۔ اب توقاضی صرف قاری النکاح یا سیاہہ نویس سمجھا جاتا ہے۔
حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقیؒ
حضرت شیخ الاسلام امام محمدانوار اللہ فاروقیؒکے والد ماجد قاضی ابو محمد شجاع الدینؒ صاحب بڑے پایہ کے عالم گذرے ہیں۔ ۱۲۲۵؁ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن قندھار کے مشہور عالم غلام جیلانی صاحب سے پائی۔ اس کے بعد حیدرآباد تشریف لائے قرآن حفظ کیا، تجوید سے فارغ ہوکر مولوی کرامت علی صاحب (شاگرد مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ) سے دینیات کی تکمیل کی علوم ظاہری کے علاوہ آپ علوم باطن سے بھی فیضیاب تھے۔ ابتداء سلسلہ قادریہ و نقشبندیہ میں اپنے نانا مولانا شاہ محمد رفیع الدین قندھاریؒ (خلیفہ شاہ رحمت اللہ نائب رسول اللہ) جو بارھویں صدی ہجری میں بڑی جلالت و شان کے عالم گذرے ہیں اور اپنی متعدد تصانیف کے باعث گروہ صوفیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بیعت کی اور خلافت سے سرفراز فرمائے گئے اور پھر حضرت حافظ محمد علی  صاحب خیرآبادی نزیل حیدرآباد سے طریقہ چشتیہ میں بیعت کی ۔ حضرت حافظ صاحب کی آپ پر خاص نظر تھی۔ اس لیے حلقہ درس میں آپ ہی مثنوی شریف سنایا کرتے تھے۔ حضرت شاہ سعداللہ صاحب خلیفہ مولانا شاہ غلام علی صاحب دہلویؒ آپ کے پیر صحبت تھے۔ غرض جب آپ نے علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کرکے شہرت پائی تو نواب سراج الملک بہادر مداء المہام وقت نے آپ کی بڑی قدر و منزلت کی اور ۱۲۶۳؁ھ میں مضفی دھارور پر تقرر فرمایا۔ آپ نے ۱۴ سال تک دھارور، راجورہ اور بیڑ (ریاست مہاراشٹرا)پر مفوضہ خدمت نہایت قابلیت اور نیک نامی سے انجام دی۔ ۱۲۷۷؁ھ میں نواب سر سالارجنگ اول نے آپ کو نرمل کو صدر منصف کے عہدہ جلیلہ پر ممتاز فرمایا جو اس زمانہ میں ایک اعلیٰ عہدہ سمجھا جاتا ہے۔ ۱۲۸۱؁ھ میں جب آپ کا تبادلہ اورنگ آباد پر ہوا تو آپ نے بوجہ کبرسنی و خرابی صحت خدمت سے سبکدوشی چاہی اس طرح آپ ۱۲۸۱؁ھ میں وظیفہ حسن خدمت حاصل کرکے حیدرآباد تشریف لائے اور ۱۲۸۸؁ھ میں بعارضہ ضیق النفس رحلت فرمائی۔ آپ مولانا شاہ شجاع الدین صاحب برہان پوری کے مقبرہ میں مدفون ہیں۔ عبداللہ حسین صاحب افسر نے تاریخ وفات کہی ہے
گفت تاریخ رحلتش افسرؔ
رحمت رب بہ روح اطہر باد
۸ ۸ ۲ ۱ ھ
آپ (مولانا قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقیؒ) کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان قندھاریؒ کے سجادہ نشین صاحب کی صاحبزادی۔ دوسری محمد سعداللہ صاحب قاضی کلمنوری کی صاحبزادی جن کے بطن سے دو صاحبزادے تھے ایک مولانا انوار اللہ فاروقی خاں بہادر  اور دوسرے قاضی محمد امیر اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ 
(اخذ و استفادہ مطلع الانوار ص ۱۰ تا ۱۲؍ علامہ مفتی محمد رکن الدین صاحبؒ ،مطبوعہ۱۴۰۵ھ)
امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ کے اکابرین نے پچھلی صدیوں میں اعلیٰ مذہبی و دینی خدمات کے تسلسل کو اپنے خاندانی روایات کے امتیاز کے ساتھ باقی و قائم رکھا۔ مورخین نے ان تمام شخصیات کی خدمات و خطابات کی تواریخ میں اس طرح درج کیا ہے۔ جس سے ان کے اعلیٰ علمی مراتب کا پتہ چلتا ہے۔
قاضی الملک حضرت الشیخ قاضی محمد عبدالملک فاروقی اولیٰ ؒ’’شمس الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد سلیمان فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ’’برہان الاسلام‘‘
حضرت قاضی عبدالملک فاروقی ثانی رحمۃ اللہ علیہ ’’حسام الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد عبدالصمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ’’مدارالاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد مسیح الدین فاروقی اولیٰ رحمۃ اللہ علیہ ’’عماد الاسلام‘‘
برہان الشریعہ حضرت قاضی محمد بدیع الدین فاروقی اولؒ ’’فخر الاسلام‘‘
حضرت قاضی محمد مسیح الدین فاروقی ثانی رحمہ اللہ ’’تاج الشریعہ‘‘
حضرت قاضی محمد بدیع الدین فاروقی ثانی رحمہ اللہ ’’فخر الاسلام‘‘
حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقی رحمہ اللہ ’’میرِعدل‘‘
حضرت ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ ’’شیخ الاسلام‘‘
(از: شجرہ نسبی قدیم مخزونہ جناب محمد صفی الدین فاروقی (پ 1940ء) ابن حضرت قاضی محمد نور الدین فاروقیؒ، ساکن اکبر باغ، حیدرآباد، اے پی) 

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی  کا خاندانی پس منظر

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کا خاندانی پس منظر

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کا خاندانی پس منظر

از: مولانا قاضی عبدالحق محمد رفیع الدین فاروقی، قاضی قندھار شریف(نبیرہ حضرت شیخ الاسلام)

٭٭سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، محتاج تعارف نہیں خلیفہ دوم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، کے بعد امت مرحومہ کے افضل ترین فرد ہیں آپ کی شان میں متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی وارد ہیں۔ عدل و انصاف و علم و فضل کے اعتبار سے غیر مسلم مورخین نے بھی آپ کی عظمت کو سلام کیاہے۔ 
ز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابی تھے۔ زہد و تقویٰ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ 
ز خواجہ ناصر بن عبداللہ تابعین میں سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ ابراہیم بن ناصر بھی تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن ابراہیم تبع تابعین اور عظیم مجتہد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز ابوالفتح بن اسحاق بھی تبع تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاکبر جید عالم دین اور واعظ و محدث تھے آپ ابوالفتح کے بڑے فرزند تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاصغر بن عبداللہ واعظ الاکبر ظاہری و باطنی علوم کے مخزن تھے۔ (رضی اللہ عنہ) 
ز خواجہ مسعود بن عبداللہ وقت کی نامور شخصیت ہوئے ہیں خلفائے آل عباس نے بڑی منت سماجت سے آپ کو مکہ سے بلاکر بغداد رکھا وہ آپ کے از حد معتقد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
زسلیمان بن مسعود علم و عمل کا حسین پیکر تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز محمود بن سلیمان علم و فضل کے علاوہ عسکری امور میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے خلیفہ وقت نے آپ کو ترکستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا آپ کامیاب ہوئے پھر آپ نے غزنی کا قلعہ فتح کیا خلیفہ نے آپ کو غزنی کا حکمران بنا دیا۔ (رضی اللہ عنہ)
زنصیر الدین بن محمود، باپ کے بعد حکمران ہوئے کابل فتح کیا اور اسے اپنا پایہ تخت قرار دیا آپ کی وجہ سے ہی حضرت مجدد کابلی بھی کہلواتے ہیں۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شہاب الدین معروف بہ فرخ شاہ کابلی، والد بزرگوار کے بعد حکمران ہوئے آپ نے ہندوستان، ایران، توران بدخشاں اور خراسان پر کامیاب حملے کئے آپ اوصاف حمیدہ کے مالک اور عدل گستر فرما روا تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن فرخ شاہ کامیاب حکمران ہوئے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز احمد بن یوسف نہایت متقی اور صاحب حال بادشاہ تھے باطنی استفادہ شیخ شہاب الدین سہروردی سے کیا۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شعیب بن احمد باپ کے بعد خانقاہ میں ان کے خلیفہ مقرر ہوئے نہایت صاحب کشف و کرامت تھے۔ (رضی اللہ عنہ) 
ز عبداللہ بن شعیب نے شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ عنہ سے استفادہ کیا ان کے خلیفہ بھی تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن عبداللہ صاحب حال بزرگ تھے اپنے والد کے مرید تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن اسحاق علوم ظاہر و باطن کے جامع تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز سلیمان بن یوسف نہایت متقی اور پارسا شخصیت کے مالک تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز نصیر الدین بن سلیمان نے مشائخ چشتیہ سے فیض لیا کامل بزرگ تھے۔ (رضی اللہ عنہ) 
حضرت فرید الدین گنج شکرفاروقیؒ
حضرت فرید الدین گنج شکرؒ: مسعود بن سلیمان کا شمار برصغیر پاکستان و ہند کے مشہور و معروف جن کا شمار صوفیہ اسلام کے سلسلہ چشتیہ مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ پاکستان و ہند کے لاکھوں مسلمان ہر دور میں ان کی عقیدت مندی پر آئے ہیں۔ 
ارباب سیر میں سے اکثر نے لکھا ہے کہ شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے ۹۵ برس کی عمر پائی۔ (اقتباس الانوار، ص ۱۷۵، کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱) عمر کے بارے میں اس روایت کو صحیح سمجھا جائے تو ان کا سن ولادت ۵۷۵ھ؍۱۱۷۴۔ ۱۱۷۵ء نکلتا ہے۔ اس تاریخ کی تصدیق ایک دوسری روایت سے ہوجاتی ہے کہ شیخ مسعود نے پندرہ سال کی عمر میں خواجہ بختیارؒ اوشی کے ہاتھ بیعت کی اور بیعت کے بعد اسی سال زندہ رہے۔ (کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱، محمد اکرم براسوی: اقتباس الانوار، ص ۱۷۵)
شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے والد کمال الدین یا جمال الدین سلیمان اور دادا شعیب ملتان کے قریب ایک مقام کھوتی وال (سیر اولیاء: کھتوال، تاریخ فرشتہ: کھوتوال، مرقع ملتان، ص ۵۱۰، آج کل تلفظ کوٹھی وال )کے قاضی تھے جو سلطان شہاب الدین غوری معز الدین سام کی مہمات سندھ و ملتان (۵۶۷ھ؍۱۱۷۵ء کے بعد) کے دوران میں کابل سے قصور میں آئے تھے (تاریخ فرشتہ، طبع برگس، بمبئی، ۲:۷۲۵، طبع نولکشور لکھنو، ۲: ۳۸۳، میرزا آفتاب بیگ: تحفہ الابرار، ص ۳۴)، اور قصور کے قاضی نے شیخ مسعود کے دادا شعیب کو کھوتی وال (بستی کا یہ نام غالباً جاٹوں کے ایک قبیلہ ’’کھوتی‘‘ سے منسوب ہے، دیکھئے A Glossary Of : A.H.Rose the Tribes and Castes of the Panjab etc، ۳: ۴۲۴، بذیل مادۂ سندھو، ۴۲۷ بذیل مادۂ سوھی) کا قاضی مامور کروا دیا۔ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے جد اعلیٰ یعنی قاضی شعیب کے والد نے جو وہیں کابل میں قیام پذیر تھے۔ چنگیز خان مغول کے ہاتھوں شہادت کا رتبہ حاصل کیا تھا (کابل پر چنگیز خاں کی یلغار، ۶۲۶ھ؍۱۲۲۰ء)۔ یہ خاندان فرخ شاہ کابلی (ایک بزرگ جنہیں سیرت نگار کابل کا بادشاہ بیان کرتے ہیں) کی اولاد سے تھے۔
فرید الدین گنج شکرؒ قصبہ کھوتی وال میں پیدا ہوئے، انہوں نے ملتان کی ایک مسجد میں مولانا منہاج الدین ترمذی سے تحصیل علم کی، یہیں انہوں نے عمر کے پندرہویں یا اٹھارویں سال میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ (رک باں) کے ہاتھ پر بیعت کرکے صوفیہ کے سلسلۂ چشتیہ میں شمولیت حاصل کی۔
مزید تحصیل علم کی غرض سے وہ کچھ عرصے تک قندھار میں مقیم رہے، وہاں سے بغداد، بلاد ایران اور بخارا کی سیاحت اختیار کی اور مشائخ وقت سے فیض پایا۔ ان میں سے حسب ذیل قابل ذکر ہیں:  شہاب الدین سہروردی (م ۶۳۲ھ؍۱۲۳۴ء) (رک باں)، سعد الدین حموی (م حسب بیان تاریخ گزیدہ، ۶۵۸ھ؍۱۲۶۰ء و حسب بیان جامی:نفحات الانس بحوالہ یافعی، ۶۵۰ھ؍۱۲۵۲ء)(رک باں)، اوحد الدین کرمانی (م ۶۳۵ھ؍۱۲۳۷ء)، فرید الدین عطار نیشاپوری (م ۶۲۷ھ؍۱۲۲۹ء) (رک باں)، شیخ سیف الدین باخرزی (م ۶۵۸ھ؍ ۱۲۵۹ء) (رک باں)، بہاء الدین زکریا ملتانی (م ۶۶۴ھ؍۱۲۶۶ء) (رک باں)۔
بالآخر وہ ملتان واپس آئے اور اپنے مرشد اور شیخ خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کاکیؒ (م۶۳۴ھ؍۱۳۳۶ء) کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے اور خرقۂ خلافت پاکر وہیں دروازہ غزنویہ کے نزدیک ایک برج میں مجاہدے میں منہمک ہوگئے۔ دہلی میں انہوں نے اپنے دادا پیر خواجہ معین الدین اجمیریؒ عرف خواجہ غریب نواز (م ۶۲۷ھ؍۱۲۳۰ء) (رک باں) کی خدمت میں حاضر ہوکر بھی روحانی فیوض حاصل کیے اور کچھ عرصہ بعد ان کے شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم پر چند سال ہانسی میں اقامت گزین رہے۔ شیخ کی وفات کی اطلاع پاکر وفات کے چوتھے روز دہلی پہنچ گئے اور شیخ کی وصیت کے مطابق قاضی حمید الدین ناگوری کے ہاتھ سے شیخ کا خرقہ، عصا اور نعلین حاصل کیں اور اس طرح اپنے پیر کے جانشین بنے۔ کچھ دن وہاں قیام کرنے کے بعد ہانسی میں ایک مجذوب سرہنگا نامی کے اصرار پر پھر واپس چلے گئے۔ آخر اژدہام خلائق سے تنگ آکر اپنے آبائی گھر کھوتی وال پہنچے۔
لاہور سے وہ اجودھن چلے گئے۔ اور وہاں خانقاہ کی بنا ڈال کر صوفیۂ اسلام کے طریق پر دین اسلام کی تبلیغ ، اشاعت اور مریدوں اور عقیدت مندوں کی اخلاقی روحانی تربیت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ 
شیخ فرید الدین مسعودؒ نے گنج شکر کے لقب سے شہرت پائی۔ اس بارے میں متعدد روایات کتب سیر میں مذکور ہیں جو شکر کے ساتھ ان کی رغبت اور اس سلسلے میں ان کی بعض کرامتوں کو بیان کرتی ہیں، (مثلاً تاریخ فرشتہ، بمبئی ۲: ۷۳۴، طبع لکھنو، ۲:۳۸۸)
شیخ فرید الدین گنج شکرؒکے اوقات تمام تر عبادت، مجاہدہ نفس و استغراق اور مریدوں کی روحانی تربیت میں گزرتے تھے۔ اس لیے جید عالم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے پیر خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اوشی کے ملفوظات و ارشادات کو مرتب کرنے کے علاوہ اور کوئی کتاب تالیف نہیں کی۔ خود ان کے ارشادات و اقوال کا مجموعہ ان کے خلیفہ اور جانشین خواجہ نظام الدین اولیاءؒنے مرتب کیا جو راحۃ القلوب کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد تبلیغ دین اور اصلاح اخلاق عوام کے لیے اپنے پیچھے چھوڑی۔ ان میں سے چند مشائخ کبار کی صف میں شمار ہوئے، مثلاً خواجہ نظام الدین اولیاء، شیخ علی احمد صابری، جمال الدین ہانسوی، وغیرہ (تفصیل کے لیے دیکھئے اقتباس الانوار، ص ۱۸۱)۔
 تلخیص اردو دائرہ معارف اسلامیہ( ) لاہور پاکستان۔
حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی 
حضرت شیخ احمد سرہندی ابن شیخ عبدالاحد فاروقی، کا نسب اٹھائیس واسطوں سے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ وہ سرہند کے بزرگوں میں سے تھے، بلکہ برصغیر ہند، پاکستان کے لیے باعث فخر تھے، عالم ربانی مجدد الف ثانی علوم ظاہر و باطن میں فاضل تھے اور انسانی شرافت کے لیے روشن دلیل تھے۔ ۹۷۱ھ؁ ۶۴۔۱۵۶۳ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں حفظ قرآن سے فراغت حاصل کرلی اور اس کے بعد علوم مروجہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اول اپنے والد ماجد سے بعض علوم حاصل کئے۔ پھر سیال کوٹ گئے اور مولانا کمال الدین کشمیری نزیل سیال کوٹ سے نہایت محققانہ انداز میں علم معقول کی کتابیں پڑھیں اور علم حدیث مولانا محمد یعقوب کشمیری سے حاصل کیا۔ پھر مولانا عبدالرحمن کی خدمت میں حدیث مسلسل بواسطہ واحد اور دیگر مفردات کی اجازت حاصل کی۔ مولانا عبدالرحمن ہندوستان کے نامور محدث تھے۔ (شیخ احمد سرہندی) سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرکے تدریس و تصنیف میں مشغول ہوگئے۔ سلسلہ چشتیہ میں اپنے والد ماجد سے خلافت پائی تھی اور سلسلۂ قادریہ وغیرہ کی اجازت شیخ سکندر کیتھلی سے ملی، حجاز جانے کے ارادہ سے دہلی پہونچے، وہاں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ امکنکی سے ملاقات ہوئی، ان سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت کی، دو ماہ اور کچھ دن میں سلسلۂ نقشبندیہ میں ان کو نسبت حضوری حاصل ہوگئی۔ چنانچہ اسی زمانہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ نے اپنے ایک مخلص سے فرمایا کہ ’’سرہند کے ایک شخص شیخ احمد نامی نے جو کثیر العلم اور قوی العمل ہے فقیر کے ساتھ کچھ دنوں نشست و برخاست رکھی ہے۔ اس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا آفتاب ہوگا کہ دنیا اس سے روشن ہوجائے گی‘‘ اور اسی زمانہ میں ان کی شہرت ہوگئی۔ ان کا آستانہ اہل کمال اور صاحب حال حضرات کا مرکز بن گیا۔ دور و نزدیک کے علماء اور ترک و تاجیک کے امراء حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر بہرہ ور ہوتے اور مشائخ سلسلہ ارادت میں منسلک ہوجاتے ان کا سلسلہ ہند۔پاکستان سے ماوراء النہر، روم، شام اور مغرب تک پہنچا۔ ان کی ذات بابرکات خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی، ہزار سال سے علماء اور صوفیاء کے درمیان جو نزاع تھا وہ انہوں نے ختم کردیا اور صلہ کا جو حدیث میں مژدہ ہے اس کا مصداق ہوئے اس لیے کہ علمائے ظاہر اور صوفیاء کے درمیان اتحاد کا باعث ہوئے اور دونوں فریق میں مسئلہ وحدت وجود کے متعلق جو اختلاف تھا اس کو صرف لفظی قرار دیا، صبر و رضا، تسلیم و شفقت اور ارباب حقوق کے ساتھ صلۂ رحمی و رعایت، سلام میں سبقت اور گفتگو میں مخلوق کے ساتھ نرمی ان کی عادت کریمہ تھی اور ان سب باتوں کے باوجود ہزار فضائل سے مقدم کتاب و سنت کی پابندی تھی۔
علمائے ظاہر ین نے سلطان جہانگیر ابن اکبر شاہ سے شکایت کی کہ شیخ احمد دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا مقام صدیق اکبرؓ کے مقام سے بلند ہے۔ سلطان نے شیخ کو بلایا اور حقیقت حال پوچھی۔ شیخ نے جواب دیا کہ آپ کسی خدمت کے لیے اپنے کسی ادنیٰ خادم کو طلب فرمائیں اور از راہِ مہربانی اس سے کوئی پوشیدہ بات کہیں تو ضروری ہے کہ وہ ادنیٰ خادم امرائے عالی قدر کے مقام کو طے کرکے آپ تک پہنچے گا اور پھر وہ خادم واپس لوٹ کر اپنے مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پس اس آمد و رفت سے یہ الزام نہیں آتا ہے کہ ادنیٰ خادم کا مرتبہ امرائے نامدار سے بلند ہوگیا، بادشاہ خاموش ہوگیا اور غصہ سے منہ پھیر لیا اسی وقت دربار شاہی کے حاضرین میں سے ایک شخص نے بادشاہ سے عرض کیا کہ شیخ کے گھمنڈ کو دیکھئے کہ آپ کو سجدہ نہیں کیا، حالانکہ آپ ظل اللہ اور اس کے خلیفہ ہیں بادشاہ کو جلال آگیا شیخ احمد سرہندی کو قلعہ گوالیار میں محبوس کردیا۔ جہانگیر کے بیٹے شاہجہاں نے جو شیخ سے خلوص رکھتا تھا ان  کے دربار میں آنے سے پہلے افضل خاں اور خواجہ عبدالرحمن مفتی کو فقہ کی بعض کتابیں لے کر شیخ کے پاس بھیجا تھا اور پیغام دیا تھا کہ علماء نے بادشاہوں کے لیے سجدہ، تحیت جائز رکھا ہے ان (شیخ سرہندی) کو چاہیے کہ وہ ملاقات کے وقت بادشاہ کو سجدہ کریں میں ضامن ہوں کہ بادشاہ سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ شیخ نے اس کے جواب میں کہا کہ سجدہ کی اجازت بصورت مجبوری ہے اور عزیمت یہ ہے کہ سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کسی کو سجدہ نہ کیا جائے۔ القصہ شیخ تین سال تک قید رہے اس کے بعد جہانگیر نے ان کو اس شرط کے ساتھ قید سے رہا کیا کہ وہ لشکر سلطانی کے ساتھ رہ کر گشت کریں۔ چنانچہ شیخ کچھ دنوں لشکر سلطانی کے ساتھ رہے اس کے بعد بادشاہ سے وطن کی اجازت لے کر سرہند میں رونق افروز ہوئے۔ ۲۸ صفر بروز سہ شنبہ ۱۰۳۴؁ھ ۱۶۲۴ء میں وصال ہوا اور سرہند میں دفن ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات ’’رفیع المراتب‘‘ سے نکلتی ہے۔ نوراللہ مضجعہ۔
آپ کی تصنیفات حسب ذیل ہیں
رسالہ تہلیلیہ، رسالۂ اثبات نبوت، رسالہ مبداء و معاد، رسالہ مکاشفاتِ غیبہ، رسالہ آداب المریدین، رسالہ معارف لدنیہ، رسالہ رد الشیعہ، تعلیقات العوارف، شرح رباعیات، خواجہ باقی باللہ، مکتوبات (امام ربانی) سہ جلد۔
ؒمجدد الف ثانی ؒ
حدیث شریف ’’ان اللہ یبعت لہٰذہ الامۃ علی راس کل مائۃ من یجددلھا امردینھا‘‘اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہر صدی کے شروع میں ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔ سنن ابن داؤد وغیرہ۔ کتب معتبرہ میں مروی ہے اور اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’راس ماتہ‘‘ سے مراد آخر صدی ہے اور مجدد کی علامات و شرائط یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہر و باطن کا عالم ہووے اور اس کے درس و تالیف و وعظ سے مخلوق کو فائدہ ہو اور سنت کے احیاء اور بدعت کے رد میں سرگرم رہے اور ایک صدی کے آخر میں اور دوسری صدی کے شروع میں علوم کا اشتہار اور فوائد دینیہ کی اشاعت ہووے پس مولانا شیخ احمد کے فضائل و اوصاف بلند آواز سے پکارتے ہیں کہ مجدد ہیں اور ایک صدی کے مجدد نہیں بلکہ ہزار سال کے۔ سو اور ہزار میں فرق ظاہر ہے۔ سرہند، دہلی اور لاہور کے درمیان شارع عام پر ایک شہر ہے جس کا ذکر حسان الہند (غلام علی آزاد بلگرامی) نے سبحۃ المرجان میں کیا ہے۔  
( تذکرہ علمائے ہند ص ۸۸ تا ۹۰؍ مولوی رحمن علی، پاکستان ہٹساریکل سوسائٹی کراچی ۱۹۶۱ء )
محمد حبیب الدین صغیرؔ
محمد حبیب الدین صغیرؔ بائیس رجب ۱۳۰۰ھ؁ میں پیدا ہوئے۔ ان کے تخلص صغیرؔ کے اعداد میں سن ولادت بھی موجود ہے۔ صغیر کے جد اعلیٰ محمد تاج الدین قاضی و خطیب قندھار کو سلطنت دہلی سے ’’قاضی القضاۃ لشکر فیروزی‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ ان کا سلسلہ نسب اور خاندانی حالات ’’تاریخ قندھار دکن‘‘ (مولفہ منشی محمد امیر حمزہ محتسب قندھار) اور ’’انوارالقندھار‘‘ (مولفہ شاہ رفیع الدین) میں تفصیل سے درج ہیں۔ 
قندھار شریف کے مشہور و معروف صاحب فیض بزرگ مولانا شاہ رفیع الدین (جو خاندان نواب محمد فخر الدین شمس الامراء اور مولانا حافظ شاہ شجاع الدین کے مرشد تھے)صغیر کے ہم جد ہوتے ہیں۔ 

چنانچہ ان کا سلسلہ خاندان مولانا شاہ رفیع الدین اور مولوی حافظ انوار اللہ خاں فضیلت جنگ سے اس طرح ملتا ہے: 
٭٭٭

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی  کے پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کے پیر طریقت
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی 

ولادت باسعادت حضرت والا بتاریخ ۲۲ ماہ صفرالمظفر بروزدوشنبہ ۱۲۳۳ھ مقد سہ بمقام نانوتہ ضلع سہارنپور ہوئی۔ قصبہ مذکور وطن اجداد مادری حضرت کا ہے ۔ اسم مبارک والد ماجدنے امداد حسین اورتاریخی نام ظفراحمد رکھا اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق محد ث دہلوی نواسئہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محد ث دہلوی قدس سرہما نے بہ لقب ’’امداد اللہ‘‘ ملقب فرمایا۔ آپ کے والدماجد کا اسم گرامی حضرت حافظ محمد امین تھا۔اور حضرت صاحب کے دو برادر کلاں ایک براد ر وہمشیرہ خور د بھی تھیں۔ بڑے بھا ئی ذوالفقار علی ومنجھلے فداحسین نام تھے، اور تیسرے خود حضرت اور چھوٹے بھائی بہادر علی وہمشیرہ بی بی وزیرالنساء نام تھیں۔ ابھی زمانہ سن حضرت کا صرف سات سال کا تھا کہ حضور کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی حسینی بنت حضر شیخ علی محمدصدیقی نانوتوی نے انتقال فرمایا۔ وقت وفات انھوںنے حضرت کے لیے ان الفاظ میں وصیت فرمائی کہ بعد میری وفات کے میر ے اس تیسرے بچہ کو کسی وقت او رکسی وجہ سے کبھی کوئی شخص ہاتھ نہ لگاوے اورزجر وحزب نہ کرے چنانچہ ان کی اس وصیت کی تعمیل میں یہا ں تک مبالغہ کیا گیا کہ کسی کو آپ کی تعلیم کی طرف کچھ توجہ والتفات نہ ہوا ،  چونکہ تائید ربانی ابتدائے خلقت سے مربی حضرت کی تھی، اس زمانہ صغر سنی میں بھی باوجود عدم توجہی ومطلق العنانی کبھی لہوو لعب نا مشروع میں مشغول نہ ہوتے تھے اور اپنے باطنی شوق سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع فرمایا۔ اپنے شوق سے اکثر حفاظ کو استا ذ بنایا۔ مگر تقدیرات سے کچھ ایسے موانع پیش آتے گئے کہ نوبت تکمیل حفظ کی نہ پہنچی یہاں تک کہ بتوفیق الہی ۱۲۵۸ھ چند دن میں مکہ معظمہ میں اس کی تکمیل ہو گئی اور سولہ سال کے سن میں وطن شریف سے بہمراہی حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی نوراللہ مرقدہ دہلی کے سفر کا اتفاق ہو ا اسی زمانہ میں چند مختصرات فارسی تحصیل فرمائے او رکچھ صرف نحو اساتذہ عصر کی خدمت میں حاصل کی او رمولانا رحمت علی صاحب تھانوی نوراللہ مر قدہ سے تکمیل الایمان شیخ عبدالحق دہلوی قدس سرہ کی قرأت اخذ فرمائی۔ 
ہنوزتکمیل علوم ظاہرہ میسرنہ ہوئی تھی کہ ولولہء خد ا طلبی جوش زن ہو ا اور نوعمر ی میں حضرت مولانا نصیرالدین حنفی نقشبندی مجددی کے ہاتھ پر طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کی اور اذکار طریقہ نقشبندیہ مجددیہ اخذ فرمائے او ر چند دن تک اپنے پیر ومرشد کی خدمت میں حاضـررہ کر اجازت وخر قہ سے مشرف ہو ئے ، بعد ازاں بہ الہام مشکوٰۃ شریف کا ایک ربع قراۃ حضرت مولانا محمد قلندر محد ث  جلال آبادی پر گزرا نا اور حصن حصین وفقہ اکبر حضرت مولانا عبدالرحیم مر حوم نانوتوی سے اخذ کیا او ریہ ہر دوبزرگوارارشد تلامذئہ عارف مستغرق حضرت مولانا مفتی الہی بخش صاحب کا ندہلوی کے تھے۔ 
 ایک دن آپ نے خواب بیان کیا: میں مجلس اعلی واقدس حضرت سرور عالم مر شد اتم صلی اللہ علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم میں حاضر ہوں ، غایت رعب سے قدم آگے نہیں بڑ ھتا ہے کہ ناگاہ میرے جدامجد حضرت حافظ بلاقی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ا ور میرا ہاتھ پکڑ کر حضور حضرت نبوی ﷺ میں پہنچا دیا او رآنحضرت  ﷺ نے میر ا ہاتھ لے کر حوالہ حضرت میانجیوصاحب چشتی قدس سرہ کے کردیا او راس وقت تک بعالم ظاہر میانجیوصاحب رحمتہ اللہ تعالی سے کسی طرح کا تعارف نہ تھا۔ بیان فرماتے ہیںکہ جب میں بیدار ہو اعجب انتشار و حیرت میں مبتلاہوا کہ یارب یہ کون بزرگ وار ہیں کہ آنحضرت  ﷺ نے میر ا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا او رخود مجھ کو ان کے سپر د فرمایا ۔اسی طرح کئی سال گزر گئے کہ ایک دن حضرت استاذی مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے میر ے اضطرار کو دیکھ کر بکمال شفقت وعنایت فرمایا کہ تم کیو ں پریشان ہوتے ہو ، موضع لوہاری یہاں سے قریب ہے ۔ وہاں جاؤ اور حضرت میانجیو رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ملاقات کرو، شاید مقصود دلی کو پہنچواور اس حیص وبیص سے نجات پاؤ۔ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت مولانا سے میں نے یہ سنا متفکر ہو ا او ردل سے سوچنے لگا کہ کیا کرو ں آخر بلالحاظ سواری وغیرہ میں نے فوراًراہ لوہاری کی لی اور شدت سفر سے حیران وپر یشان چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ پیروں میںآبلے پڑگئے ، بارے بہ کشش وکوشش آستانہ شریف پر حاضر ہو ااو رجیسے ہی دور سے جمال باکمال ملاحظہ کیا ،  صورت انور کو کہ خواب میںد یکھا تھا، بخوبی پہچانااور محو خودرفتگی ہو گیا اورآپ سے گزر گیا۔ افتاں وخیزاں ا ن کے حضور میں پہنچکر قدموں پر گر پڑا ۔ حضرت میانجیو صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے میرے سر کواٹھایا اور اپنے سینہ نور گنجینہ سے لگایا اور بکمال رحمت وعنایت فرمایاکہ تم کو اپنے خواب پر کامل وثوق ویقین ہے ۔ یہ پہلی کرامت منجملہ کرامات حضرت میانجیو صاحب ؒ کی ظاہرہوئی اور دل کو بکمال استحکام مائل بخود کیا،الحاصل ایک مدت خدمت بابرکت جناب موصوف میں حلقہ نشین رہے تکمیل سلوک سلاسل اربعہ عموماوطریق چشتیہ صابریہ خصوصاً کیا خرقہ وخلافت نامہ واجازت خاصہ وعامہ سے مشرف ہو ئے بعد عطاء خلافت حضرت میانجیوصاحب ؒ نے فرمایا کہ کیا چاہتے ہو تسخیریا کیمیا جس کی رغبت ہو وہ تم کوبخشوں ،  آپ یہ سن کر رونے لگے اور عرض کیا کہ دنیا کے واسطے آپ کا دامن نہیں پکڑا ہے خداکو چاہتا ہوں ، وہی مجھ کو بس ہے ۔ حضرت میانجیو صاحب قدس سر ہ یہ جواب سن کر بہت مسرور وخوش مزہ  ہوئے اور بغل گیر فرما کر علوہمت پر آفریں کی اور دعا ہائے جزیلہ وجمیلہ دیں اورخود حضرت میانجیوصاحب اناراللہ ضریحہ نے ۱۲۵۹ھ میں رحلت فرمائی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یادِ الہٰی:۔
بعد ازاں قلبِ مبارک میںجذبہ الہیہ پیدا ہوا اور آپ آباد ی سے ویرانہ کو چلے گئے مخلوق سے نفرت فرماتے تھے ، اور اکثر دولت فاقہ سے کہ سنت نبویہ  ﷺ ہے، مشرف ہو تے تھے ، یہاں تک کہ آٹھ آٹھ روز اور کبھی زیادہ گزرجاتے اور ذرا سی چیز حلق مبارک میں نہ جاتی اورحالت شدت بھوک میں اسرار و عجائب فاقہ مکشوف ہوتے تھے ۔ بیان فرماتے تھے کہ ایک دن بہت بھوک کی تکلیف میں ایک دوست سے کہ نہایت خلوص دلی رکھتا  تھا، چند روپے میں نے بطور قرض مانگے باوجود موجود ہونے کے انکار صاف کردیا ۔ اس کی اس ناالتفاتی سے تکدر وملال دل میں پید ا ہو ا ، چند منٹ کے بعد تجلی توحید افعالی نے  استعلا فرمایا اور معلوم ہو اکہ یہ فعل فاعل حقیقی سے متکون ہواہے ، اس وقت سے خلوص اس دولت کا زائد ہو ااور وہ تکدر مبدل بہ لطف ہو گیا۔ اس واقعہ کو چند ماہ گزرے تھے کہ میں مر اقبہ میں تھا سیدنا جبرئیل وسید نا میکائیل علیہماالسلام کو دیکھا محو خود رفتہ ہو گیا جو لذت کہ حاصل ہو ئی احاطہء بیان میں نے آسکتی او روہ دونو ں تبسم کناں دزدید ہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسی طر ح چلے گئے اور کچھ نہ کہا۔ 
سفر حجازمقدس:۔
سید کائنات اشرف مخلوقات ﷺ کو خواب میں دیکھا فرماتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آؤ ۔ یہ خواب دیکھ کر خواہش زیارت مدینہ طیبہ دل میں متمکن ہوئی ۔ یہاں تک کہ بلا فکر زاد راحلہ کے آپ نے عزم مدینہ منورہ کردیا اور چل کھڑے ہو ئے جب ایک گاؤں میں پہنچے آپ کے بھا ئیوں نے کچھ زادر اہ  روانہ کیا ۔ حضور نے اس کو بخوشی خاطر قبول کیا او رروانہ ہو ئے یہاں تک کہ پنجم ذی الحجہ ۱۲۶۱ھ کو بمقام بندرلیس کہ متصل بندر جدہ کے ہے ،  جہاز سے اُترے او ربراہ راست عرفات کو تشریف لے گئے او جملہ ارکان حج بجالائے اور مکہ معظمہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی قدسرہ وحضرت عارف باللہ سید قدرت اللہ حنفی بنارسی ثم المکی سے کہ کرامات وخرق عادات میں مشہورتھے فیض وفوائد حاصل کیے او ر حضرت مولانا محمد اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے چند وصایا فرمائے ۔
شاہ اسحاقؒ کے وصایا:۔
ازاں جملہ یہ کہ اپنے کو کمترین مخلوقات سمجھنا چاہیے او ریہ کہ تاامکان خود قوت حرام ومشتبہ سے پر ہیزواجب جانے ، کیوںکہ لقمہ مشتبہ وحرام سے برابر نقصان ہے اور مراقبہ {الم یعلم بان اللہ یریٰ}  تعلیم فرمایا تاکہ ملاحظہ معنی صورت رویت حق تعالی خود کو ملاحظ کرے اوراس پر مواظبت رکھے تاکہ وجدان صورت ملکہ کا ہو وے اور دوسری باتیں تعلیم فرمائیں اور اپنے خاندان کے معمولات کی اجازت دی اور فرمایا کہ فی الحال بعد زیارت مدینہ طیبہ تمہارا ہند کو جانا قرین مصلحت ہے ، پھر انشا ء اللہ تعالی تمام تعلقات منقطع کرکے او ربہ ہمت تمام یہا ں آؤ گے۔ البتہ چند ے صبرضروری ہے۔ اس وقت مدینہ منورہ کا راستہ مامون تھا اور کوئی شورش بدوؤ ں وغیرہ کی نہ تھی اور آپ کے دل کو سخت اضطراب وقلق مدینہ طیبہ کی حاضری کا تھا کہ علت غائی اس سفر کی یہی تھی ۔ خیال تھا کہ اگر وہاں جانا نہ ہو اتویہ تمام محنت مفت رائگا ں ہوئی، بالآخر آپ نے یہ انتشار بحضور جناب سید قدرت اللہ عرض کیا ۔ حضرت سید صاحب نے تسکین فرمائی او رچند بدوی مریدان خود کو آپ کے سپردکیا او ر حکم دیا ، کہ بحفاظت تمام ان کومدینہ طیبہ لے جاؤ اور ان کے قلب کو کوئی رنج نہ پہنچنے پاوے کیونکہ ان کے ملال سے تمہاری عاقبت کی خرابی متصور ہے ، مولانا فرماتے ہیں۔ 
ہیچ تومے را خدا رسوا نہ کرد
تا ازو صاحبدلے نامد بدرد
بالجملہ آپ مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے او ردل میں خیال آیا کہ اگر کوئی عامل کامل وعارف واصل بلا میر ی طلب کے اجازت پڑھنے درودتنجینا کی دیتا تو بہت اچھا ہوتا بارے بفضلہ تعالی اس جوار پاک شاہ لولاک میں پہنچے او ر شرف جواب صلوٰۃ وسلام حضرت خیرالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام  سے مشرف ہوئے اور عارف خدا حضرت شاہ غلام مرتضی جھنجھانوی ثم المدنی سے ملاقات فرمائی اوراپنے شوق دلی کا نسبت قیام مدینہ منورہ کے اظہار فرمایا حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی جاؤ چند ے صبر کرو پھر انشاء اللہ یہاں بہت جلد آؤ گے اور صاحب جذب واحسان حضرت مولانا شاہ گل محمد خانصاحب رحمتہ اللہ  علیہ سے کہ متوطن قدیم رام پور تھے او رعر صہ تیس سال سے مجاور روضہ شریف تھے، ملاقات کی او ران کی خدمت سے بہت فوائد حاصل کیے ، حضرت خانصاحب موصوف نے بلا ذکر وطلب اجازت درودتنجیناکی دی کہ ہر روز اگر ممکن ہو ایک ہزار بارورنہ تین سوساٹھ بار پڑھاکرو اور اگر اس قد ر میںبھی دقت ہو تو اکتالیس بار تو ضرور پڑھا کرو اور ہرگزناغہ نہ ہو نے پاوے کہ اس میںبہت سے فوائد ہیں۔ آپ گو ظاہری علم شریعت میں علامہ دوران او رمشہور زمان مولوی نہ تھے مگر علم لدنی کے جامہ سے آراستہ اور نور عرفان وایقان کے زیورات سے سرتاپا پیراستہ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کو مہبط انوار وبرکات او رفیوض وتجلیات بنائے ہوئے تھے ۔ خلقۃً ضعیف ونحیف خفیف اللحم اس پر مجاہدات وریاضات اورتقلیل طعام ومنام اور سب سے بڑھ کر عشق حسن ازلی جو استخواں تک کوگھلا دیتا ہے ،جس کے باعث آخر میں کروٹ تک بد لنا دشوارتھا۔ 
ہجرت غدر کے بعد:۔
ْٓایام غدر میں فساد و الزام بغاوت کے زمانہ میں مکہ معظمہ ہجرت فرما ہوئے ۔اور کل چوراسی سال تین مہینہ بیس روزگوشہ ہائے عالم دنیا کو منور فرماکر بارہ یا تیرہ جمادی الاخریٰ ۱۳۱۷ھ  بروزشنبہ بہ وقت اذان صبح اپنے محبوب حقیقی سے  واصل ہوئے او رجنت معلی (مقبر ہ مکہ معظمہ ) میں مولوی رحمت اللہ کی قبر کے متصل مدفون ہوئے ۔ طاب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ۔ 
استغنا اور قناعت :۔
اعلی حـضرت گھر سے خوشحال او رموروثی جائد اد کا معقول حصہ پائے ہوئے تھے جو بہ ظاھر الحال گزران معیشت کے لیے کا فی ووافی سامان تھا، مگر آپ کا قلب سلیم چونکہ بالطبع زہد و توکل کا شیداتھا۔ اس لیے آپ نے اپنی ساری جائداد سکنی وزرعی اپنے بھائی کے نام منتقل کردی اور مسجد کے حجرہ کو مسکن بنایاتھا۔ اعلی حضرت زاویہ خمول کی زیست او رگمنامی کے ساتھ ایام گزاری کی جانب بہت راغب تھے۔ اس لیے ہمیشہ اپنے کو چھپایا اورعلحدگی ویکسوئی کو اخفاء کتمان حال کا سبب بنایا مگر بقول ، {مشک انست کہ خود ببوید نہ کہ عطا ر بگوید !}
اپنے چھپائے کب چھپ سکتے تھے ۔ خدائی مخلوق نے جبہ سائی کو فخر سمجھا او رجیساکہ دین کا اپنے زمانہ ولادت سے حال رہاہے۔ غربا ومساکین اور عوام الناس طالب دین نیک بندوں کی آمد شروع ہوئی ، مجبوراً امتثا لا للامر آپ طالبین کو بیعت فرماتے او راللہ کا نام سیکھنے کے لیے آنے والی خلقت کی دستگیری فرماتے تھے۔ آخر میں طالبین کا ہجوم دن بدن بڑھتا گیا ، آپ اسی توکل کے وسیع خوان پر مہانوں کی بخوشی ضیافت فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی بھاوج نے آپ کے پاس پیغام بھیجاکہ موروثی جائداد آپ منتقل فرما چکے خود تو کل پر بہ عسرت وفقر گزران ہے، پھر اس پر مہمانوںکی کثرت او رنووارد مسافروں کی زیادتی گوآپ کو بار نہ معلوم ہو مگر میر ی غیر ت تقاضا نہیں کرتی کہ اس خدمت سے چشم پوشی کروں ۔ اس لیے آج سے جتنے مہمان آئیں ان کی اطلاع غریب خانہ پر فرمادیں، ان کا کھانا دونوں وقت یہاں سے آئے گا۔ اوّل تو اعلیحضرت نے انکار فرمایا کہ نہیں میر ے مہمان ہیں ان کی خدمت کا مجھ ہی پر حق ہے مگر آخر بھابھی صاحبہ کے اصرار کے سبب جو محض اخلاص کے ساتھ تھا آپ نے قبول فرمالیا او راس روز سے مہمانوں کا کھانا دونوں وقت وہاں سے آنے لگا، اعلیحضرت کی بھاوج کا حسن اعتقاد اور مخلصانہ برتاؤ تھا، کہ مہمانوں کا کھانا خود پکاتی تھیں او ر کسی مہمان کے ناوقت آنے سے بھی کبھی تنگ دل نہ ہوتی تھیں۔ 
ہجرت مکہ معظمہ ونکاح:۔
ایام غدر ہندوستان میں بوجہ بے نظمی دین وتغلب معاندان دین قیام ہند گراں خاطر ہو ا اور ارادئہ ہجرت واشتیاق زیارت روضئہ حضرت رسالت پناہ  ﷺ جو ش وخروش میں آیا اور ۱۲۷۶ھ میں براہ پنجاب روانہ ہوئے او راثنا ے راہ میں پاک پٹن و حیدرآباد سندھ وغیرہ مواضع میں زیارات بزرگان مقامات مذکورسے مشرف اور فیوض وبرکات سے مالامال ہو تے ہوئے کراچی بندر پہنچے ، وہاں سے جہاز پر سوار ہو ئے اور انوار وبرکات ہجرت ابتدائے سفرسے مشاہد ہ فرمانے لگے ، اور بعد طے منازل خیرالبلاد مکہ معظمہ پہنچے اور انوار وبرکات اس مقام متبرک سے فیض یاب ہوئے اور اس مقام مقدس کو مسکن وماویٰ اپنا بنایا ۔ اوّلا چند سال تک جبل صفاء پر اسمعیل سیٹھ کے رباط کے ایک خلوۃ میں معتکف رہے اور مشغولی حضرت حق جل وعلا مہلت نہ دیتی تھی،کہ جو دوسرے سے مخاطب ہو ں ناچار مخلوق سے کم ملتے تھے، لیکن مشاہیر علماء وشیوخ کے ساتھ کبھی کبھی خلوت وجلوت میں اکٹھا ہو تے تھے اور کلمات رمزو اسرار ولطف واخلاق درمیان میں آتے تھے اور باہم رسم دوستی مستحکم رکھتے تھے او ریہ حضرات کمال تعظیم واحترام حضرت فرماتے تھے۔ 
آپ کے ارشادات پر از حکمت ہیں:۔
ایک شخص نے تصوف کے معنی پوچھے، فرمایا کہ تصوف کے معنی میں بسبب احوال مشائخ مختلف اقوال ہیں ہر کوئی اپنے مقام یا حال کے موافق مسائل کا جواب دیتاہے، یعنی مبتدی سائل کو ازروئے معاملات مذہب ظاہر اورمتوسط کو ازروئے احوال، منتہی کو ازروئے حقیقت البتہ تمام اقوال میں اظہر قول یہ ہے کہ اوّل ابتدائے تصوف علم ہے اوراوسط عمل وآخر عطاء وبخشش وجذبہ الہٰی ہے اور علم مراد مرید کی کشایش کرتا ہے او رعمل اس کی توفیق وطلب پر مدد کرتاہے اور بخشش مرتبہ غایت رجاکو کہ احاطہء بیان سے باہر ہے ، پہنچاتی ہے ، اور حق سبحانہٗ کے ساتھ واصل کرتی ہے اور اہل تصوف تین قسم کے ہیں یعنی تین مراتب رکھتے ہیں : اوّل مرید کہ اپنی مراد طلب کرتا ہے ، دوم متوسط کہ طلب گار آخرت ہے ، سوم منتہی کہ اصل مطلوب تک پہنچ گئے ہیں ، اور انتقالات احوال سے محفوظ ہیں۔ 
پھر ارشاد ہو اکہ طالب طریق تصوف کو چائیے کہ ادب ظاہر وباطنی کونگاہ میں رکھے۔ادب ظاہریہ ے کہ خلق کے ساتھ بحسن ادب وکمال تواضع واخلاق پیش آئے ، اور ادب باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات واحوال مقامات میں باحق سبحانہ رہے۔ حسن ادب ظاہر سرنامہ ء ادب باطن کا ہے اور حسن ادب ترجمان عقل ہے بلکہ {التصوف کلّہ ادب}دیکھوحق تعا لیٰ اہل ادب کی بزرگی کی مدح فرماتے {انّ الّذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقویٰ لہم مغفرۃ وَّاجر عظیم } جو کوئی کہ ادب سے محروم ہے وہ تما م خیرات ومبرات سے محروم ہے اور جو کہ محروم ازادب ہے وہ قرب حق سے بھی محروم ہے۔ 
ازادب پر نور گشت است ایں فلک 
وازادب معصوم و پاک آمد ملک
ژایک شخص نے حاضرین سے عر ض کیا صوفی کون ہے اور ملامتی کو ن ؟ فرمایا صوفی وہ ہے کہ سواے اللہ کے دنیا وخلق سے مشغول نہ ہو اور رد و قبول مخلوق کی پر وانہ رکھے ، مدح وذم اس کے نزدیک برابر ہو اور ملامتی وہ ہیکہ نیکی کو چھپائے اور بدی کو ظاہر کرے -
ژ ایک آدمی نے فقیر کے معنی دریافت کئے فرمایا فقر دو طرح پر ہے ، اختیاری و اضطراری ، فقر اختیاری جو واسطے رضائے حق کے ہو، دولت مندی سے بدر جہاافضل ہے کہ حدیث الفقرفخری میں اسی فقر کی طرف اشارہ ہے اور فقر اضطراری عوام کو ہلاکت کفر تک پہنچا تا ہے کہ  حدیث کاد الفقران یکون کفراً، سے یہی مراد ہے ، اور معنی فقر کے محتاجی ہیں اور فقیر حقیقی وہ ہے ، کہ اپنے نفس سے بھی محتاج ہو یعنی مالک اپنے نفس کا بھی نہ رہے کیوں کہ جس قدر فقیر کا ہاتھ ہر چیز سے خالی ہو گا ، اسی قدر اس کا دل ماسوی اللہ سے خالی ہو گا فانی فی اللہ و باقی باللہ ہو جائے گا۔ 
ژایک دن بطور نصیحت کے بیان فرمایا کہ ہر گزہر گزگرد دنیا کے نہ جاؤ او ردل کو اسکا گرویدہ نہ بناؤ کیونکہ دنیا کی مثال آدمی کے سایہ کے ہے ، اگر کوئی سایہ کی طرف متوجہ ہو تو وہ اس کے آگے آگے بھا گتا نظر آئے اور اگر سایہ کو پس پشت کرے وہ خود پیچھا نہ چھوڑے ، یہی حال دنیا کا ہے کہ جوکوئی دنیا کو ترک کرتاہے ، دنیا اس کا پیچھا کرتی ہے ، اور جو کوئی طلب دنیا میں کوشش کرتا ہے اس سے کوسوں دوررہتی اور ترک کرنے والے کوتلاش کرتی ہے۔ 
ژ ایک دن ایک شخص نے سوال کیا کہ طالب راہ حق کو کیا کیا ضرور ہے، فرمایا اوّل طالب شے کو لازم ہے کہ حقیقت وماہیت شئے مطلوبہ کی دریافت کرے تاکہ رغبت اس کے حاصل کرنے کی دل میں پید ا ہو پس جوشخص کہ ارادہ کرے کہ صوفیوں کے طریق وراہ حق پر چلے ، اولاً ماہیت وحقیقت وغایت تصوف کہ راہ حق ہے  معلوم کرے بعد ازاں اس کے اعتقادات وآداب ظاہری وباطنی کو سمجھے ۔ خصوصاً اطلاقات کوکہ ان کے حال وقال وتصنیفات میں آتے ہیں ، جانے اور خاص خاص اصطلاحات کہ ان کے کلمات میں پائی جاتی ہیں ان سے واقف ہو تاکہ تابعداری ان کے افعال واقوال واحوال کی کرسکے ۔ 
ژ ایک دن ایک شخص نے مسئلہ وحدت وجود کا سوال کیا فرمایا کہ یہ مسئلہ حق وصحیح مطابق الواقع ہے ۔ اس مسئلہ میں کچھ شک وشبہ نہیں ۔ معتقد علیہ تمامی مشائخ کا ہے، مگر قال وقرار نہیں ہے۔ البتہ حال وتصدیق ہے یعنی اس مسئلہ میں تیقن اور تصدیق قلبی کافی ہے اور استتار اس کا لازم اور افشا ناجائز ہے کیوں کہ اسباب ثبوت اس مسئلہ کے کچھ نازک ہیں بلکہ بحد دقیق کہ فہم عوام بلکہ فہم علماء ظاہر میں کہ اصطلاح عرفاسے عاری ہیں،نہیں آتے تو الفاظ میں کہنا اور دوسرے کو سمجھانا کب ممکن ہے بلکہ جن صوفیوں کا سلوک ناتمام ہے اور مقام نفس سے ترقی کرکے مرتبہ قلب تک نہیں پہنچتے  ہیں، اس مسئلہ سے ضررشدید پاتے ہیں اورمکرِ نفس سے چاہ الحاد وقعر ضلالت میں پڑجاتے ہیں۔ نعوذ باللہ منہا، اس جگہ پر زبان کوروکنا واجب ہے۔ 
ژ فرمایا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ طریقت شریعت سے جدا ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اقرار باللسان اشارہ طرف شریعت کے ہے اور تصدیق بالجنان سے مطلب طریقت ہے۔ پس ایک بغیر دوسرے کے کام کا نہیں، اقراربدون تصدیق نفاق ہے۔ اور تصد یق بلااقراربے کار۔ فرمایا کہ ایک روز دوآدمی آپس میں بحث کرتے تھے ایک کہتاتھا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ حضرت غوث اعظم قدس سرہٗ سے افضل ہیں اوردوسرا حضرت غوث پاک کوشیخ پر فضیلت دیتاتھا۔ میں نے کہا کہ ہم کو نہ چاہئے کہ بزرگوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کریں اگر چہ اللہ فر ماتاہے فضلنا بعضھم علیٰ بعض جس سے معلو م ہواکہ واقع میں تو تفاضل ہے لیکن ہم دید ئہ بصارت نہیں رکھتے ، اس واسطے مناسب شان ہمارے نہیںکہ محض رائے سے ایسی جرأت کریں البتہ مرشد کو تمامی اس کے معاصرین پر فضیلت بہ اعتبار محبت کے دینا مضائقہ نہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ باپ کی محبت چچا سے زیادہ ہوتی ہے اوراس میں آدمی معذورہے ، اس نے یعنی قادری نے دلیل پیش کی کہ جس وقت حضرت غوث پاک نے قد می علی رقاب اولیاء اللہ فرمایا تو حضرت معین الدین ؒنے فرمایا بل عینی یہ ثبوت  افضیلت حضرت غوث اعظم کا ہے ، میں نے کہا کہ اس سے تو فضیلت حضرت معین الدین صاحب ؒ کی حضرت غوث اعظم پر ثابت ہوسکتی ہے نہ بر خلاف اس کے کیوں کہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث ؒ اس وقت مرتبہ الوہیت یعنی عروج میں تھے اور حضرت شیخ مرتبہ عبدیت یعنی نزول میں اور نزول کا افضل ہونا عروج سے مسلم ہے ۔ 
ژفرمایا کہ کلمہ لا الہ الااللہ کے بہ اعتبار مراتب مردمان کے تین معنی ہے لامعبود لا مطلوب لاموجود الا اللہ اور یہ سب مراتب اعلی۔
ژفرمایا سیر تین طرح پر ہے سیرالی اللہ وفی اللہ ومن اللہ۔ 
ژ فرمایا کہ ایمان رجااور خوف میں ہے ہم لوگ رجاپر بھروسہ اور غرور کررہے ہیں اور خوف کو بھول بیٹھے ہیں۔ 
فرمایا عاشق دوطرح پر ہے عاشق ذاتی وعاشق صفاتی اور مرتبہ عاشق ذاتی کا عاشق صفاتی سے زیادہ ہے کیونکہ عاشق ذاتی پر جو کچھ وارد ہو تا ہے اس کو ذات الہٰی سے جانتا ہے ۔ پس اس وجہ سے رضا وتسلیم میں مرتبہ عالی پاتا ہے ، اک دن حضرت غوث الاعظم ؒ سات اولیاء اللہ کے ہمراہ بیٹھے ہو ئے تھے ناگاہ نظر بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے آپ نے ہمت توجہ باطنی سے اس کو غرق ہو نے سے بچالیا وہ ساتو ں آدمی کہ عاشق ذات اور مرتبہ رضاوتسلیم میں ثابت قدم تھے۔ اس امر حضرت غوث کو خلاف خیال کرکے آپ سے نا خوش ہوئے اوراپنی مجلس سے علحدہ کردیا۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ سات ڈھانچے ہڈیوں کے مسلم رکھے ہیں دریافت ہوا کہ ایک درندے نے خداسے دعا مانگی کہ مجھ کواپنے دوستوں کا گوشت کھلا وہ ساتوں آدمی پیش کیے گئے اور اس درندے نے گوشت ان مردان خدا کا کھا نا شروع کیا جس وقت درندہ دانت مارتا تھا وہ لوگ ہر گز دم نہ مارتے تھے یہاں تک کہ تمام گو شت اپنا راہ مولی میں نثار کردیا اور صرف ہڈیا ں باقی رہ گئیں۔ 
ژفرمایا انماالاعمال بالنیات تصوف کی جڑ ہے۔ 
ژفرمایا ایک آدمی نے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی غیبت کی ، آپ نے ایک طبق دینار کا اس کو ہدیۃ ً دیا لوگو ں نے پوچھا کہ یہ کیسا الٹا معاملہ ہے امام صاحب نے فرمایا  ھل جزا ء الا حسان الا الاحسان اس شخص نے مجھ کونعمت اخروی دی تو کیا میں اس کو دنیا کی نعمت بھی نہ دوں ۔ 
ژفرمایاتواضع نفاق کے ساتھ ممنوع ہے ۔ 
ژفرمایا کہ مولد شریف تمامی اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرت رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتا ہے ، البتہ جو زیا دتیاں لو گوں نے اختراعی کی ہیں نہ چاہئیں، اورقیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔
ژفرمایا واسطے تقویت حافظہ کے یا علیم علمنی مالم اکن اعلم یا علیم اکتالیس بار بعد نماز عصر پڑھنا چاہیے اور سورئہ فاتحہ بعد نمازفجر گیارہ بارپڑ ھنا چائیے یا روٹی پرلکھ کر کھائیں۔ 
ژفرمایا :
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ژفرمایا کہ وظائف میں عدد طاق عمدہ ہیں نوہو ں یا گیارہ 
ژفرمایا اصل ذوق وشوق محبت ہے کشف وکرامات ثمرات زائدہ ہیں ، ہو ئے ہوئے نہ ہوئے، عارف اس کو ایک جو کے برابر نہیں سمجھتے بلکہ اکثر حجاب ہو تا ہے ۔ 
ژفرمایا صورت نیکوں کی اختیار کرنا چاہئیے ، سیرت اللہ تعالی  درست کردے گا کیونکہ وہ واہب فیاض ہے ۔ دریافت کیا گیا کہ ساحران موسیٰ علیہ السلام مشرف بہ ایمان ہوئے اور فرعونیاں کافر رہے اس کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا کہ ساحر وں نے صورت موسوی اختیار کی تھی اس کے طفیل وہ نیک ہوئے۔ 
ژ فرمایا کہ مراتب (عرفا) چار ہیں: مجذوب ، سالک، مجذوب سالک، سالک مجذوب ، اور یہ سب سے بڑا مرتبہ ہے ایک آدمی قوم ہند و ناتھونامی حالت جذب میں تھا ، ایک دن مجھ سے کہا کہ اولے گریں گے ،  ایسا ہی ہوا اگر کافرسے ایسا ظاہر ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں اور ایسے آدمی حالت کفر میں مرتے ہیں۔ 
ژفرمایا کہ عذاب وثواب اس جسم پر نہیںہے بلکہ جسم مثالی پر کہ خواب میں نظر آتا ہے ہوگا و نیز روح اعظم انسانی پر کہ ایک تجلی حق ہے ، عذاب نہ ہو گا وہ مثل آفتاب کے ہے اور روح حیوانی مانند چراغ ۔ 
ژفرمایا کہ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب نے مجھ کوچار چیز یں تلقین فرمائیں: (۱)طلب رزق حلال (۲)تمام عالم سے اپنے کو بدتر سمجھنا (۳) مراقبہ احسان (۴) ترک اختلاط غیر جنس۔
ژفرمایا کہ مولانا فخرالدین وشاہ ولی اللہ وخواجہ میردرد ومرزا مظہر جان جاناں رحمہم اللہ تعالیٰ کی کسی شخص نے ضیافت کی اور اپنے گھر بٹھا کر خود غائب ہو گیا اور بہت دیر کے بعد یہا ں تک کہ نماز کا وقت آگیا ، آکر دو دو پیسے سب کے ہاتھ پر رکھ دیے مولانا صاحب پر چونکہ اخلاق رحمت اور انکسار غالب تھا آپ نے اس کی تعظیم اور پیسوں کو سروچشم سے لگا کر قبول کیا ، او رمرزا صاحب چونکہ بہت نازک طبیعت مزاج تھے (یہا ں تک کہ زمانہ بچپن میں بد صورت دایہ کی گودمیں نہ جاتے تھے) کہنے لگے کہ میاں اگر یہی ارادہ تھاتو خواہ مخواہ اتنی دیر کی اور دوسرے حضرات نے کچھ نہیں کہا۔ فرمایا کہ شیرخاں صاحب خلیفہ حضرت میانجی شاہ نور محمد صاحب قدس سرہ میر ے برادرارشادی جب قریب رحلت ہو ئے وقت نزع لوگوں نے تلقین کلمہ شروع کیا اور وہ منہ پھیر لیتے تھے۔ سب کوتعجب تھا کہ ایسے بزرگ کی یہ حالت ہے کہ جس سے سوئے خاتمہ کا خیال ہوتاہے ، جب حضرت مرشد تشریف لائے اور پو چھا کہ کیا حال ہے فرمایا الحمد للہ ، لیکن یہ لوگ مجھ کوپریشان کرتے ہیں اور مسمی سے طرف اسم کے لاتے ہیں، پس مراتب لوگوں کے مختلف ہیں۔ اعراض کلمہ سے سو ء خاتمہ پراستدالال نہ کرنا چاہئے ممکن ہے اس میںکوئی وجہ خاص ہو جیسے ذکر ہوا۔ اقول پس وہ شخص معذورہوگا ، لیکن اس سے زیادہ کمال جامعیت ہے کہ باوجود مشاہدہ مسمی کے اسم کا حق بھی اداکرے ۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت  ﷺ تشریف رکھتے ہیں اور ایک کتاب پڑھی جاتی ہے جس کو حضور کمال توجہ سے سن رہے ہیں۔ دریافت فرمایا کہ یہ کو ن سی کتاب ہے۔ احیاء العلوم حجۃ الاسلام امام غزالی کی ہے فرمایا یہ لقب عطیہ حضرت  ﷺ ہے۔ 
ژفرمایا کہ کو ئی مہم پیش آئے سورئہ یٰسین پڑھیں اور ہر دفعہ مبین پر پہنچ کر سات بار سورہ فاتحہ مع تسمیہ پڑھیں اور اوّل واخر سورۃ کے درود شریف پڑھیں ۔درود مثل صندوق کے ہے کہ اپنے اندر لپیٹ کر (وظیفہ و دعاکو )لے جاتا ہے ۔ یا سورئہ مزمل سات بار پڑ ھیں کہ معمولات مشائخ سے اور مجرب ہے او رسورۃ فاتحہ اکتالیس بار جو میں نے اپنے آدمیوں (مریدوں ) پر لازم کیا ہے۔ اس سے بہتر اموردینی و دنیاو ی کے لیے کچھ نہیںہے۔فقط
ژفقیر کو چاہئے کہ نہ طمع کرے نہ منع کرے ۔ 
ژ مومنؔ خاں دہلوی ، مجھ سے بہت اعتقادرکھتے تھے ، میں نے پوچھا کہ بعض لو گ کہتے ہیں کہ مثنوی کی نظم سست ہے جو اب دیا کہ کو ئی  جاہل کہتا ہو گا ، اساتذہ کے نزدیک مثنوی سند ہے ۔ بعد انتقال خاں صاحب کے لوگ حسب وصیت ان کی قبر پر گئے ، ان کا حال عمدہ پایا۔ 
ژفرمایا کہ مولوی محمدقاسم صاحب نے پوچھا کہ میں نوکری چھوڑدوں میں نے (حضرت نے ) جو اب دیا کہ جب ایسی حالت ہو کہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے تب چھوڑیو۔ 
ژفرمایا دعا میں درود مثل صندوق کے ہے۔ 
ژفرمایا کہ جو مزہ میں فقر وفاقہ میں دیکھا  اور اس میں میرے مراتب کی ترقی ہوئی اور انبیاء علیہم السلام وملائک مقر بین کی زیارت ہوئی اور انوار و تجلیات مجھ پر نازل ہوئے وہ امور پھر فراغت میں میسر نہ ہوئے فرمایا فقر و فاقہ بڑی نعمت ہے۔حضرت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں الفقرفخری۔
ژفرمایا کہ مومن ؔخاں صاحب دہلوی فرماتے تھے کہ ایک بار چند حضرات شاہ عبدالعزیز صاحبؒ سے حدیث شریف پڑھ رہے تھے ۔ شاہ صاحب نے تذکرہ اکابرین دین کا کیا ہم لوگوں نے عر ض کیا کہ اب بھی کوئی ایسا ہے ۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ پر سوں ہمارے پاس فلاں حلیہ کا ایک شخص مسئلہ دریافت کر نے آوے گا وہ مرد کامل ہے اورسمت ووقت بھی معین کردیا ۔ ہم لوگ روزموعود میں زینت المساجد میں کہ کنارے جمنا کے واقع ہے، ان کے اشتیاق میں بیٹھے تھے۔ وقت مقر رہ پر دریا کے کنارے سے اسی حلیہ کے ایک بزرگ صاحب نمودار ہو ئے ۔ ہم لوگ دوڑے اور زیارت سے مشرف ہوئے ، وہ شاہ عبدالرحیم صاحب تھے۔ مومن ؔخاں صاحب اس واقعہ کی وجہ سے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ 
ژفرمایاکہ دہلی میں چند مشائخ کامل ہمعصر تھے۔ چشتیہ نظامیہ میں حضرت فخرالدن صاحب اور قادریہ میں حضرت میر درد صاحب، نقشبندیہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور صابریہ میں حضرت غلام سادات صاحب ۔
ژ فرمایا کہ حضرت غلام سادات صاحب کے تھانہ بھون میں اکثر لوگ مرید تھے ، اس وجہ سے وہ اکثر یہاں تشریف لاتے تھے ، ایک مرتبہ آپ آئے تو تمام لوگ گئے ، مگر حافظ ضامن صاحب کے دادا میر عبدالغنی حاضر نہ ہوئے۔ آپ نے دریافت کیا کہ میر عبدالغنی کیوں نہیںآئے ، لوگوں نے عر ض کیا کہ ان کا ایک حسین وجمیل لڑکا انتقال کرگیا ہے۔ اس وجہ سے مخبوط الحواس ہوگئے ، آپ نے فرمایاکہ ایک بارانہیں میر ے پاس لاؤ ، مگر وہ نہ گئے ۔ اتفاقیہ راستہ میں حضرت غلام سادات کو مل گئے ۔ آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ، عشق برمردہ نباشد پائدار، اسی وقت ان کاخبط جاتارہا اور عشق حق غالب ہو گیا ۔ مسجد میں بیٹھے رہے او رخدا کی یاد میں راہی ملک بقاہوئے۔ 
ژفرمایا کہ عذاب اُخروی اس عالم میں بھی بعض اشخاص کو معلوم ہو جاتاہے ۔ (جلال آباد میں جوہمارے قصبہ کے قریب ایک بستی ہے) ایک رئیس نے بہ طمع دنیوی ہنود کو اپنی زمین بت خانہ بنانے کو دے دی،جب ان کا وقت اخیرآیا حکیم غلام حسن ان کے معالج نبض دیکھ رہے تھے ، مریض نے پکار کے کہا کہ حکیم جیومجھے اس پنجرہ آہنی آتشیں سے بچاؤ مجھ کو اس پنجر ے میں ڈالے دیتے ہیں۔ لوگ متعجب تھے اور کچھ تدارک نہیں کرسکتے تھے۔ آخر اسی فریاد وزاری میں اس کی روح پروازکرگئی ۔ 
ژفرمایاکہ مولانا احمد علی صاحب محدث سہانپوری جب حافظ عبدالکریم تاجر میر ٹھ کے ملازم تھے ، یہاں مع حافظ عبدالکریم کے زیارت حرمین شریفین کوگئے ، میں نے کہا مولانا مملوک علی صاحب نے میر ا سبق گلستان آپ کے سپر دکیاتھا۔ اس وجہ سے آپ میر ے استاد  ہیں مگر میں ایک بات عرض کروں گا۔ اگر ناگوارنہ ہو ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو اپنا بزرگ جانتاہوں جو فرمائیے بسر و چشم منظور ہے۔ میں نے کہا آپ کایہ منصب نہیں ہے کہ حافظ عبدالکریم وغیر ہ آپ کو کام کا حکم دیں ، بلکہ انکو آپ کا محکوم ہو نا چاہیئے ، لیکن نوکری بجز محکومی چارہ نہیں ۔ اب آپ اپنے مکان پردرس احادیث نبویہ ﷺ کا فرمایا کریں تاکہ خلق کو فیض ہو۔ مولانا صاحب نے قبول کرکے فرمایا کہ آپ حرم محترم میں میر ے لئے دعا کریں چنانچہ یہاں سے جاکر ترک تعلق کرکے درس حدیث کا شغل اختیار کیا او رصد ہا طلبہ کو محدث بنادیا اور حافظ عبد الکریم نے میر ے سامنے بہت کچھ معذرت کی کہ مولا نا کو ہم لوگ اپنا مخدوم جانتے ہیں ۔ میں نے کہا سچ ہے ، مگر نوکردرحقیقت خادم ہی ہوتا ہے چاہے اس کا آقا اسے اپنا مخدوم بھی تصور فرمائے او رلفظ خادمی کا زبان پر نہ لائے۔ 
ژحضرت حاجی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ حضرت میں اللہ کا نام لیتا ہوں ، مگر نفع نہیں ہوتا حضرت نے فرمایا کہ یہ تھوڑا نفع ہے کہ نام لیتے ہو یہ تمہارا نام لینا یہی نفع ہے اور کیا چاہتے ہو۔ 
گفت آں اللہ تو لبیک  ماست 
 دین نیاز و سوز دردت پیک ماست 
ژحضرت مولانا فتح محمد صاحب ؒ حضرت حاجی صاحب ؒ کی حکایت بیان فرماتے تھے کہ میں حضرت کے پاس بیٹھا ہو ا تھا، بہت دیر تک بیٹھا باتیں کرتارہا ۔ آخرجب بہت دیر ہو ئی تو میں اٹھااور عر ض کیا کہ حضرت آ ج میں نے آپ کی عبادت میں بہت حر ج کیا حضرت فرمانے لگے کہ مولانا آپ نے یہ کیا فرمایا کہ نماز روزہ ہی عبادت ہے اور دوستوں کا جی خوش کرنا عبادت نہیں۔ 
ژ حضرت حاجی صاحب کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص آپ کو یوں کہتا تھا ۔ حضرت نے فرمایا کہ اس نے تو پس پشت ہی کہا ، لیکن تم اس سے زیادہ بے حیا ہو کہ میرے منہ پر کہتے ہو۔ 
حضرت کی کرامتیں:۔
ظ ہنگام قیام رباط اسمعیل سیٹھ اس کے لڑکے سے بعض باتیں خلاف طبع مبارک ہوئیں اس وجہ سے آپ نے وہا ں کا قیام تر ک کر کے رخ توجہ بحـضو رباری تعالی کیا ، اسی بارے مں بلاکسی تحر یک کے ایک حکم نامہ بتاکید ریاست حیدرآباد سے وہاں کے وکلا کے نام پہنچا کہ منجملہ دومکانات ریاست کے جومکان وجگہ آپ پسند فرمائیں ، اس کی کنجی خدام حضرت کے سپر د کردی جائے۔ چنانچہ وکلا ریاست نے بڑی التجا سے یہ کیفیت حضور ی میں عرض کی او رایک مکان کی کنجی حوالہ ملازمان عالی کردی۔ 
ظ اسی زمانہ میں ایک مہندس نے آپ کے قریب ایک مکان تعمیر کیا اور اس میں ایک راستہ رکھا جس سے حضرت کے دولت خانہ کی بے پر دگی ہو تی تھی ۔وہ انواع واقسام کے ظلم وجبر خدمت شریف میں کرتا تھا اور آپ کی طر ف سے اپنے دل میں عناد رکھتا تھا۔ حضرت نے ایک شخص کے ذریعہ سے کلمۃ الخیر تبلیغ فرمایا ، لیکن اس نے کچھ خیال نہ کیا بلکہ کلمات بیہودہ زبان پرلایا ۔ لوگوںنے یہ واقعہ حضرت سے عرض کیا او راکثر احباب کی رائے ہوئی کہ حاکم وقت کے یہا ں استغاثہ کیا جائے بجواب اس کے حضرت نے ارشاد فرمایاکہ میر ا استغاثہ حاکم حقیقی کے یہاں ہے۔ حکام مجازی کے آگے درخواست کرنا درست نہیں ہے۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ تیغ برہنہ اہل چشت نے اس پر گزر کیا او رباوجو د اعزاز بلیغ واعتبار عظیم بلاوجہ ظاہری اپنے منصب وعہد ے سے علحدہ کردیا گیا اورایسی ذلت وخواری میں مبتلا ہو ا کہ اللہ کسی کو نہ دکھاوے ۔ میاں امیر احمد رام پوری کا واقعہ میرے سامنے کا ہے ، امیر  احمد باربار حضرت سے دریافت کرتے تھے کہ یاحضرت میں ہندوستان جاؤں اور حضرت فرماتے تھے کہ ہاں جاؤ ، مگر امیر احمد کو اپنے اوپر مقدمات کا قوی خطرہ تھا۔اس واسطے شبہ ہو تا تھاکہ ضرور گرفتار اور سزایاب ہو ںگا،اس واسطے باجود حضرت کے ان کو اطمینان نہیں ہو تاتھا او رباربار دریافت کرتے تھے۔ ایک روز حضرت نے خود ارشاد فرمایا کہ تمہارا جی گرفتارہو نے کو چاہتاہے میا ں جاؤ تب میں نے ان سے کہا کہ اب تو شک وشبہ چھوڑو اور حضرت نے خود ارشاد فرمایا ہے خدا کا نام لے کر چلو اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا ۔ چنانچہ وہ میر ے ساتھ ہندوستان آئے او رچند روز دہلی ایک مسجد میں رہ کر حاضر عدالت ہو گئے چنانچہ گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے اور بالآخر تمام مقدمات سے بری ہو کر اپنے گھر بخیر یت تمام پہنچ گئے۔ 
ظ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب کے یہا ں مہمان بہت سے آگئے ، کھانا کم تھا ، حضرت نے اپنا رومال بھیج دیا کہ اس کو ڈھانک دو کھانے میں ایسی برکت ہوئی کہ سب نے کھا لیا او رکھانا بچ گیا ۔ حضرت حافظ ضامن صاحب کو خبر ہو ئی تو عرض کیا کہ حضرت آپ کا رومال سلامت چاہئے اب تو قحط کیوں پڑے گا ،۔ حضرت شرمندہ ہو گئے اور فرمایا کہ واقعی خطاہوگئی توبہ کرتاہوں پھر ایسا نہ ہو گا۔ 
صورت وسیرت:۔
سرمقدس کلاں وبزرگ ہے اور پیشانی کشادہ وبلند ہے اور انوار حقانی پیشانی مبارک سے واضح ولائح ہیں ۔ ابرو و سیع و خمدار چشمان مبارک کلاں ہیں اورہمیشہ خمار ذوقیہ ربانیہ میں سرشار رہتی ہیں ۔ رنگ شریف گندم گوں ہے ، نحیف الجسم معتدل القامت گونہ مائل بطوالت ، لیکن نہ اتنا کہ طویل کہنے کے قابل بلکہ جیسا کہ قامت شریف آنحضرت ﷺ کے بارے میں آیا ہے خفیف العارضین، طویل اصابع الیدین گویا حجازی ہیں فصیح البیان، عذب الکلام ،کثیر المروت، عظیم الاخلاق جس کسی سے بات کرتے ہیں بکمال بشاشت وخوشی وتبسم فرماتے ہیں اورافضل ترین اخلاق حضرت ایشاںتخلق بہ اخلاق قرآن  ہے کماورد عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی وصف خلقہ ﷺ جمیع اخلاق حسنہ کہ قرآن شریف میںان کی مدح ہے ذات مبار ک میں جمع ہیں اور جتنے اخلاق رذیلہ کہ قرآن شریف میں ان کی برائی ہے بالطبع ان سے متنفر ۔ اتباع سنت سنیہ واجتناب بدعات قبیحہ عادات جبلیہ سے ہے او راستقامت بہ شریعت غرا و  طریقت بیضا اخلاق لازمہء رضیہ سے ہے کہ الا ستقامۃ فوق الکرامۃ والکرامۃ یتحصل بعد الاستقامۃ خمیرشریف آپ کا ہے ، ذات پاک صاحب اشارات علمیہ وحقائق قدسیہ جامع انوار محمدیہ ومنازل عر شیہ ہے دال علی اللہ سبحان وعلی سبیل الجنان وداعی الی العلم و العرفان ہے اور حامل لو اء عرفان وضیا ء قلوب ناقصاں ومبین اسرار وکاشف ومظہر عوارف معارف مربی علم وحال صاحب ہمت و مقال ہے۔ طریقہ شریفہ آپ کا متضمن جذب ومجاہدہ وعنایت ہے ۔ سکرآپ کا ادب کو پہنچانتا ہے اور صحومقامات حجاب سے ترقی کو پہنچاتاہے ۔حقائق توحید سامی باشریعت دمساز ہیں واسرارمجاہدات گرامی معرفت سے ہمراز۔ اولیاء عصر آپ کی ولایت پر اجماع رکھتے ہیں اور علماء زماں آپ کے علومنز ل کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ نے علوم اسماء وصفات سے مخصوص فرمایا ہے اورمعارف خاص وخصوصیات علوم اعلی سے مقامات مرحمت فرمائے ہیںاور مقام اکبرو مدد اکثر وعطاے انفع ونوال اوسع پر ممتاز فرمایاہے۔ (شمائم امدادیہ ص۳۵)
(اقتباس از:’’انواراصفیاء ‘‘ ادارہ تصنیف وتالیف، شیخ غلام علی اینڈ سنس، لاہور، پاکستان ، ۱۹۸۵؁ء)

والد گرامی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی  کے پیر طریق چشتیہ حضرت حافظ سید محمد علی خیرآبادی

والد گرامی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے پیر طریق چشتیہ حضرت حافظ سید محمد علی خیرآبادی

والد گرامی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کے پیر طریق چشتیہ
حضرت حافظ سید محمد علی خیرآبادی


حضرت حافظ سید محمد علی صاحب خیرآبادی ؒ، خواجہ تونسویؒ کے اولین خلفا میں سے تھے ۔ خیرآباد  میں ان کی خاتقاہ علم و فضل کا مر کز اور فیوض و برکات کا منبع تھی ۔ اودھ او ردکن میں چشتیہ سلسلہ کی اشاعت کا کام اسی خانقاہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا وہ بے پنا ہ عزم واستقلال کے مالک تھے ۔ نامساعد حالات سے بالکل متاثر نہ ہوتے تھے۔ 
ولادت اور نسب:۔ 
حافظ صاحب ؒ کی ولادت باسعادت ۱۱۹۲ھ کو ہوئی تھی (۱) ان کے والد ماجد مولوی شمس الدینؒ ایک علمی خاندان کے فرد تھے ۔ ان کے اجد اد میں ایک بزرگ حضرت شیخ سعد خیرآبادی ؒ، حضرت شاہ میناؔ لکھنویؒ کے خلیفہ تھے او ران کی شہر ت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ حافظ صاحبؒ کا خاندان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔ علم وفضل میں اس گھرانے کو ایک امتیازی رتبہ حاصل تھا۔ 
ایام طفلی:۔
بچپن ہی سے حافظ صاحبؒ کی طبیعت عبادت کی طرف راغب تھی ۔ رات کے آخر ی حصہ میں اٹھ کر وہ یادحق میں مشغول ہو جاتے تھے۔ (۲) شریعت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی جگہ جارہے تھے ۔ راستہ میں بیر کے درخت ملے ۔ سب لڑکو ں نے ان درختورں سے پھل توڑ کر کھائے ۔ حافظ صاحبؒ سے کھانے کے لیے کہا گیا تو فرمایا یہ درخت غیر کی ملک ہیں، بغیر مالک کی اجازت کے کیوں کر کھاؤں (۳)
تعلیم:۔
سب سے پہلے حضرت سید محمد علی صاحبؒ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد خیرآباد میں مولانا عبدالوالی صاحب سے جو اپنے زمانہ کے مشہور عالم تھے۔ شرح وقایہ تک علم حاصل کیا۔ پھر شاہ جہاں  پور تشریف لے گئے اور وہا ں کچھ عرصہ تک تحصیل علوم میں مشغول رہے۔ یہاں شہر کے باہر ایک مسجد میں ان کا قیام رہا ۔ شاجہاں پو ر کی علمی دنیاجب ان کی تشنگی علم کو نہ بجھا سکی تو دہلی کا رخ کیا کہ وہی ہندوستا ن میں علم وادب، احسان وسلوک کا آخر ی مرکز سمجھا جاتا تھا ۔ اس وقت حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے گھرانے نے علم کی وہ شمع روشن کر رکھی تھی ، جس کے گرد دور دور سے علمی پروانے جمع ہو رہے تھے۔ دہلی میں مشکوٰۃکا سبق انہوں نے حضرت شاہ عبدالقادر ؒ سے لیا ،(۴)  پھر حرمین شریفین میں صحیح بخاری کی سماعت فرمائی ۔ جب شا ہ سلیمان تو نسوی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو صحیح مسلم کی سماعت کی (۵)۔ دہلی میں شاہ عبدالقادرؒ میں خدمت میں فصوص الحکم کا کچھ حصہ پڑھا(۶) ۔ 
مجاہدات:۔
حافظ صاحبؒ نے ابتدائی زمانہ میں سخت مجاہدات کیے تھے۔ سب سے پہلے وہ حضرت سید محمد مشتاق عرف چھیدامیاں کے مزار پر چلہ کش ہو ئے ۔ پھر شاہ مینارحمۃ اللہ علیہ کے مزار متبرکہ پر ریاضت شاقہ میں مشغول ہوگئے ۔ نمازیوں کے لیے پانی بھر بھر کرلاتے ۔ با قی وقت میں عبادت کرتے ۔ اسی طرح کافی عرصہ گزر گیا ۔ پھر حضرت قطب صاحبؒ کے مزار پر دہلی میں حاضر ہوئے او رحسب معمول مجاہدوں میں مشغول ہوگئے ۔ چندمکانوں میں اُجرت پرپانی بھر کر اپنی گزر اوقات کرتے تھے اور اکثر روزہ رکھتے تھے۔ تمام رات قرآن پاک کی تلاوت میں گزرتاتھا ۔ دہلی سے وہ اجمیر شریف پہنچے اور وہاں بارہ سال تک ایک مسجد میں مقیم رہے ۔ یہاں سے پاک پٹن کا ارادہ کیا پاک پٹن میں خواجہ محمد سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت وبزرگی شہر ت سن کر دل اس طرف متوجہ ہو گیا۔ یہاں ان کوعقیدت وارادت کا ایسا مرکز مل گیا، جس نے ان کے مجاہدںواو رریاضتوں کو صحیح راستہ پر لگا دیا۔ شاہ محمد سلیمانؒ کی صحبت نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا۔ فطرت کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتیں ابھر آئیں او ران کے چمکنے کا موقع مل گیا ۔ 
بیعت:۔
حافظ صاحب ؒ انتہائی ذوق وشوق کے ساتھ پاک پٹن سے تونسہ روانہ ہوئے ۔ شاہ محمد سلیمانؒ کی خدمت پہنچ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی خواہش کاا بھی اظہار نہ کر سکے ۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک دن حافظ صاحبؒکے دل میں خیال کہ افسوس حضرت شاہ صاحبؒ میر ے حل کی جانب متوجہ نہیں ہو تے شاہ صاحبؒ کو معلوم ہوا تو فرمایا ، جس شخص سے مجھے تعلق ہو تا ہے بظاہر میں اس کی طرف توجہ نہیں کرتا ہو ں یہ سن کرحافظ صاحب ؒ  کے بے چین قلب کو اطمینان ہو ا شاہ صاحبؒ نے پہاڑ پر پاؤں رسی میں باندھ کر عبادت کرنے کی ہدایت کی ۔ عرصہ تک حافظ صاحبؒاس کے مجاہدے کرتے رہے۔ اس کے بعد شاہ محمد سلیمان صاحبؒ نے اپنے سلسلہ میں داخل کرلیا، اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حافظ صاحبؒ نے کچھ عرصہ تک کسی شخص کو مرید نہیں کیا۔ شیخ کو علم ہوا تو وجہ پوچھی عرض کیا اہل ہند نہایت درجہ معاصی میں مبتلا ہیں۔ اسی وجہ سے سلسلہ میں داخل نہیں کیا۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا تم کو اس سے کیا کام میں نے اجازت دی ہے ۔ نیک خواہ بد جو کچھ ہوں گے مجھ سے ہوں گے ۔ شیخ کا یہ حکم سننے کے بعد حافظ صاحبؒ نے بیعت کا سلسلہ شروع کردیا۔ اودھ ، پنچاب اور حیدرآباد کے ہزاروں باشندوں نے ان کے دست حق پر ست پر بیعت کی پھر حافظ صاحبؒ حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ وہاں دس سال تک مقیم رہے اور کچھ لوگوں کو مریدبھی کیا۔ 
پیرومرشدسے عقیدت:۔   حافظ صاحبؒکو اپنے پیر ومرشد سے بڑی عقیدت تھی شیخ کے نوکروں کی تک عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شاہ صاحبؒ کا سائیس لکھنومیں مل گیا ، اسکی بے حد تعظیم کی(۷) حافظ صاحبؒجب اپنے شیخ کی خدمت میں جاتے تو کئی کو س پہلے سے پیادہ پاچلنے لگتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مرید نے سوار ہو نے درخواست کی تو فرمایا
وعدہ وصل چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد(۸)
شاہ صاحبؒ ان کی صحبت اور خلوص کی بے حد قدر کرتے تھے اور انتہائے تعلق میں ان کو ’’شاہ ہوری‘‘ کہتے تھے۔ (۹)
بری رسموں کو دور کرنے کی کوشش :۔
حافظ صاحبؒ کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کی سوسائٹی کی نشو ونما اسلامی اصول پر ہو وہ ہمیشہ اسلامی رسم ورواج اور طر زندگی پر زور دیتے تھے کہ بری رسموں کو رو کنے کی جدوجہد کرنا سب سے زیادہ اہم کام ہے۔خودان کے متعلق مناقب کے مصنف کا بیا ن ہے ہمیشہ سنت نبویہ کے زندہ رکھنے اور اہل ہند کی باطل رسومات کو مٹانے کے واسطے مستعداور آمادہ رہتے تھے۔ (۱۰)
حافظ صاحبؒ کی اصلاحی کوششوں کی ابتداء خودان کے گھر سے ہوئی ۔ انھوںنے اپنے گھر میں ان تمام رسومات او رتوہمات کو ختم کیا جن کو وہ غیر شرعی سمجھتے تھے۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ان کو قصبہ موہا ن کا سفر پیش آیا حاضرین نے کہا کیا حضرت بی بی صا حبہ کی رسومات نہیں کریں گے فرمایا جہاں ہو گا وہا ں فاتحہ کردوں گا کیوں کہ اس سے غرض ایصال ثواب ہے اور وہ ہر جگہ ممکن ہے۔ یہ کیا ضرورہے کہ اسی جگہ سیوم کی فاتحہ کروں۔(۱۱)
شادی کے معاملے میں وہ غیر ضروری رسومات کو ناپسندکرتے تھے۔ایک دن اچانک صاحبزادے حافظ جمال الدین کو دلہن کے مکان پر لے گئے او ر نکاح کے لیے کہا دلہن کے گھر والوں نے بے سرو سامانی کا عذ ر کیا تو فرمایا جو کچھ اللہ اور رسول کا حکم ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہئیے چنانچہ قواعد شرعیہ  کے مطابق نکاح ہو گیا اور کوئی غیر شرعی رسم ادا نہ کی گئی ۔ 
حافظ صاحبؒکے برادرزادے حافظ تراب علی صاحب کی شادی میں کاغذ کے پھول تیار کیے گئے تھے۔ حافظ صاحبؒکی نظر پڑی تو سخت رنج ہو ا ۔ فرمایا یہ بزرگ زادے ہیں اور ایسے مراسم قبیحہ کرتے ہیں یہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ کھڑ ے ہوئے (۱۲) وہ ایسی شادیوں میں جن میں اسلامی شعار کی پابندی نہیں ہو تی تھی شرکت نہ کرتے تھے ۔ ایک شخص واجد علی خاں نے شادی میں شرکت کی درخواست کی۔ فرمایا اس زمانہ میں اس قدر مہر قرار دیا جاتا ہے کہ اس کا اد ا کرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ امر نا رواہے پس ایسی تقریب نکاح میں میں شریک نہیں ہواکرتا۔(۱۳)  خاں صاحب کے اس یقین دلانے پر کہ جو مہر قرار پائے گا ، وہ اسی وقت ادا کیا جائے گا۔ آپ شادی میں تشریف لے گئے۔ 
تقاریب میں رنڈیوں کے ناچ سے سخت نفرت تھی۔(۱۴) اگر کہیں رنڈیوں کا ناچ ہو تا ہر گز شریک نہ ہو تے ۔ (۱۵)ایک مرتبہ حیدرآباد میں حضرت شاہ یوسفؒ کے مزار پر حاضری کااتفاق ہوا تو دیکھا وہاں طوائفوں کا ناچ ہو رہاہے ۔ آپ کوا س قدر غصہ آیا کہ محفل میں پہنچ کر مشائخ کو للکار ایہ بال تمہاری داڑھی کے نہیں بلکہ زنار کے تاریں ہیں ۔ اولیا ء اللہ کے مزاروں پر ایسا فسق وفجور ہوتاہے اور تم دیکھتے ہو۔ (۱۶)
حافظ صاحبؒ مشرکانہ تہواروں میں شرکت پسند نہ فرماتے  تھے۔ کہتے تھے ۔جس مسلمان نے رسم کفر کو رغبت دل سے مشاہدہ کیا اس کے ایمان میں خلل پڑا (۱۷)جب کسی قوم کے قوائے عمل مضحل ہو تے ہیں تو ان علوم اور شعبدوں میں دلچسپی پید ا ہو جاتی ہے جو بغیر ہاتھ پاؤں کو جنبش دیے آسایش کی زندگی کا دلکش خواب د کھاتے ہیں چنانچہ اس زمانہ میں عام لوگوں کو کیمیا بنانے کی فکر رہتی تھی ۔ ہر شخص اسی دھن میں وقت گزارتا تھا۔ حافظ صاحبؒ نے اپنے ملفوظات میں جگہ جگہ ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔(۱۸)
اخلاق:۔
حضرت حافظ محمد علی صاحب ؒاخلاق محمدی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ انسانی مساوات واخوت پر ان کا ایمان تھا۔اپنے عمل سے اس کی تائید کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔ نظرپڑی تو دیکھا ایک موچی، میاں اسلم کے جوتے سی رہاہے۔ فرمایا اپنے ہاتھ دھوکرآ اور کھانا کھا ۔ او راپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلایا۔(۱۹) جاڑے کے موسم میں ایک جولاہا ان کے پاس آکرٹہر ا ، اس کے پاس جاڑے کا لباس نہ تھا۔ حافظ صاحبؒنے اس کو اپنے بستر میں اپنے پاس سلایا۔ (۲۰)
حافظ صاحبؒ جب محفل میں مدعوکیے جاتے تو کبھی ممتاز جگہ پر نہ بیٹھتے (۲۱) سفر و حضر میں خادموں کے ساتھ کام میں شریک رہتے تھے۔ بعض اوقات روٹیاں اپنے ہاتھ سے پکا لیتے تھے۔ (۲۲)اظہار مشیخت سے نفرت تھی، بلکہ اس قسم کا تواضع جس سے ترک تجرید کا اظہار ہو پسند نہ کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ترک کوبھی ترک کرنا چاہیے۔(۲۳)
اتباع سنّت:۔
حافظ صاحبؒ اتبا ع سنّت پر بہت زوردیتے تھے۔ مناقب حافظیہ میں لکھاہے: حضرت شیخ الاسلام کو چونکہ اتباع نبوی میں بہت کدو کوشش تھی ، ہمیشہ سنّت نبویہ کے زندہ رکھنے اور اہل ہند کی باطل رسومات کومٹانے کے واسطے مستعداور آمادہ رہتے تھے۔ (۲۴) ان کی مجلسوں میں مسائل شریعت اور سنّت کے علاوہ کو ئی ذکر نہیں ہو تا تھا۔ (۲۵) اپنے مرید وں کو سنت نبوی پر عمل کرنے کی برابر تاکید کرتے تھے۔ ایک شخص ہر روز صبح کو آکر قدم بوسی کرتا تھا ایک روزفرمایا آیا یہ ڈنڈوت ہے کہ فجر کو اٹھ کر ہندوؤں کی طر ح ایسا کرتا ہے ۔ السلام علیکم کہہ کر بیٹھا جانا چاہئے ،حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو بتایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے اتباع کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں ہو تی اور محبت الہٰی کا دعویٰ بغیر اتباع نبوی جھوٹادعویٰ ہے۔(۲۶) حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو احسان وسلوک کی صرف ان کتابوں کے مطالعہ کی ہدایت فرماتے تھے ، جن میں شریعت پر خاص زور دیا گیا ہو ۔ عوارف المعارف ان کو بہت پسندتھی او راس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ہر مسئلہ حدیث شریف سے لکھا گیا۔ (۲۷)
مریدوںکی تربیت:۔
حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کی اصلاح وتربیت میں بڑی دلچسپی لیتے تھے ۔ فرمایا کرتے تھے ، مرشدوں کو مریدوں کا ا سطرح خیال رہتاہے ، جس طرح ماں کو اپنے لڑکوں کا خیال رہتاہے۔ (۲۸)
حافظ صاحبؒ اظہار مشیخت سے ناراض ہو تے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ ہر چیز کا اخفا کیا جائے ۔ ایک دن ان کے ایک مرید میر محمد علی ان لکڑیوں پر جن سے کپڑ ا بناجاتا ہے بٹیھے ہو ئے تھے ، اتفاقاً حافظ صاحبؒ کی نظر ان پر پڑگئی ۔ فرمایا ایسا فعل نہیں کرنا چاہئے، جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ شخص نہایت متواضع اور منکسرہے ۔(۲۹) ایک مرید نے اپنی رضائی ایک مسکین کو دے دی تو سخت ناراض ہوئے فرمایا اس  فعل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص ایسا باخدا ہے کہ ایک رضائی اسکے پاس تھی وہ بھی خدا کی راہ میں دے دی (۳۰)، فرمایا کرتے تھے ترک کو بھی ترک کرنا چاہیے ۔ مرید وں کے بال رکھنے کو اس وجہ سے ناپسند کرتے تھے کہ اس سے اظہار مشیخت ہوتا۔ (۳۱)
حافظ صاحبؒاپنے مریدوں کی ظاہری وباطنی زندگی کی اصلاح میں بڑی جدوجہد کرتے تھے ۔ مرید کرتے وقت یہ ہدایتیں فرماتے تھے۔ 
(۱)شریعت پر قائم رہو۔
(۲)اللہ کی محبت میں دل کو مضبوط رکھو۔
(۳) جب تک تحصیل علم سے فارغ ہو ذکرنہ کرو۔ 
(۴) دنیا کی محبت میں مت بیٹھو، اس محبت الہٰی کی لذت سلب ہو جاتی ہے۔ (۳۲)
 تعویذ و عملیات سے اجتناب:۔
جب مذہبی ذہن پر یشان ہو تا ہے تو عملیات میں غیر معمولی اعتقاد پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے قوائے عمل شل ہو جاتے ہیں اور اوہام کا تار وپود ، زندگی کے سر چشموں کو خشک کردیتا ہے، حافظ صاحبؒ کو یہ چیز سخت  ناپسند تھی مناقب میں لکھا ہے۔ 
’’شیخ الاسلام عملیات سے نفرت رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے ہیں۔(۳۳) آپ نے کبھی کسی کو تعویذ نہیں دیا، ایک شخص بے حد مصر ہوا تو مولانا روم ؔکا یہ شعر کا غذ پر لکھ دیا۔ 
ہم دعا ازتو اجابت ہم زتو 
ایمنے از تو مہابت ہم زتو(۳۵)
مثنوی مولاناروم:۔
حافظ صاحبؒ کو مثنوی مولانا روم پر بڑ ا عبور تھا۔ انہوں نے عارف روم کے معارف ربانیہ کا مطالعہ نہایت بالغ نظری سے کیا تھا اوران کو نہایت ہی بلیغ اور دل نشین انداز میں بیان کرتے تھے ۔ مناقب المحبوبین میں لکھاہے۔ 
’’گویند مثنوی رامثل ایشاں کسے نمی خواند‘‘(۳۵)
اشراق کی نماز کے بعد وہ مثنوی کادرس دیتے تھے۔(۳۶) مرتب مناقب حافظیہ کا بیان ہے۔ 
’’ اس کتاب شریف کے ساتھ حضرت شیخ الاسلامؒ کو کمال تعلق اور محبت تھی اور اس کے معانی اور مطالب اس زمانہ میں آنحضرت کی مانند کوئی نہیں بیان کرتا تھا۔ ‘‘(۳۸)
حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو مثنوی کے مطالعہ کی ہدایت فرماتے تھے(۳۹) وہ مثنوی کو حقائق ومعارف اسرار رموزکا ناپیداکنار سمجھتے تھے اس لیے اس کی شرح لکھنے کو کبھی اچھانہ سمجھاایک روزمجلس میں فرمانے لگے کہ مولانا جامیؔ نے مثنوی کی شرح لکھنی شروع کی ۔ اس کے دوتین اشعار کی شرح لکھنے پائے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب تمہارے شرح لکھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔ انہوںنے اپنے اسرار کو در پر دہ ر کھا ہے اور تم اس کو ظاہر کرنا چاہتے ہو یہ سن کر مولا نا جامیؔ نے شر ح لکھنی بند کردی ۔ (۴۰)
حافظ صاحبؒکے درس مثنوی میں ہندو بھی شریک ہوتے تھے۔ (۴۱)
درس وتدریس:۔
حافظ صاحبؒ خانقاہ میںدرس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتاتھا۔ مولانا رومؒ حضرت ابن عربی اور مولانا جامیؔ کی تصانیف کا در س وہ خوددیتے تھے اور اس اندازمیں دیتے تھے کہ بڑے بڑے عالم ان سے  استفادہ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ جو خود بڑے جید عالم تھے۔ فصوص کا درس لینے ان کی خدمت میں حاضرہو تے تھے۔ (۴۲)
حافظ صاحبؒ معاصرین کی نظرمیں:
حافظ صاحبؒ ان مخصوص بزرگوں میں تھے، جن کی روحانی عظمت اور عملی تبحّر کی تعریف کرنے پر خود ان کے معاصر علماء ومشائخ مجبور ہوگئے تھے۔ مولانا انوارالحق صاحب قدس سرہٗ لکھنو کے اکابر اولیاء میںسے تھے ۔ حافظ صاحبؒ کو وہ ہمیشہ شبلی وقت کہا کرتے تھے۔ ( ۴۳)ایک مرتبہ حافظ صاحبؒ ان کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے آکر مولانا سے مصافحہ کیا ۔ مولانا نے حافظ صاحبؒ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ان کے ہاتھ پر بوسہ دو ۔ یہ شیرِحق ہیں(۴۴) ایک مرتبہ مولانا انوار الحق صاحب نے اپنی مجلس میں فر مایا حافظ صاحبؒ دولہا ہیں اور ہم سب براتی ۔(۴۵)
لکھنؤ کے ایک دوسرے عظیم المرتبت بزرگ مولانا عبدالرحمن صاحبؒ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے۔حافظ صاحبؒ اپنے عہد کے سلطان المشائخ ہیں (۴۶)، حافظ صاحبؒ جب دلی تشریف لائے تھے تو شاہ غلام علی صاحب ؒاور شاہ عبدالقادر صاحب ؒنے ان کی بڑی خاطر مدارات کی تھی(۴۷)۔ حاجی نجم الدین، حافظ صاحب ؒ کے متعلق پیرملانی میں لکھتے ہیں۔ 
اور محمد علی شاہ ساکن خیرآباد
کری جوانی خرچ جن بیچ خدا کی یاد
 یہ ہیں صاحب سلسلہ صد ہا لوگ مرید 
دن دن شہر اجگ اندران کا ہوا مرید(۴۸)
امراء سے اجتناب :۔
حافظ صاحبؒ کا صحبۃ الاغنیاء للفقرا ء سم قاتل ، پر راسخ اعتقاد تھا وہ کسی امیر کے پا س جانا اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی صحبت سے اجتناب کرتے تھے ، لیکن اگر کوئی آجاتا تو سنت نبوی کے مطابق اخلاق سے پیش آتے ، حیدرآباد کے قیام کے زمانہ میں ایک مرتبہ محی الدولہ احمد یارخاں نے عر ض کیاکہ حضور یہاں کے رئیس کو آپ سے ملنے کا بے حد شوق ہے فرمایا تم اور وہ دونوں جھوٹے ہو۔ اگر اس کو ملاقات کاا شتیاق ہوتا تو میر ے پاس نہ آتا ، اجازت کی کیا ضرورت ہے،’’ میرے دروازے پر نہ بواب ہیں نہ حجاب ہیں‘‘۔ (۴۹)
بہادر شاہ ظفر اور حافظ صاحبؒ:۔
بہادر شاہ ظفر نے چند مرتبہ حافظ صاحبؒکی خدمت حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور ملاقات کا شوق ظاہر کیا ۔ لیکن حافظ صاحبؒ نے ہمیشہ یہ فرمایا کہ ملاقات کی حاجت نہیں ہے، شوق کو دل ہی میں رہنااچھا ہے۔بہادر شاہ نے اصرار کیا، لیکن حافظ صاحبؒراضی نہ ہوئے ، بالآخر بہادرشاہ نے کالے صاحب کی وساطت سے ملنے کی کوشش کی ،کالے صاحب وقت کے منتظر رہے۔ قطب صاحبؒ کے عرس کے دنوںمیں حافظ صاحبؒ آستانہ شریف کی مسجد میں رونق افروزتھے، کالے صاحب نے فرمایا، حافظ صاحبؒ ایک ضرورت  سے جاتاہو ں جب تک میں حاضر نہ ہو ں آپ تشریف رکھیں یہ کہہ کر بادشاہ کے پاس  گئے او راس کو لے آئے۔ حاضرین نے شور کیا کہ بادشاہ  مسجد کی طرف آتے ہیں جب آواز حافظ صاحبؒ کے کانوں میں پہنچی فوراً دیوارپھاند کر چلے گئے۔ (۵۰)
وہ کلمہء حق کے کہنے میں بے باک تھے او رکسی کی پر وانہ کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ قطب صاحبؒ کے مزار پر حاضر ہوئے  تو دیکھا کہ مزار شریف کے قریب چھتوں پر قناتیں لگی ہوئی ہیں اور ان کی  رسیاں مزار مبارک کی طرف ہیں پوچھا کہ یہ قناتیں کس کی ہیں کہا گیا کہ بادشاہ دہلی کے محلات کے واسطے ہیں ۔ حافظ صاحبؒ نے غصہ ہو کر فرمایا ، یہ انتہائی بے ادبی ہے ۔ ان رسیوں کو کاٹ دو تاکہ یہ قناتیں گر پڑیں ۔ (۵۱)
نواب بہاول خاں اورحافظ صاحبؒ:۔
نواب بہاول خاں ثانی، خواجہ تونسویؒ کا مرید تھا ۔ حافظ صاحبؒ سے ملاقات کی تمنا رکھتا تھا ، مگر کبھی اس کا موقع نہ ملتا تھا۔ ایک دن شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کی خدمت میں اپنی اس تمنا کا اظہار کیا۔ شیخ نے حافظ صاحبؒ کو طلب کیا۔ حافظ صاحبؒ حاضر ہوئے تو سلام عرض کرنے کے بعد شیخ کے روبرو بیٹھ گئے ۔ خان موصوف کی طرف مطلق توجہ نہ کی ۔ تھوڑی دیر کے بعد پیر و مرشد کی اجازت سے اپنے مقام واپس آگئے۔ (۵۲)
’’مناقب المحبوبین ‘‘میں لکھا ہے کہ حافظ صاحبؒ ایک مرتبہ احمد پور تشریف لے گئے تھے۔ نواب بہاول خاں کو جب تشریف آوری کا علم ہو ا تو ملاقات کا ارادہ کیا۔ آپ کو خبر ہو ئی تو فوراً تونسہ شریف کے لیے روانہ ہوگئے۔ (۵۳)
انگریزوںسے تنفر:۔
حافظ صاحبؒ کے زمانہ میں انگریزوں کا اقتدار ہند وستان میں پوری طرح سے قائم ہو گیا تھا۔ انگریزی معاشرت کے اثرات ظاہر ہورہے تھے۔ حافظ صاحبؒ کو انگریزی طور وطریقہ او رطرز معاشرت سے سخت نفرت تھی ۔ اگر کوئی انگریزی وضع اختیار کرتا تھا تو طبیعت پر گراں گزرتاتھا۔ بوٹ پہن کر کوئی شخص آتا تو ناخوش ہوتے اور فرماتے یہ نصاریٰ کی وضع ہے ۔(۵۴) مصنف ’’مناقب حافظیہ‘‘ کے چچا واجد علی خاں نے ایک کوٹھی بنائی اور حافظ صاحبؒ کو بر کت کے لیے مکان میں لائے ۔ حافظ صاحبؒ نے معائنہ کے بعد فرمایا کہ واجد علی خاں نے خو ب مکان بنایا ہے ، مگر مجھ کو پسند نہیں آیا کیونکہ اس میں دروازے انگریزی وضع کے ہیں ۔ (۵۵)ایک مرتبہ ایک صاحب کے نام کے ساتھ انگریزی لفظ سن کر اس قدر نا راـض ہو ئے کہ اس کا خط تک نہ پڑھا۔ (۵۶)
وحدتِ وجود:۔
وحدت وجود پر وہ عوام میں گفتگو کرنے کو برا سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے پوچھا کہ عوام جو وحد تِ وجود پر گفتگو کرتے ہیں ، اس کے متعلق کیا خیال ہے ۔ فرمایا، یہ الحا د و زند قہ ہے۔ (۵۷)
سماع :۔
سماع کے معاملے میں بہت احتیاط فرمایا کر تے تھے ، کہا کرتے تھے کہ زمان ، مکان ،اخوان (۵۸)کی شرطیں جب تک پور ی نہ ہو ں مجلس منعقد نہیں کرنی چاہیے ۔قوال ہمیشہ باشرع ہونا چاہیے(۵۹) 
ہندوؤں کو عقیدت :۔
ہندوؤ ں کوبھی حضرت حافظ صاحبؒ سے بڑی عقید ت تھی ، مثنوی رومیؒ کے درس میں ہندو بھی شریک ہوتے تھے ۔ حیدرآباد کے راجہ چندو لال کو آپ سے بے حد عقیدت تھی۔(۶۰) اکثر آپ کی خدمت میں حاضرہوتاتھا ۔ دہلی کا ایک کا ئستھ ہندوان کی خدمت میں حاضرہوکر اس قدر متاثر ہوا تھا کہ مع اہل وعیال مسلمان ہو گیا۔ (۶۱)شاہ صاحبؒ کاا خلاق بے حد ا چھا تھا۔ ہر ملنے والا ان سے مل کر خوش ہوتا تھا اور ان کی محبت کا نہ مٹنے والا نقش لے کر ان کی مجلس سے جاتاتھا۔ 
واجدعلی شاہ اورحافظ صاحبؒ:۔  واجدعلی شاہ کے ہنگامہ ہائے ناؤ نوش اور حکومت کے کاموں سے بے تعلقی کو دیکھ کر حافظ صاحبؒ کو سخت صدمہ ہوا ۔ انہوں نے متعد د بار واجد علی شاہ سے شکایت کی اور اس کے فرائض سے آگاہ کیا۔ جب تمام نصیحتیں صدابہ صحرا ثابت ہوئیں تو حافظ صاحبؒ لکھنوتشریف لائے اور واجدعلی شاہ سے کہلابھیجا کہ ہم جنگ کے واسطے آئے ہیں ۔ اگر تجھ کو زوراور بہادری کا دعویٰ ہو تو مقابلہ کر ۔ اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ تلواریں ہمراہ لاؤ ہم جنگ کریں گے مصنف ’’مناقب حافظیہ‘‘ کو بھی تلوار لانے کاحکم ہوا ۔ متفکر ہو کر کئی بار فرمایا: 
’’میرے دل میں آتا ہے کہ اس رئیس سے تخت خالی کرادوں‘‘(۶۲)
ایک رات شاہ میناصاحبؒ کی درگاہ میں بیٹھے تھے ۔ فرمانے لگے ’’یہ تختے کا تختہ الٹے ‘‘ایک پیر مرداُن کے قریب بیٹھے تھے۔ باربار عرض کرتے تھے ۔ ایسا نہ فرمائیے آخر مسلمان ہے ۔ حافظ صاحبؒ اور زیادہ جوش میں آجاتے اور فرماتے ، اگر نصاریٰ کی عمل داری ہوتو اس حکومت سے بہتر ہے۔ (۶۳)
حافظ صاحبؒبہ حیثیت شاعر:۔
حضرت حافظ صاحبؒ کو شعر وسخن سے بھی دلچسپی تھی۔ غزلیں اور رباعیاں بہت اچھی کہتے تھے۔ مشتاقؔ تخلص تھا۔ ایک غزل ملاحظہ ہو
دلم بر بود جانا نے کہ آنی دلستاں دارد
شکر لب خندہ نمکینی خمار میکشاں دارد
چوگل رخ نرگسیں چشمے بر دیش سنبلی زلفے
لب نازک ترا زلا لئہ  قدسرو رواں دارد 
کہ از تمکین نمی  پر سد زحال زار من دلبر 
خدایا مہرباں سازش کہ دل سنگیں چناں دارد 
ازیں نا مہرباں شوخی چہ آسایش دہد وستم 
کہ باکم التفاتے ہازمن خاطر گراں دارد 
بکیش دلبری شاید روا دارد دل آزاری 
کہ ازمژگان زند پیکاں ازا بر وکماں دارد 
متاع صبر از دلیا کند غارت بیک لمحہ 
مگر در گوشہ وچشمے چنیں ہامرد ماں دارد
بیا مشتاقؔ زیں بگذر تو خاکپائے سلیمان شو
کہ ہر کس از جمال  اوکمال بیکراں دارد
وصال :۔
حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آخر عمر میں فالج کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ رفتہ رفتہ مرض اس قدر بڑ ھ گیا کہ ہاتھ پاؤں بے کار ہوگئے ، عبادت میں بھی بہت دقت ہونے لگی تو فرمایا، جسم بھاڑے کاٹٹوتھا آخر ساتھ نہ دیا (۶۴)، ماہ ذی قعدہ (۱۲۶۶ھ )کو وصال فرمایا، کھیری میں سپرد خاک کیے گئے۔ 
خلفاء:۔
حـضرت حافظ صاحبؒ کے تین خلیفہ صاحب سلسلہ اور صاحب ارشاد ہوئے۔ (۱) مرزاسرداربیگ ؒ (۲) شاہ حبیب شاہؒ(۳) مولاناحسن الزماںؒ ، یہ تینوں بزرگ حیدرآباد میں رہے اور وہیں سلسلہ کی اشاعت اور تو سیع کاکام کیا مولاناحسن الزماں صاحبؒ جید عالم اور بڑے پایہ کے محدث تھے ۔ انہوں نے حضرت شاہ فخرالدین صاحبؒ کی مشہور کتا ب فخرالحسن کی ضخیم شرح عربی زبان میں ’’ القول المستحسن فی شرح فخر الحسن ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ علاوہ ازیں انہوںنے علوم اہل بیت کے نام سے ایک کتاب چوبیس جلدوں میں تصنیف فرمائی تھی جس میں انہوںنے اہل سنّت کا اثبات ، روایات اہل بیت سے کیا  ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کا بندو بست نواب محبوب علی خاں نے کیا تھا ۔ لیکن صرف ایک جلد طبع ہو نے پائی تھی کہ نظام کا انتقال ہوگیا اور وہ کام نامکمل رہ گیا۔ 
(ماخوذ:۔انواراصفیاء ص۵۵۱تا۵۶۰، ادارہ تصنیف وتالیف شیخ غلام علی اینڈسنسز، لاہور، پاکستان ،۱۹۸۵؁ء)
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱)تذکرہ اولیائے دکن ، جلداول، ص۳۰۸
(۲)مناقب حافظیہ ، ص۹۳،۹۴
(۳)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۴)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۵)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۶)مناقب حافظیہ ص۹۹
(۷)مناقب حافظیہ ص۹۹
(۸)مناقب حافظیہ ص۱۲۱
(۹)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۱۰)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۱۱)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۲)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۳)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۴)مناقب حافظیہ ص۱۵۳
(۱۵)مناقب حافظیہ ص۱۰۸
(۱۶)مناقب حافظیہ ص۱۳۱
(۱۷)مناقب حافظیہ ص۱۷۷
(۱۸)مناقب حافظیہ ص۲۰۴
(۱۹)مناقب حافظیہ ص۱۰۹
(۲۰)مناقب حافظیہ ص۱۲
(۲۱)مناقب حافظیہ ص۱۱۰
(۲۲)مناقب حافظیہ ص۱۱۲
(۲۳)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۲۴)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۲۵)مناقب حافظیہ ص۱۳۶
(۲۶)مناقب حافظیہ ص۱۴۸
(۲۷)مناقب حافظیہ ص۱۷۷
(۲۸)مناقب حافظیہ ص۲۱۲
(۲۹)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۰)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۱)مناقب حافظیہ ص۱۶۳
(۳۲)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۳)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۴)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۵)مناقب المحبوبین ص۳۵۷
(۳۶)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۷)مناقب حافظیہ ص۱۱۶
(۳۸مناقب حافظیہ ص۲۱۴
(۳۹)مناقب حافظیہ ص۲۵۶
(۴۰)مناقب حافظیہ ص۲۵۶
(۴۱)مناقب حافظیہ ص۱۱۶
(۴۲)مناقب حافظیہ ص۱۰۲
(۴۳)مناقب حافظیہ ص۱۰۲
(۴۴)مناقب حافظیہ ص۱۰۳
(۴۵)مناقب حافظیہ ص۱۰۳
(۴۶)مناقب حافظیہ ص۱۶۷
(۴۷)پیرملانی  ص۵
(۴۸)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۴۹)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۵۰)مناقب حافظیہ ص۱۲۸
(۵۱)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۵۲)مناقب حافظیہ ص۵۴۔۵۵
(۵۳)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۴)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۵)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۶)مناقب حافظیہ ص۱۵۵
(۵۷)مناقب حافظیہ ص۱۵۵
(۵۸)مناقب حافظیہ ص۱۵۸
(۵۹)مناقب المحبوبین  ص۳۵۷۔۳۵۸
(۶۰)مناقب المحبوبین ص۳۵۷۔۳۵۸
(۶۱)مناقب حافظیہ ص۲۶۰
(۶۲)مناقب حافظیہ ص۲۶۰
(۶۳)مناقب حافظیہ ص۲۹۱
٭٭٭
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی   کے ننھیالی جد حضرت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے ننھیالی جد حضرت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
 کے ننھیالی جد
حضرت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری

نام ونسب:۔
آپ کا اسم گرامی غلام رفاعی عرف محمدرفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن محمد تاج الدین ہے۔ سلسلہ نسب چھتیسویں واسطے سے امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتاہے  اس طرح آپ فاروقی النسب ہیں۔ 
تاریخ انوارالقندہار میں آپ نے اپنے حسب ونسب سے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ
’’ حضرت سید نا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت سید نا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے منسوب تھیں، جن کی اولادمیں سے ہم ہیں، اس طرح ہم حضرت سیدنا عمرؓ کی اولاد اور حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی آل سے ہیں۔ ‘‘
شجرہ نسب:۔
غلام رفاعی عر ف محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن قاضی محمد تاج الدین ابن قاضی عبدالملک ابن قاضی محمد تاج الدین کلاں ابن محمد قاضی کبیر ابن قاضی محمود بن قاضی کبیر بن قاضی محمود بن قاضی احمدبن شیخ محمد بن شیخ یوسف بن زین الدین بن نورالدین بن محمد شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن شیخ اسحاق بن شیخ مسعودبن بدر الدین بن محمد سلیمان بن شیخ شعیب بن شیخ محمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کابلی بن محمد اسحاق بن شیخ مسعود بن عبداللہ واعظ اصغر بن عبداللہ واعظ اکبر بن ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بن حضرت سیدنا عمربن الخطاب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ۔
ولادت باسعادت:۔
قصبہ قندہار شریف میں بتاریخ ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۱۶۴؁ھ پنجشنبہ کی صبح بعد نماز فجر آپ کی والدہ ماجدہ جوصالحہ اور عابدہ تھیں اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت حاصل فرمائی تھیں ، تلاوت قرآن میں مصروف تھیںکہ آپ کی ولادت باسعادت بعد ختم تلاوت عمل میں آئی۔
واقعات ولادت:۔
آپ کے والدین کو ایک عرصہ تک اولاد نہ ہوئی آپ کے والدبزرگو ار حضرت محمد شمس الدین ابن حضرت محمدتاج الدین جومرد صالح تھے اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ میں بیعت حاصل کرچکے تھے اور حضرت مخدوم قدس سرہٗ کے نہایت معتقد تھے۔ دھانورہ کے جاگیر دار اور قاضی بنولہ تھے۔ بہ نیت فرزند حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم  قدس سرہ‘کے روضہ مبارکہ کی مسجد میں معتکف تھے کہ حضرت سیدناحاجی سیاح سرور مخدوم قندہاری قدس سرہ‘ نے عالم رویا میں آپ کو بشارت دی کہ تجھے ایک فرزند باکمال وصاحب باطن تولد ہوگا، اور اس کا ہمارا نام رکھنا ، چنانچہ بموجب بشارت آپ کی والدئہ ماجدہ کے ایام حمل کی تکمیل کے بعد تاریخ مذکورہ پر آپ کے دادا حـضرت تاج الدین ؒ کی حویلی میں آپ کی ولادت ہوئی ، اور بموجب حکم حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ‘ آپ کا اسم گرامی غلام رفاعی عرف محمد رفیع الدین رکھاگیا۔ 
عہدطفلی:۔
بچپن ہی سے بزرگی کے علامات چہرہ مبارک سے ظاہر تھے اور ابتداء ہی سے آپ کی نسبت بطریق اویسیہ حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہٗ سے قائم تھی چنانچہ حضرت مخدوم ؒ کے مزار فیض بار سے بعہد طفلی ہی آپ بہرہ ورتھے۔ علم رویاء میں حضرت سیدنا مخدوم سرور قدس سرہ‘ نے آپ کو ایک کتاب عنایت فرمائی اور مشغول بذکر یاد مسمی فرمایا آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ان ہی دنوں سے آپ کی نسبت اویسیہ جاری ہے ۔ وقتاًفوقتاً ضروری اشارات اور احکام آپ کو حضرت مخدوم سرورقدس سرہ‘ کی بارگاہ سے ملتے رہے۔ 
کم عمری میں ایک مرتبہ جب آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کی درگاہ شریف پہنچے تومزار مبارک سے آواز آئی کہ یہ تمہارے کھیلنے کی عمر نہیں ہے علم حاصل کرنے کیلئے اورنگ آباد جاؤ چنانچہ تحصیل علم کیلئے حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کے حکم پر آپ اورنگ آباد تشریف لے گئے۔ 
تحصیل علم:۔
ابتدائی تعلیم والدبزرگواراور دیگر مقامی علمائے قندہار سے تاشرح ملائے جامیؒ حاصل فرمائی، مزید تعلیم کے حصول کیلئے اورنگ آباد تشریف لے گئے اور حضرت سید قمرالدین اورنگ آبادی علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے اورنگ آباد کی خدمت میں رہ کر استفادہ فرمایا اور تاحاشیہ بیضاوی وغیرہ کی تعلیم تمام فرمائی۔ اورنگ آباد میں نو(۹) سال کی مدت تک آپ کا زمانہ طالب علمی جاری رہا۔ ویسے آپ بچپن ہی سے نہایت ذکی تھے۔لیکن تحصیل علم میں آپ کی دلچسپی ویکسوئی کا یہ عالم تھا کہ روایت مشہور ہے بزمانہ طالب علمی وطن سے جو بھی خطوط آپ کو موصول ہوتے ان کو ملاحظہ نہ فرماتے بلکہ محفوظ فرمادیتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ خطوط پڑھنے سے وطن اور خاندان کے حالات وواقعات معلوم ہونے پرتعلیم سے توجہ ہٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ بزمانہ طالب علمی اورنگ آباد میں جس حجرہ میں آپ نے قیام فرمایا تھا وہ ’’حجرۃ الرفیع‘‘ کے نام سے موسوم اور کچھ عرصہ پہلے تک آپ کی یادگار کے طور پر باقی تھا۔ روایت ہے کہ بزمانہ طالب علمی اورنگ آباد میں اکثر آپ راتوں میں تن تنہا روضہ بیگم تشریف لیجاکر اس قدر روتے کہ صبح میں علامت اشک زمین پر دکھائی دیتے ۔ چنانچہ مقامی لوگوں میں اس بات کی شہرت تھی۔ بسلسلہ تحصیل علم اورنگ آباد کا یہ طویل قیام آپ کی سوانح میں بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت مولانا سید قمرالدین اورنگ آبادیؒ کی فیض صحبت میں آپ کے طویل قیام کی وجہ حضرت موصوف سے آپ کوانتہائی انس وعقیدت ہوگئی تھی۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مولانا قمرالدین اورنگ آبادیؒ اور حضرت شاہ محمد عظیم الدین بلخی علیہ الرحمہ سے آپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں نعمت پائی اور ذکر واشغال کے طریقے سیکھے اور اجازتیںحاصل فرمائیں۔ آپ کی تالیف ’’وظائف الصالحین‘‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ جس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت والدی ومرشدی قبلہ گاہی ؒکے پاس محفوظ ہے۔  وہی زمانہ تھا کہ آپ مولوی میر غلام علی آزاد بلگرامی کی طرزنگارش سے متاثر ہوئے ا سکی وجہ یہ ہوئی کہ میر موصوف کو حضرت مولانا سید قمرالدین اورنگ آبادی علیہ الرحمہ سے نہایت نیازمندانہ ربط ضبط حاصل تھا۔ حضرت مولاناسید قمرالدین علیہ الرحمہ اور میرموصوف بیس بیس روزتک اورنگ آباد کے باغات کی سیر کے لئے جاتے تھے، چنانچہ آپ بھی استاد محترم کی اتباع میں ساتھ رہتے ۔ اس طرح میر غلام علی آزاد بلگرامی کی صحبت میں رہنے کا زیادہ اتفاق ہوتا ان کے مسلک سے متاثر ہو کرآپ نے بھی نثر نگار ی میں وہ ادیبانہ شان پیدا فرمائی کہ آپ کی نثرمیں انتہائی شیرینی پائی جاتی ہے۔ آپ نے حضرت قاضی شیخ الاسلام خاں سے عربی ودیگر علوم کی تحصیل وتکمیل فرمائی اور یہا ں آپ کو مولانا کا لقب ملا۔ پھر سورت میں حضرت خیرالدین مرحوم سے بخاری شریف اور تحقیق مسائل حق وسلوک کی تکمیل فرمائی ۔ من بعد مکہ معظمہ اورمدینہ طیبہ میں رئیس المحققین حضرت محمد بن عبداللہ مغربی اور دیگر علماء مشائخ ومحدثین وقت کہ جو ، حرمین شریفین میں موجود تھے ان سے صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عملاً استفادہ فرمایااور تجوید وقراء ت قرآن سیکھ کر سندحاصل فرمائی اور اپنے وقت کے متبحر عالم اوریگانہ روزگارہوئے۔ آپ نے اپنی کتاب ’’انوار القندہار‘‘ میں اپنے اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر جس طرح بزبان فارسی فرمایا ہے اس کو من عن یہاں درج کیا جاتا ہے جس سے آپ کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے اور آپ کے اساتذہ کے اسمائے گرامی کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ 
’’در قندہار ازسید شاہ عبدالرسول اوائل ابجد وازحضرت قبلہ گاہی قرآن شریف وکتب فارسیہ ونوشت وخواندازشاہ محمد مرحوم واخوی محمد قطب الدین مرحوم وسید چاند مرحوم گلستان وازعموی قاضی محمدسراج الدین سکندر نامہ وابوالفضل واصلاح خط ہم واز اخوی محمدبرہان الدین مرحوم ومحمد امان اللہ سلمہ اللہ تعالی کتبِ صرف ونحو وبعضے فقہ وازمولوی مراد قندہاری ومولوی شیخ احمد بسمت نگری قدرے نحو وکتب فارسی ودراورنگ آباد ازحضرت سید مجاہد وحضرت سید نورالعلی درشرح ملا سبقے چند واز میرانوارلدین اکثرشرح ملا وشرح تہذیب وغیرہ رسالہ ہائے منطق وازمولوی معین الدین بعضے ازقطبی وازمولوی قادر علی شریفی فرائض وشرح مطالع واز مولوی محمد داور ناظم طغری  وازمولوی محمد مراد عرفی وغیرہ وازمحمد عثمان خوشنویس اصلاح خط شکستہ وازمولوی قدرت اللہ بلیغ تخلصؔ ناصرعلی ودوا دین اشعار وازحضرت غلام نورقدس سرہ‘ مثنوی شریف وغیرہ رسالہ علم حقائق وتسویہ ، قاضی محب اللہ وسلم زاہدین معہ حواشی واز سیدنورالہدی ازقطبی تااین جامراد تمام کتب تحصیلی واز زبدۃالعلماء قاضی شیخ الاسلام خاں ہدایہ فقہ وحاشیہ قدیم معہ حواشی وبیضاوی شریف و دربندر مبارک سورۃ بخاری شریف وتحقیق ِمسائل حق وسلوک ازحضرت مولوی خیرالدین مرحوم ومغفور و در مجلس مولوی میر عبداللہ ومولوی ولی اللہ مرحومین جہت سماعت حدیث وغیرہ تیمناً دوچار بار حاضر گشتیم ودرمدینہ منورہ مقدسہ ازحضرت محمد بن عبداللہ المغربی ثم المدنی درمسجد شریف نبوی بخاری شریف قرأۃ سند نمودہ اجازت صحاح ستہ ومشکواۃ المصابیح ومسندامام احمدبن حنبل وموطاء امام مالک ودلائل خیرات گرفتہ شدحق تعالی تمام استاد ہائے ماراکہ آسامی مبارک ایشان قلمے است و۱زہرکسے کہ گرفتہ باشم جزائے خیردہد وخاتمئہ ایشاں وجمیع امت مرحومہ بخیر گرداند۔‘‘
بحیثیت محدّث:۔
مدینہ طیبہ میںدوران قیام آپ نے اپنا درس حدیث مسجد نبوی ﷺ میں جاری فرمایا اور وہاں لوگوں نے آپ سے حدیث  پڑھکر سندیں حاصل کیں ۔ کتاب’’ وسائل الو صول شمائل الرّسول‘‘مطبوعہ بیروت میںمؤلف کتاب نے سندحدیث تحریرکی ہے۔ جوآپ ہی کے سلسلہ کی ہے۔ مؤلف کتاب کے شیوخ نے مدینہ منورہ میں یہ سند آپ سے پڑھ کر حاصل کی تھی، اسی سلسلہ سے علامہ نبہانی جو جامعہ ازہرمیں شیخ الحدیث کے عہد ہ پر فائز رہے۔ اسی سند حدیث کے حامل تھے(۱)  اس طرح آپ کے سلسلے کی سند حدیث جامعہ ازہر سے جاری ہوئی ۔ ہندوستان کے علمائے فرنگی محل سے حضرت عبدالباقی مہاجر فرنگی محلی کے شیوخ نے اپنے تلامذہ کو آپ ہی کے سلسلہ کی سندحدیث دی ہے، چنانچہ اکابر علمائے عرب وعجم آپ کے  سلسلہ کی سند حدیث کے حامل رہے۔ اوریہی وہ آپ کے عظیم الشان دینی خدمات بلاد عرب وعجم میں تھے کہ جس کی وجہ آپ شیخ العرب والعجم کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ آپ کے سلسلے کی سندحدیث اکابرعلماء کے نزدیک ثقہ اور مرجح سمجھی گئی ہے۔ سندحدیث آگے کتاب کے اس حصہ میں مذکور ہوئی ہے۔ جو شجرہائے طریقت اسناد اور اجازت نامہ جات کیلئے مخصوص ہے۔ اگرچہ وہب وعطا کی نعمت سے بہ نسبت اویسیہ و بہ استفادئہ روحانیت حضرت سید نا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ آپ عہد طفلی ہی سے مالامال تھے۔ لیکن کسب کے راستے کو بھی آپ نے نہیں چھوڑا اور علم ظاہر وعلم باطن کے حصول میںکوئی کسراٹھانہ رکھی۔ 
فن شعروسخن:۔
بزمانہ شباب آپ مشق سخن  فرماتے تھے۔ آپ کا تخلص نطقؔ تھا۔ اورعروض میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ کے طبع موزوں سے چند شعر جو مختلف تواریخ میں پائے گئے ، بطور نمونہ کلام درج ذیل ہیں، 
بیا بیاکہ شہید توبے دفن باقیست
برنگ شمع بفانوس در کفن باقیست
زروئے لطف بکس بوسہ دادئہ شاید
کہ ہمچو شبنم گل نقش بردہن باقیست 
سپندو ارز سوز تونالہ ہا کردیم 
سخن تمام شدو آخریں سخن باقیست 
یار در بردارم و مشتاق دیدارم ہنوز
 میدہی اے دل چرا ازوصل آزارم ہنوز
خواندہ ام برلوح دل حرف تجلی کسے 
محواز خودگشتہ ام محتاجِ تکرارم ہنوز 
الٰہی بازبنماروئے آں ابر وہلالی را
منور کن چوروز عیدایں غمگیں لیالی را
 زپا مال خلائق از گراں خوابی نمیخیزد 
فتادہ سایہ بریختم مگر تصویر قالی را
روایت ہے کہ شاعرانہ مشغلہ آگے جاری نہ رہ سکا اور حضرت شیخ المشائخ ، وحید العصر، قطب الدہر ،عارف باللہ سیدنا خواجہ رحمت اللہ (نائب رسولﷺ) قدسرہ‘ کی فیض صحبت میں آپ کا ذوق ہی بدل گیا چنانچہ اس کے بعد نہ صرف آپ نے شعر گوئی ترک فرمادی بلکہ اپنے سابقہ سرمایہ شاعری کو بھی تلف فرمادیا۔ 
اخلاق وعادات اوقات وحالات:۔
آپ کی طبیعت میں غیر معمولی حلم سنجیدگی اور بردباری تھی۔ فضول گوئی سے تنفر تھا اور کبھی مبالغہ آمیز گفتگونہ فرماتے مریدین معتقدین کی کثرت کے باعث جیسے بھی آپ کے مصروفیات ہوں گے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجو د آپ کا معمول تھا کہ نصف شب کو بیدار ہو کر مسجد تشریف لاتے ، تہجد کی نماز ادافرماکر فجر تک  مسجدمیں مراقب تشریف فرمارہتے۔ اور پھر نمازفجرسے فارغ ہو کر اشراق تک مسجد ہی میں مراقب رہتے اور ماسویٰ اللہ سے آنکھ بند رکھتے، نمازاشراق کے بعد دولت خانہ کو تشریف لے جاتے اور نصف النہار تک بزرگوں کی حکایات و روایات سنا کر حاضرین کی ضروری تربیت فرماتے ۔ پھر انکے ساتھ کچھ تناول فرماتے اور قیلولہ فرماتے پھر اول وقت ظہر اُٹھ کر مسجد تشریف لاتے نمازظہرادا فرماکر نمازعشاء تک مسجد سے قدم باہر نہ نکالتے۔ بعد نماز عشاء گھر تشریف لے جاکر حاضرین کے ساتھ کچھ تناول فرماتے ۔ ہمیشہ باوضو رہتے وضو کے بعد دورکعت تحیتہ الوضو ادافرماتے ۔ چوبیس گھنٹے غیر حق سے آنکھ بند رکھتے اور دوام مراقبہ کی کیفیت رہتی ۔ آپ کے مناقب میں لکھا ہے کہ اگر (۱۰۰سو)آدمی آپ کی مجلس میں حاضر رہتے تو تمام کو اپنی توجہ سے رجوع بہ حق فرماتے اور ان کی آنکھ غیر کے معاینہ سے بند فرماتے۔  حضرت مولانا ابو سعیدوالاؒ نے اپنی کتاب’’ بحررحمت‘‘ میں لکھاہے کہ دوام مراقبہ کی کیفیت جو خانوادئہ خواجگا ن چشت رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین میں ہم نے سنی ہے، وہی کیفیت آپ کی ذات بابرکت میں دیکھی ہے، اور ان ہی سے روایت ہے کہ بہ سبب نورانیت باطن چہرئہ مبارک مثل آفتاب چمکتا دمکتاتھا ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا امتحان لیا کہ حضرت کا روئے شریف دیکھ سکتا ہوں یا کیا لیکن خود میں وہ تاب وتواں نہ پایا وہ مزید فرماتے ہیں کہ دیگر اشخاص بھی آپ کے روئے شریف کے تعلق سے اسی طرح کہتے تھے ۔ مؤلف تاریخ ’’گلزار آصفیہ ‘‘نے بھی اسی طرح لکھاہے کہ جب وہ معہ حکیم عافیت طلب خان حضرت کی قدمبوسی کا شرف حاصل کئے تو آپکاایک ایسا جمال دیکھا کہ آج تک ایسا جمال نظر سے نہ گذرا اور آپ بمصداق آیت ماھذا بشراً ان ھذا الاّ ملک کریم، جلوہ فرماتھے۔ آپ خدمت خلق کو افضل ترین عبادت خیال فرماتے تھے۔ انتہائی خوش اخلاق بامروت اور منکسر المزاج تھے۔ کمال عجز اور فروتنی کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے کی تعظیم کے لیے جگہ سے اٹھتے۔مؤلف بحر رحمت  نے لکھا ہے کہ گفتگومیں ہرایک کے ساتھ الفاظ میں ایسے آداب ملحوظ فرماتے کہ جو مخاطب کے مرتبہ سے کہیں زیادہ ہوتے ۔ آپ کسر نفسی اور شکستہ دلوں کی پاسداری کو تمام عبادات پر مقدم سمجھتے تھے۔ مولانا ابوسعیدوالاؒ نے لکھا ہے کہ کسی ادنی واعلی کا دل آپ نے نہیں توڑا۔ نام ونمود شہرت وعزت سے بالکلیہ بے نیازتھے۔ آپ کا معمول تھا کہ توجہ فرماتے اس کے بعد ضمارہستی کو اٹھانے کی تربیت فرماتے ۔ اور آخر زمانہ میں مقام تمکین پر فائزہونے کے سبب رسمِ توجہ کو بالکل آپ نے موقوف فرمادیا تھا۔ اور اگر کوئی التجا کرتا توآپ اس کو اپنے خلیفہ حضرت شیخ مدارؒ کے سپرد فرماتے لیکن آخرزمانہ میں آپ کا فیض صحبت بہ نسبت سابق بہت زیادہ ہوگیاتھا۔ باوجودکثرت عبادت وشدت ریاضت سلسلہ درس وتدریس جاری تھا اور سلسلہ تصنیف تالیف بھی جاری رہا۔ آپ کی انگشتری مبارک پر الموت خیر الواعظ یارفیع کندہ تھا۔
مرشد کامل کی طلب:۔
اورنگ آباد میں علم ظاہر کی تکمیل کے بعد دستار فضیلت حاصل فرماکرحسب الطلب والدبزرگوار آپ نے اپنے وطن مالوفہ قندہار شریف مراجعت فرمائی اور کچھ مدت قندہار میں قیام کے بعدبموجب استخارہ و اشارہ حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ، مرشد کامل کی طلب میں رحمت آباد شریف تشریف لے گئے اور حضرت شیخ المشائخ وحید العصر قطب الدہر سید نا خواجہ رحمت اللہ نائب (رسول اللہ ﷺ) قدس سرہ، کے آستان عرش آشیاں پر پہنچے حضرت ممدوح سے نیاز حاصل ہونے کے دوسرے روز حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے  آپ سے ارشادفرمایا کہ تمہارے بارے میں محمد علی خاںبہادر والاجاہ کو لکھ دیتاہوں خط لیکر ان کے پاس جائیں وہ ہر طرح تمہارے ساتھ معقول سلوک کرینگے ۔ یہ سنکر آپ کو نہایت رنج ہوا اور آپ نے عرض کی کہ غلام کے بزرگوں نے جو معاش پیدا کررکھی ہے وہ بندہ کے احتیاج سے زیادہ ہے لیکن اس کو اپنے حق میں حرام سمجھتا ہے اور محض تربیت باطن کی توقع پر حسب الاشارہ ہادی اشباح وارواح محمدسیاح قدس سرہ، آنجناب کے آستان عرش آشیاں تک خود کو پہنچایاہے۔ جو نہی آپ کا معروضہ سماعت فرمایا حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے بے اختیار رونا شروع فرمایا اور ارشاد فرمایا بارک اللہ ، لوگ ان دنوں آتے ہیں جن میں بعض سفارش کی غرض سے اور بعض برائے اجازت عمل تسخیر اور بعضے نسخہ کیمیاء کی طلب میں بیعت کرتے ہیں، چنانچہ فقیراسی طرح خیال کیا پھر حضرت سیدنا خواجہ علیہ الرحمہ نے آپکو اجازت دوگانہ رویت رسول اللہ ﷺ مرحمت فرمائی، اور فرمایاکہ رات میں عمل کریں۔ حقیقت واقعہ فراموش نہ کریں اور صبح میں تفصیلاً بیان کریں چنانچہ اس عمل کے بعد آپ کی تفصیل جیسا کہ خود آپ نے تحریر فرمائی حسب ذیل ہے۔
خواب اوررویت النبی   ﷺ:۔
آپنے اس عمل کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک صحرائے عظیم میں تنہاہیں اور ایک ہولناک شخص درازقامت سیاہ رنگ آپ کا قصد کیا ہے اور آپ اس سے حیران ہیں۔ ناگاہ بزرگوں کی ایک فوج اسی وقت تیزتیز آئی اور اس شخص ہولناک کو اس فوج نے شمشیروں اور لکڑیوں سے مارکر ٹکڑے ٹکڑے کردیا آپ نے دریافت کیا کہ یہ فوج کونسی ہے، کہنے لگے کہ یہ آنحضرت  ﷺ کا جلوخاص ہے اور آنحضرت  ﷺ بھی تشریف لارہے ہیں۔ جب یہ بات سنی تو آپ نہایت خوش حال ہوگئے اور اس مبارک ومعلّٰے فوج کے کنارہ کھڑے ہو گئے ۔ مختلف اقسام کے بزرگ فوج درفوج گذرتے گئے ، ناگاہ سواری مبارک آنحضرت ﷺ ظاہرہوئی اور آنحضرت ﷺ تخت پر تشریف فرماتھے۔ اور لوگ اطراف اس تخت کو پکڑے ہوئے تھے۔جب تخت مبارک آپ کے نزدیک پہنچا آپ نے آداب بجالایا اور نہایت تضرع کیا۔ آنحضرتﷺ نے نگاہ شفقت وتبسم آپ کے حال پر مرحمت فرمایا اور ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ آپ کو حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ کے پاس لیجائیں اور تخت مبارک گذر گیا۔ آپ رخصت ہو کر اس شخص کے ہمر اہ حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ، کی طرف راہی ہوئے ، راستہ کاایک حصہ قطع کئے ایک باغ میں پہنچے جس کے اوصاف خارج از احاطئہ تحریر وتقریر تھے اور درمیان باغ چبوترہ تھا بہت ہی مطبوع اور اس پر حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ، تشریف فرماتھے ان کے گرد اگرد چند بزرگ مراقب حلقہ کئے ہوئے تھے۔ اور حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ، کی صورت آپ کو خوب یاد تھی، سرخ رنگ ، سفید ڈاڑھی ، میانہ قد اور گرد چہرہ رکھتے تھے اور وہ سفید لباس میں ملبوس تھے، نورانیت باطن کے سبب آفتاب کے مانند روشن نظرآرہے تھے۔ آپ کے ساتھی شخص نے آپ کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قریب لے جاکر کہا کہ ان کو جناب سرور عالمیان علیہ الصلواۃ والسلام نے تمہارے پاس بھیجاہے ۔ حضرت عبدالخالق غجدوانی ؒ متوجہ ہو کر آپ کو اپنے سامنے طلب فرمائے ، جب آپ درمیان حلقہ بزرگان مراقبین متصل حضرت عبدالخالق ؒ پہنچے، باشتیاق تمام اپنے سر کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قدم مبارک پر رکھدیئے۔ حضرت عبدالخالق ؒنے آپ کے سر کواپنے دست مبارک سے اٹھا کر آپ کو سرفرازفرمایا اور ایک چیزارشاد فرمائی کہ جس کے اظہارکی  اجازت نہیں تھی، جب بیداری کے بعد آپ اس واقعہ کو حضرت مرشد کی خدمت میں عرض کئے تو حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ تم کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بہر ہ کلی حاصل ہوگا۔ کہ بموجب حکم جناب رسالت پناہ ﷺ جناب عبدالخالق ؒ جو رئیس نقشبندیاںہیں، تمہاری طرف بہت متوجہ ہیں اس کے بعد اس رویت نبوی ﷺ کے طفیل میں بہت بشارت میسر ہوئی چنانچہ آپ نے لکھا ہے اس کا تحریر کرنا طولانی ہے اور برائے ادائی شکروتیمن اس محل میں اسی قدر کافی ہے۔ 
بیعت وخلافت:۔
اس کے بعد آپ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے دست حق پر ست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سلسلہ قادریہ، سلسلہ عالیہ چشتیہ اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ وغیرہ میںبیعت سے مشرف ہوئے اور ایک سال تک رحمت آباد میں حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کرتمام منازل سلوک طئے فرمائے اور پھر طریقہ عالیہ قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ ، رفاعیہ ، سہروردیہ ، شطاریہ، مداریہ، وغیرہ معہ اصول وفروعہ میں خلافت واجازت عامہ ومصافحہ حاصل فرمایا اورتمام اشغال واعمال طرق موصوفہ میں پوری تلقین اور توجہ پاکر بہ اجازت حضرت خواجہ علیہ الرحمہ مراجعت فرمائی ۔ جہاں علم ظاہرمیں زبردست کمال حاصل تھا وہیں علم باطن میں آپ کو بہرئہ کلّی حاصل ہوا۔
سفرحجازمقدس:۔
اثنائے راہ میں بعض اس فن شریف کے طلباء کی تربیت کی خاطر پانچ سال حیدرآباد میں قیام فرمایا اور پھر مکہ معظمہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ فریضئہ حج وزیارت سے فارغ ہو کر تین سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور رئیس المحققین حضرت محمد بن عبداللہ مغربی وغیرہ مشائخ ومحدثین وقت کہ جو حرمین شریفین میں موجود تھے۔ ان سے صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عملاً استفادہ فرمایا اور تجوید وقرأت قرآن سیکھ کر سند حاصل فرمائی آپ نے دو دفعہ حرمین شریفین کا سفر اختیار فرمایا او رمدینہ طیبہ میں درس حدیث کاسلسلہ جاری فرمایا تھا۔ آپ کا سلسلہ طریقت بھی مدینہ طیبہ میںجاری ہو ا چنانچہ آپ کے ایک خلیفہ حضرت مولانا عبداللہ مکی علیہ الرحمہ مدینہ طیبہ میں تھے ۔ حرمین شریفین کی حاضری آپ کے لئے نہایت مبارک ثابت ہوئی۔ چنانچہ شب جمعہ حطیم کعبہ میں آپ حاضر تھے کہ آپ کو بشارت ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک قلمدان برآمدہوا، اور آپ نے بشاد مانی تمام ان دونوں کو لے لیا۔ پھرایک بزرگ نے آوازدی کہ یہ کتاب اور قلمدان جناب رسالت مآب ﷺ کی طرف سے تجھ کوعنایت ہواہے، مبارک ہو، چنانچہ اس بشارت کی تفصیل آپ نے ثمرات المکیہ کے مقدمہ میں تحریر فرمائی ہے۔ اس بشارت کے بعد آپنے مکہ معظمہ ہی میں کتاب ’’ثمرات المکّیہ ‘‘ کی تالیف آغاز فرمائی او روہیں  ۱۱۹۸؁ھ میں پایہ تکمیل کوپہنچایا جو آپ کے سلسلہ کی نہایت اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کے قدیم قلمی نسخے حضرت والدی مرشدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔
مدینہ طیبہ میں نہ صرف آپ کے علم ظاہر کے سلسلے جاری ہوئے بلکہ علم باطن کے سلسلے بھی پھیلے، چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ مولاناانوار اللہ خان بہادر المخاطب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ حیدرآباد کن ، آپ کے حقیقی نواسہ حضرت حافظ شجاع الدین علیہ الرحمہ کے صاحبزادہ تھے۔ جب حج وزیارت کے لئے مکہ معظمہ ومدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں دوران قیام کسی ضیافت کے موقع پر شجرہ طریقت سننے کا اتفاق ہوااور کچھ شیوخ کے اسمائے گرامی  کے بعد آپ کا اسم گرامی عن شیخ رفیع الدین قندہاری الدکنی پڑھا گیا جس پرمولانا انواراللہ خان بہادرکو تعجب ہوا اور تقریب کے اختتام پر مولانا انواراللہ خان بہادر نے میزبان شیخ سے دریافت فرمایا کہ یہ سلسلہ حضرت مولانا رفیع الدین قندہاری الدکنی قدس سرہ، کا یہاں کیسے پہنچا ، میزبان شیخ نے فرمایا ’’ہوشیخ العرب والعجم‘‘ (وہ عرب اور عجم کے شیخ ہیں) پھر تفصیل بتلائی کہ جب حج وزیارت کے لئے آکر آپنے یہاں قیام فرمایا اس وقت آپ کے سلسلے یہاں پھیلے ۔ مولانا انوار اللہ خاںبہادر نے بعد واپسی حج حیدرآباد میں لوگوں سے یہ واقعہ تعجب کے ساتھ بیان کیا۔
تعمیر خانقاہ شریف:۔
حرمین شریفین سے واپسی پرآپ نے ایک خانقاہ بنام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام ، حضرت سیدنا غوث الثقلین اور حضرت سیدنا شاہ نقشبند رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تعمیر کروائی۔ جس میں فقراء مساکین ، ومریدین ، وطلباء، کی تعلیم وتربیت ذکرو شغل، قیام وطعام کی سہولت مہیا تھی ۔ آج بھی یہ خانقاہ اندرون احاطہ درگاہ شریف بہ قصبہ قندہار موجودہے۔ 
سلسلہ درس وسلسلہ رشدوہدایت:۔
تاریخی روایات کے بموجب آپکے مریدین و معتقدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر بھی آپ کے تدریسی مشاغل جاری رہے۔ اور آپ کی خانقاہ شریف سے پڑھ کر اکابر علماء نکلے جیسے حضرت مولانا امین الدین کثرتؔ علیہ الرحمہ جو آپ کے شاگرد اور خلیفہ بھی تھے۔انہوں نے اپنی تصنیف ’’فوائدکثرتؔ‘‘کے دیباچہ میں اپنی شاگردی کی نسبت آپ سے اسطرح ظاہر کی ہے ’’کہ ازآغاز صبح یوم التمیز تاحال کہ سنہ ثانیہ است ازقرن ثانی ازوالدماجد خود خصوص ازبعضے اساتذہ ملایک تلامذہ مثل بہارؔ گلشن معرفت عندلیبؔ بوستان طریقت شیرؔ بیشہ اتقاء وبب نیستان اھتداء ،مرجع نشین ارایک فضیلت ومتکادہ چار بالش افادیت وافاضت خورشیدؔ آسمانِ سرایر ربانی شہباِزاوج فیوضات سبحانی، شمع جمیع ارباب حق ویقین، حضرت مولوی رفیع الدین مداللہ ظلال جلال کمالہ علی مفارق الطالبین‘‘۔
لاکھوں اشخاص نے آپ کی ذات بابرکات سے فیض پایا جو بھی آپ کی صحبت پایا، درجہ کمال کو پہنچا اور جوبھی آپ کے جمال باکمال کی زیارت سے مشرف ہوا، وہ آپ کا سایہ دار ملازم ہوا اور آپ کے دامان دولت سے وابستہ رہا ، ہم عصر بزرگوں نے آپ کوشیخ وقت اور افضل المتاخرین لکھا ہے۔ 
سفروقیام بلدہ حیدرآباد:۔
دومرتبہ آپ بلدہ حیدرآباد رونق افروز ہوئے پہلی دفعہ جب تشریف لا کر مکہ مسجد میں قیام فرمایا شہر میں آپ کی باکمال شخصیت آپ کی بزرگی اور تقدس کا شہرہ ہوا ۔ لاکھوں آدمیوںنے آپ سے بیعت کا شرف حاصل کیا لوگوں کا اس قدر اژدھام تھاکہ فرداً فرداً بیعت لینا محال تھا۔ چنانچہ آپ نے عمامہ کا ایک سرااپنے دست مبارک میں تھام رکھا تھا اور لوگ جو ق درجوق اس عمامہ کو چھو کر داخل سلسلہ ہورہے تھے۔ آپ کے اس سفر حیدرآباد کا حال تواریخ میں لکھا ہے چنانچہ آپ کی ذات بابرکات کی جب کافی شہرت ہوئی تو اسکی اطلاع اعظم الامراء ارسطوجاہ تک پہنچی جو اس وقت مدار المہام تھااس نے چاہا کہ آپ سے نیازحاصل کیا جائے اور آپ کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ جواب دیا کہ ’’میں جس علم کا خدمت گذارہوں اس کااقتضاء یہ نہیں ہے کہ سلاطین وامراء کے دروازوں پر جبیںسائی کروں‘‘ اس جواب سے ارسطوجاہ مکدرہوگیا اور بادشاہ وقت نواب  سکندر جاہ کو یہ عرض کروایا کہ آج کل قندہار سے ایک شاہ صاحب آئے ہوئے ہیں، انہوں نے رعایاکو اپنا اس قدگرویدہ بنالیا ہے کہ اگر چند روز ان کا شہر میں قیام رہے تو اس کا قوی احتمال ہے کہ سیاست ملکی میں خلل واقع ہوا اس معروضہ کی بناء پر فرمان شاہی صادر ہوا کہ مولوی صاحب اپنے وطن مالوفہ قندہار تشریف لے جائیں۔ آپ نماز ظہر ادافرماکر مکہ مسجد تشریف فرماتھے۔ اور لوگوں کازبردست اژدھام تھا، بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ یہ فرمان آپ کو سنایا گیا معاً آپ نے کمبل کندھے پر ڈالی ’’ملک خدا تنگ نیست پائے گدالنگ نیست‘‘ فرمایا اور تشریف لے چلے ہزارہا اشخاص آپ کے ساتھ ہوگئے جو اس واقعہ سے نہایت متاثراور رنجیدہ تھے اور چاہتے تھے کہ ہمیشہ آپکاقیام حیدرآباد میںہوتاکہ یہاں کے لوگ آپ کے فیو ـض وبرکات سے بہرہ ور ہوتے رہیں ، چنانچہ جب آپ پرا نے پل کے دروازہ سے باہر تشریف لے گئے پولیس نے اژدھام کو روکنے کے لئے پل کادروازہ بندکردیا لیکن لوگ جوش عقیدت میں فصیل پر چڑھ کر پارہوئے اور آپ کے ساتھ ہوگئے ۔ آپ نے لوگوںکوسمجھایااور واپس کرنے کی کوشش فرمائی، حضرت حسین شاہ ولی علیہ الرحمہ کی درگاہ شریف تک اژدھام چھٹ چھٹ کر مخصوص لوگوںتک باقی رہ گیا۔ اس درگاہ شریف میں چند دن قیام فرماکر آپ قندہارشریف تشریف لے گئے اور ادھر اچانک اعظم الامراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا۔ اور عہد ئہ مدارالمہامی کا جائزہ میرعالم نے حاصل کیا پہلافرمان شاہی منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ آپ نواب شمس الامراء بہادر امیر کبیر (نواب فخرالدین خاںؒ)کی درخواست اور بہت اصرار پر حیدرآباد دکن رونق افروز ہوئے اس وقت آپ بوجہ ضعیف العمری نحیف ہوچکے تھے۔ اور بصارت ظاہری میں بھی کافی فرق آچکا تھا۔ دوسری مرتبہ تشریف آوری کے موقع پر جبکہ آپ مقبرئہ جان علی خاں مرحوم کے باغ میں قیام فرماتھے۔ مؤلف گلزارآصفیہ خان زمان خان صاحب معہ حکیم عافیت طلب خان آپ کی قدمبوسی سے مشرف ہوئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب گلزار آصفیہ میں کئے ہیں۔اس دوسرے سفرمیں آپ چونکہ لوگوں کے اجتماع واژدھام کو پسندنہیں فرماتے تھے۔ آپکی قیام گاہ پر عوام کی ویسی کثرت نہ تھی بلکہ خاص خاص لوگ ہی حاضرخدمت رہتے پھر وہاں سے نواب شمس الامراء بہادر نے آپ کو شمس آباد لیجا کر ٹھیرایا، تمام خاندان پائیگاہ آپ کے دست حق پر ست پر بیعت سے مشرف ہوا دراصل آپ کے اس دوسرے سفرکی غرض وغایت بھی یہی تھی۔اس کے بعد شمس الامراء بہادر نے شمس آباد جاگیر کی سند بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ ناراض ہوئے، اور فرمایا کہ نواب تم ، ہم کو لالچ دیتے ہو، نواب شمس الامراء بہادر خوف زدہ ہو کر عاجزی کے ساتھ طالب معافی ہوئے۔آپ نے معاف فرمادیا اورارشادفرمایا کہ آیندہ ایسانہ کرنا ، نواب محمدفخرالدین خان شمس الامراء بہادر پر آپ کی بہت عنایت اور شفقت تھی۔ چونکہ نواب موصوف کے بہت اچھے اوقات تھے، صوم وصلوٰۃ کے سخت پابند اور تہجد گذار تھے، ضروری ا وراد وظائف کی بھی پابندی ملحوظ رکھتے تھے۔ اپنے پیر روشن ضمیر سے کمال اعتقاد رکھتے تھے۔ اور ایسے پیر پرست تھے کہ جب ان کو فرزند تولد ہوئے تو ان کا نام اپنے پیر روشن ضمیر کے نام پر محمد رفیع الدین خان رکھا۔ جو بعد میں بڑے بڑے خطابات سے سرفرازہوئے۔ نواب شمس الامراء بہادر کے تمام فرزندان نواب بدرالدین خان تمیز المخاطب رفعت جنگ معظم الدولہ معظم الملک، دوسرے فرزندنواب رشیدالدین خان المخاطب اقتدار الملک ، نواب رفیع الدین خان المخاطب عمدۃ الملک منجھلے میاں سب کو آپ سے بیعت حاصل تھی۔ امیر  کبیر نواب محمد فخرالدین خان شمس الامراء بہادر کو آپ نے خلافت واجازت سے بھی سرفراز فرمایاتھا۔ اور ایک تسبیح مرحمت فرمائی تھی، جس کو شمس الامراء بہادر نے کبھی خود سے جدا نہیں کیا ان کی ہر تصویر میں ان کے سیدھے ہاتھ میں ایک تسبیح لپٹی ہوئی نظرآتی ہے، یہ وہی تسبیح تھی جو آپ نے ان کو مرحمت فرمائی تھی ۔ حیدرآباد کے دوسرے سفر کی دعوت پر آپ نے  فرمایا کہ اب ہماری عمر کے اعتبار سے سفر کی صوبیتں برداشت کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے آنے میں مجبوری ہے لیکن شمس الامراء بہادر نے باصرار معروضہ کیا کہ غلام حضرت کا قدم چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ غلام کا تمام خاندان حضرت کی قدمبوسی کا مشتاق ہے اورحضرت کے دست مبارک پر بیعت حاصل کرنے کا متمنی ہے۔ چنانچہ مجبوراً آپ راضی ہو کر تشریف لائے اور تقریباًایک ماہ حیدرآباد میں آپ کا قیام رہا۔ 
نواب بدرالدین خان تمیز فرزندنواب شمس الامراء بہادر کے مندرجہ ذیل اشعارسے خاندان پائیگاہ کی آپ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہو تاہے۔ 
تب سے اس کے اور بھی رتبہ ہوا آئین کا
جب سے بدر الدیں ہوا بندہ رفیع الدین کا
اک نگاہِ لطف سے جس کے ہے عالم فیضیاب
ہے تصور دل کو اسکی چشم فیض اولین کا
دوجہاں کی بادشاہی ہم کو حاصل ہوگئی
منہ سے نکلا اسکے ایسا حرف اک تسکین کا
دین ودنیا کے ہیں مالک پیر ومرشد اے تمیزؔ 
حامیٔ روزِ جزا ہے کون اس مسکین کا
  ریاست حیدرآباد کے اکثر عمایدین سلطنت کو آپ سے شرف ارادت وبیعت حاصل تھا، اور اکثر اکابرعلماء آپ کے دامان ارادت سے وابستہ تھے۔ آپ کا حلقہ ارادت اجنّاتک وسعت کرگیا تھا چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ایک مرید جوجن تھے آپ نے ان کوان کی خواہش پر انسانی شکل میں اپنی خدمت میں رکھا اور ان کا نام مبارک علی رکھا تھا جو آپ کے وصال تک آپ کی خدمت میں رہے اوراس کے بعد کافی عرصہ تک حضرت قادربی بی پیرانی ماں صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا کی خدمت میں رہے، اور ایک روز سرمیں کچھ چبھنے کی شکایت کی چنانچہ ان کے سر سے کیلا نکالا گیا جس پر یکا یک ان کا قدطویل ہوگیا دریافت پر انہوں نے بتایا کہ وہ اجنا سے ہیں اورحضرت قبلہ قدس سرہٗ نے ان کوانسانی شکل میں رکھاتھا۔ انہوںنے خواہش ظاہرکی کہ وہ چاہتے ہیں کہ مابقی زندگی حضرت قبلہ قدس سرہ، کی درگاہ شریف میں گذاردیں چنانچہ حضرت پیرانی ماں صاحبہ قبلہ کی اجازت  حاصل کرکے رخصت ہوئے اور آج تک بھی قندھار شریف میں مبارک ماموں کے نام سے مشہور ہیں اور کبھی کبھی کسی کو نظر آجاتے ہیں، ایسابھی ہواہے کہ درگاہ شریف میں اگر کسی نے کوئی بے ادبی کی تو انہوںنے اس کو ڈرادیا اور مشہور ہے کہ ہمیشہ درگاہ شریف میں حاضررہتے ہیں۔
اسمائے گرامی حضرت مرشدان طریقت:۔
کتاب’’انوارالقندہار‘‘ میںآپ نے اپنے مرشد ان طریقت کا ا سطرح تذکرہ فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے۔
’’اولاً ازشاہ محمد عظیم الدین بلخی ثم الکھنوی ثم اورنگ آبادی گرفتم ازیشان درطریقہ عالیہ نقشبندیہ ازلطیفہ قلبی تاذکر سلطانی معہ رسوم مشائخ بایں طریق التعین جزاہ اللہ عناخیرالجزا ثانیا ازحضرت مولوی سید قمرالدین اورنگ آبادی قدس سرہ، تکرار رسوم مشائخ نمودہ تقریر اشغال ماخوذہ درطریق نقشبندیہ نودہ تاذکرسلطانی رسایندہ شدو حزب  البحرو غیرہ اعمال بطریق اجازت گرفتم ونورالکریمتین تصنیف حضرت موصوف من اولہ وآخرہ اززبان مبارک سندکردہ ایم تحقیق بلیغ در حال مسلمہ حقایق بایں فقیرا رشاد فرمود ند جزاہ اللہ عنی احسن الخیر ورحمۃ اللہ تعالی رحمۃً واسعۃً ومزار مقدس دراورنگ آباد نزد بھڑکل کلاں درحویلی حضرت موصوف معہ مزار مقدس فرزندارجمندایشان حضرت نورالہدیٰ صاحب مرحوم ومغفور واقع است یزار ویتبرک، ثالثاً ازحضرت خواجہ رحمت اللہ نائب رسول اللہ ﷺقدس سرہٗ گرفتم ازیشان تمام سلوک طریقہ عالیہ نقشبندیہ قادریہ ورفاعیہ وچشتیہ وسہروردیہ وشطاریہ و مداریہ وغیرہ معہ اصول وفروع بیعت مصافحہ نمودہ تمام اشغال واعمال طریقہ موصوفہ بہ تفصیل بہ طریق تلقین وتوجہ یافتم خرقہ خلافت واجازت عمامہ ازجناب ایشان بہ فقیرعنایت گشتہ جزاہ اللہ وعن سائیر مستفیدین خیر الجزاء پس بہ فقیردرطریقہ نقشبندیہ ازسہ بزرگان فائدہ رسیدہ لیکن اتمام سلوک درخدمت حضرت خواجہ رحمت اللہ گشتہ۔‘‘
اسمائے گرامی بزرگان صحبت:۔
کتاب ’’انوارالقندہار‘‘ میں بزرگان صحبت کے تعلق سے آپ نے اس طرح تحریر فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے، 
’’شاہ محمد عظیم الدین مرید شاہ عبدالرحمن قدس سرہ، و نزدیک قلعہ ارکہ خجستہ بنیاد آسودہ اندو شاہ ابراہیم نقشبندی متصل کنکر در وازہ خجستہ بنیاد آسودہ اندوشاہ رشید کہ درمسجد بیگم پورہ بودند ومحمد شاکر واعظ و نیز فخرالدین وشاہ عبدالصمد وشاہ فہم رسول مریدشاہ پیر محمد سبزپوش گجراتی وشاہ غلام حسین فرزندشاہ شیخن احمد صاحب وازیشان اجازت جواہر خمسہ ہم رسید جزا ہم اللہ خیراً وفراغ یافت ازتالیف وتسویدرسالہ انوارالقندہار روزسہ شنبہ بوقت چاشت درخانقاہ نواحداث موصوف بتاریخ نہم رجب المرجب ۱۲۱۳؁ھ یکہزار ودو صد و سیزدہ ہجری مقدسہ درآن وقت عمرایںکاتب یک کم وپنجاہ سال بود حق تعالی ازطفیل حبیب خودصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جمیع امت مرحومہ ازجمیع غفلت ومناہی بازداشتہ این چند انفاس کہ باقی ماندہ باشنددریاد خود برآردو بہ فضل خود بمقام دوستان خود برساندصلی اللہ تعالی علی خیرخلقہ سیدنا محمدآلہ وازواجہ واصحابہ اوتباعہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔ آمین آمین آمین 
تصنیف وتالیف:۔
باوجود غیرمعمولی عبادت وریاضت آپ نے سلسلہ تصنیف وتالیف کوجاری رکھا ، چنانچہ تواریخ کے حوالہ سے آپ کے مندرجہ ذیل تصنیفات وتالیفات کا ہونا ثابت ہے۔
۱)ثمرات المکیہ:۔
یہ آپ کی نہایت اہم تالیف ہے جس کی بتاریخ ۱۵؍محرم الحرام بروزپنجشنبہ۱۱۹۸ھ؁ مدرسہ شیخ عبدالکریم قطبے (شباکی میں)جوبیت اللہ شریف کے مقابل تھا آپ نے تکمیل فرمائی ، سبب تالیف آپ نے کتاب کے مقدمہ میں تفصیلی طور پر تحریر فرمایا ہے ، جس کااختصاریہ ہے کہ آپ اندرون حرم شریف حطیم مکہ معظمہ میں بہ شب جمعہ حاضر تھے کہ بعض مبشرات میں آپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک قلمدان برآمدہوئے جن کو پوری مسرت وشادمانی سے آپ نے لے لیا۔ اسی وقت ایک بزرگ نے آوازدی کہ’’ یہ کتاب وقلمدان جناب سرورکائینات وخلاصہ موجودات صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے تجھے عنایت ہوا ہے۔ مبارک ہو‘‘چنانچہ آپ نے اس کتاب کی تالیف متذکرہ بالابشارت کی روشنی میں آغازفرمائی اور اس کتاب کانام ’’ثمرات المکیہ‘‘ رکھا ۔ یہ کتاب مقدمہ تین ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے ۔ مقدمہ بیعت او راس کے لوازم کے بیان واقع ہے۔ باب اول فروع طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل ہے۔ باب دوم  اصول طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل ہے جو سلوک طرق سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے دونسخے ہیں،ایک نسخہ بڑی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ کلاں) کہلاتاہے۔ اوردوسرا چھوٹی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ خورد) کے نام سے مشہور ہے۔ ثمرات المکیہ بہ نسخئہ کلاں میں آپ نے تصوف،معرفت و حقیقت کے نازک مسائل پر قرآن وحدیث اور اکابر دین کے اقوال کی روشنی میں سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور تمام سلاسل طریقت کے مستند سلوک کو قلمبندفرمایا ہے ۔ تاکہ سالکین راہ طریقت سلوک کی تکمیل میں تقدیم وتاخیر سے محفوظ رہیں ۔ آپ کی اس کتاب کے ضرورت مندآپ کے خلفاء اور متوسلین ہی نہیں بلکہ دیگر سلسلوںکے شیوخ بھی ثمرات شریف کے ضرورت مندرہے۔ چنانچہ اکثر شیوخ کے کتب خانوں میںثمرات المکیہ کے نسخے پائے گئے ہیں ۔ ونیزتصوف ومعرفت وحقیقت کے مسائل پر دیگر سلسلوںکے شیوخ نے بطوراستدالال واستناداپنی تالیفات میں ثمرات المکیہ کے حوالے دیئے ہیں کتاب فصل الخطاب بین الخطاء والصواب مؤلفہ مولانا سید شاہ عبداللطیف المشہور بہ سید شاہ محی الدین قادری ویلوری ؒمیں ص۱۶۳پر مؤلف کتاب نے مسلہ وحدت الوجود کی بحث میںوجود کی حقیقت اور معانی سے متعلق ثمرات المکیہ کی عبارت کا حوالہ سنداًپیش کرکے تحریر فرمایا ہے کہ کذا فی سلوک القادریہ لمولانا المولوی رفیع الدین نقشبندی القادری القند ہاری۔ الغرض آپ کی یہ معرکتہ الآراء کتاب دنیائے طریقت میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ مسائل تصوف کے علاوہ سلوک طریقت میں ہر سلسلہ کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ آپ مجمع السلاسل ہیں۔ تمام سلسلوں کے سلوک میں آپ کو وہ تحقیق بلیغ حاصل تھی اور ایسا درک حاصل تھاکہ نہ صرف آپ کے پیر بھائی بلکہ دوسرے سلسلوں کے ہم عصرشیوخ بھی مختلف سلاسل کے سلوک کی تحقیق وتدقیق میں آپ کی ذات گرامی سے رجوع کرتے تھے ۔ تمام سلسلوں کے سلوک میں کسبی اور وہبی راستوں سے کمال آپ کی ذات بابرکات میں پایا جاتاتھا۔ جس کو آپ نے ثمرات المکیہ میں جمع فرمادیاہے۔ اور ہر سلسلہ کے شجرہائے طریقت قلمبند فرمادئیے ہیں۔ باوجود اس قدراہمیت کے یہ کتاب طبع نہوسکی ، اگر چیکہ اس کی طباعت کیلئے اکابر نے بڑی بڑی کوشیش کیں۔ البتہ اس  کے متعد د قلمی نسخے ہوئے اس کتاب کے قدیم چھ(۶)قلمی نسخے حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔ جن میں چار نسخے ثمرات المکیہ بہ نسخہ کلاںاوردو(۲)بہ نسخہ خوردہیں۔ان کے منجملہ ایک نسخہ نہایت قدیم جو اصل تالیف کے چھ ماہ بعد کا ہے ۔ مولوی محمد عظیم الدین عرف محمد علی متوطن قصبہ کوٹگیر کا قلمی ہے۔ جو بماہ جمادی الثانی ۱۱۹۹؁ھ کو اختتام پذیر ہوا ۔ اس کے علاوہ ایک قدیم نسخہ حضرت مولانا امین الدین کثرت علیہ الرحمہ کاقلمی ہے جو آپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ اس کتاب کے اختتام پر آپ نے خدمت خلق کے پیش نظر تعویذات اور طلسمات کو بھی جمع  فرمایا ہے۔ بالخصوص آپ کے متوسلین کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس کی نقلیں کتب خانہ آصفیہ وغیرہ میں موجود ہیں۔ آپ کے خلفاء نے اس کتاب کی بدست خود نقل کرکے آپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیں تاکہ اپنے دست مبارک سے کتاب پر انکانام آپ تحریر فرماکر مرحمت فرمائیں جو ان کے لئے سنداً محفوظ رہے، چنانچہ اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ کتب خانہ آصفیہ میں محفوظ ہے جو آپ کے خلیفہ حضرت مولاشاہ محمد اویس شہیدعلیہ الرحمہ کو عطاء ہواتھا۔ جس پر آپ نے اپنے قلم سے ’’بپاس خاطر میاںمحمد اویس دادہ شد‘‘ تحریر فرمایاہے(۲)۔ ایک دوسرا قدیم قلمی نسخہ جس کی نقل آپ کے خلیفہ حضرت مولانامیر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے کی ہے خلافت کے بعد ان کو عطاء ہوا جس پر آپ نے اپنے قلم سے ’’للسید الصّالح حافظ میرشجاع الدین حسین ‘‘ تحریر فرمایاہے۔ اس نقل کی تکمیل  پر کتاب کے آخرمیں حضرت مولانا میر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے بزبان عربی تحریر فرمایاہے کہ 
: ’’قدحصل الفراغ بعون اللہ تعالی وتوفیقہ من کتابۃ النسخۃ المبارکۃ المیمونۃ المسمی بثمراۃ المکیۃ من تالیفات قدوتی ومرشدی حضرت المولوی محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین القندھاری الدکنی مداللہ تعالی ظلال ارشادہ علی رؤس الطالبین  وادخلنی ببرکۃ انفاسہ الشریفۃ فی زمرۃ الصالحین وصلی اللہ تعالی علی سید نا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم۔‘‘
۲)انوارالقندہار:۔
یہ آپ کی وہ اہم تالیف ہے کہ جس میں آپ نے قندہار شریف کے بزرگوں کے حالات تحریر فرمائے ہیں۔ وہ بزرگ جن کے تذکرے تواریخ موجودنہ تھے اور نہ کسی کو معلوم تھے، آپ نے ذریعہ کشف معلوم کرکے ان کے حالات تحریر فرمائے ہیں اور آپ نے خود اپنا تذکرہ بھی قلمبندفرمایاہے۔ کتب خانہ آصفیہ میں اس کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔یہ نقل سید ناظم حسین رضوی موہانی نے بعہد میر محبوب علی خان بتاریخ ۲۹؍جمادی الاول۱۳۱۰؁ھ روزشنبہ وقت یک ونیم ساعت شب وحیدرآباد دکن کی ہے۔ 
۳)تذکرئہ نوبہار:۔
یہ تذکرئہ شعراء ہے۔ اس میں آپ نے (۵۷)فارسی شعراء کا تذکرہ معہ نمونہ کلام قلمبندفرمایاہے۔ اس کتاب میں آپ نے خود اپنا تذکرہ بھی تحریرفرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ 
۴)راحت الانفاس:۔ 
اس کی تالیف ۱۱۹۵؁ھ میں آپ نے فرمائی ۔ تواریخ میں اس کانام غلطی سے انفاس العاشقین لکھا ہے۔ 
۵)رسالئہ اجازت نامہ جات:۔
اس رسالہ میں آپ نے شجرہ ہائے طریقت جمع فرمائے ہیں طریقہ قادریہ ، طریقہ نقشبندیہ، طریقہ رفاعیہ، طریقہ چشتیہ، طریقہ سہروردیہ، طریقہ شطاریہ، طریقہ مداریہ کے شجرے اوراجازت نامہ صحاح ستہ سندقراء ت،اجازت نامہ حزب البحرشریف، اجازت نامہ برزنجی،اجازت نامہ مولد النبی ﷺ ، اجازت نامہ دلائل الخیرات جمع فرمائے ہیں۔ اس کا قدیم نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ یہ نقل بقلم حضرت مولاناامین الدین کثرتؒ کی گئی ہے۔ جس پر انہوںنے تحریرفرمایاہے کہ’’ حسب الحکم حضرت قبلہ نقل کی گئی ہے‘‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی موجود گی میں یہ نقل ہوئی تھی۔ یہ آپ کی قدیم تالیف ہے جس میں آپ نے مختلف اوراد واشغال اور اعمال ووظائف کو جمع فرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ 
۷)رسالہ چشتیہ:۔
اس رسالہ میں آپ نے طریقہ عالیہ چشتیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔ 
۸)رسالئہ نقشبندیہ:۔
اس رسالہ میں آپ نے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔ 
۹)تحفۃ البدیع:۔
سلوک مداریہ میں یہ رسالہ آپ نے ۱۲۲۹؁ھ بپاس خاطرمولوی محمد قائم شاہ صاحب خلیفہ حضرت سید میراں شاہ مکہ اولیاء قدس سرہٗ(ناندیڑ)تالیف فرمایا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ 
یہ قلمی کتابیں اکثر کتب خانہ آصفیہ میں موجود ہیں۔ متذکرہ رسالہ جات کے نسخے بھی حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس موجودہیں۔ 
{جدول بصراحت سنِّ وسال آپ کے مناقب کے مختلف اہم موقعوںپر}
۱۔  ۱۱۶۴؁ھ بتاریخ ۱۹؍ جمادی  الثانی بروزپنجشنبہ بوقت صبح بعد نمازفجر ولادت باسعادت  بقصبہ قندہار۔
۲۔  بموجب کتاب ’’انوار القندہار‘‘ آپ کی پہلی شادی آپ کے چچا حضرت غیاث الدین کی صاحبزادی سے ہوئی اس وقت عمر شریف (۱۴؍سال)
۳۔ حسب الحکم حضرت سرور مخدوم اور نگ آباد تشریف لیجاکر (۹)سال کی مدت تک علم ظاہری کی تکمیل فرمائی دستار فضیلت حاصل فرمایا، عمرشریف(۲۳سال)
۴۔  ۱۱۹۵؁ھ آپ نے دربیان پاس انفاس دارالسلطنت حیدرآباد میں رسالہ ’’راحت الانفاس‘‘ تالیف فرمایا، عمرشریف (۳۱سال)
 ۵۔  ۱۱۹۷؁ھ روزدوشنبہ بوقت بتاریخ ۲۱؍ ربیع الاول آپ نے ’’رسالہ سلوک نقشبندیہ‘‘ بعض حضرات  کی درخواست پربوقت روانگی حج بندر مبارک سورت میں تالیف فرمایا،عمرشریف(۳۳سال)
 ۶۔  ۱۱۹۸؁ھ مدینہ منورہ میں حضرات شیخ عبد القادر بن شیخ محمد سعید الطاہر الکردی سے اجازت مولد النبی  ﷺ معہ سندحاصل فرمائی، عمرشریف(۳۴سال)
 ۷۔  ۱۱۹۸؁ھ آپ نے حضرت حافظ محمد حیات بن طالب علیخان المحمدی القادری الحنبلی سے مدینہ منورہ میں سند قرأت قرآن مجید بروایت سیدنا حفصؒ حاصل فرمائی ،عمرشریف (۳۴سال)
۸۔  ۱۱۹۸؁ھ آپ نے مکہ معظمہ میں کتاب’’ ثمرات المکیہ ‘‘تالیف فرمائی ۔ عمرشریف(۳۴سال)
۹۔  ۱۱۹۹؁ھ آپ حرمین شریفین سے واپس قندہار تشریف لائے اس وقت عمرشریف (۳۵سال)
 ۱۰۔  ۱۲۰۳؁ھ روزجمعہ ۲۰؍ ربیع الاول کو آپ نے بپاس خاطر حضرت سیدشاہ محمد اویسؒ جو آپ کے خلیفہ تھے، قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’رسالہ سلوک چشتیہ‘‘ تالیف فرمایا اس وقت ،عمرشریف (۳۹سال)
۱۱۔  ۱۲۱۳؁ھ ۹؍رجب المرجب بوقت چاشت قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’انوار القندہار‘‘ تالیف فرمائی، عمرشریف (۴۹سال)
۱۲۔   ۱۲۱۵؁ھ آپ نے قندہار شریف میں سندقرأت قرآن مجید طلباء کو مرحمت فرمائی اس وقت عمرشریف(۵۱سال)
۱۳۔ ۱۲۱۶؁ھ آپ نے کتاب تذکرہ نوبہار تالیف فرمائی، عمرشریف(۵۲سال)
۱۴۔  ۱۲۱۹؁ھ بہ ماہ محرم اعظم الامراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا اس طرح حیدرآباد تشریف آوری کے وقت آپکی عمرشریف(۵۴سال)
 ۱۵۔  ۱۲۲۹؁ھ آپ نے قصبہ قندہار میں تحفۃ البدیع کی تالیف بپاس خاطر حضرت قائم شاہ فرمائی اس وقت آپکی عمرشریف(۶۵سال)
۱۶۔ ۱۲۳۷؁ھ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ محمد نجم الدین قبلہ قدس سرہٗ کا وصال ہوا اس وقت آپکی عمرشریف (۷۳سال)
۱۷۔  ۱۲۴۱؁ھ ۱۶؍ رجب المرجب حضرت سرور مخدوم قدس سرہٗ کے  صندل مبارک کے روز آپ کا وصال ہوا اس وقت عمرشریف (۷۷سال)
رشتہ ازدواج:۔
آپ کی تین بیویاں تھیں پہلی بیوی حضرت انور بی بی صاحبہ بنت حضرت غیاث الدین قاضی قصبہ نرسی ، دوسری بیوی حضرت قادر بی بی صاحبہ جو قصبہ کوٹگیر کے خاندان قضاء ت سے تھیں ، تیسری بیوی حضرت پیرماں صاحبہ جو مدنی تھیں ، بزمانہ قیام مدینہ منورہ آپ کے عقدنکاح میں آئی تھیں، آپ کی اولاداور آل کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ آپ کے جملہ پانچ صاحبزادے تھے، اور چار صاحبزادیاں تھیں۔ چنانچہ تواریخ کے حوالے سے بھی پانچ صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کا ہو نا ثابت ہے۔ 
(ماخوذ:۔انوار الرفیع ص۱تا۲۹، طبع اول، مطبوعہ دائرہ پریس حیدرآباد۱۴۰۵؁ھ ۱۹۸۵؁ء)
حواشی و حوالہ جات
(۱) قال جامعہ الفقیر یوسف بن اسماعیل بن یوسف بن اسماعیل بن محمد ناصر الدین النبہانی عفا اللہ عنہ لما کان ہذا الکتاب الشریف الفائق المشتمل علی الکثیر الطیب من شمائل خیر الخلائق متفر عاعن کتاب الشمائل للامام ابی عیسی الترمذی و اصول کتب الحدیث المعتمدۃ التی اجلہا واشہرھا الکتب الستۃ وہی دواوین الاسلام صحیحا البخاری ومسلم و سنن ابی داؤد و جامع الترمذی و سنن النسأی وابن ماجہ رأیت من الصواب ان اذکر اسانیدی فیہا الی مؤلفیہا ٭ فاقول: انی اروی ہذہ الکتب وغیرہا بالاجازۃ عن علامۃ عصرہ الامام الکبیر سیدی الشیخ ابراہیم السقا المصری الشافعی شیخ مشائخ الجامع الازہر وقد ذکرت اجازتہ لی فی ذیل کتابی ’’الشرف المؤید لآل  محمد‘‘ فی ضمن ترجمۃ لی اقتصرت فیہا علی بیان بعض ماتمس الحاجۃ الیہ من التعریف بی وہو رحمہ اللہ یرویہا عن عدۃ اشیاخ اجلاء منہم الاستاذ العلامۃ ولی اللہ الشیخ ثعیلب عن شیخیہ الامامین الشہاب احمد الملوی والشہاب احمد الجوہری عن شیخھما مسند عصرہ وفرد زمانہ الشیخ عبداللہ بن سالم صاحب الثبت الشہیر ٭ ومنہم الاستاذ محمد بن محمود الجزائری عن شیخہ علی بن عبدالقادر بن الأمین عن شیخہ احمد الجوہری عن شیخہ عبداللہ بن سالم ٭ ومنہم العلامۃ المحقق الشیخ محمد صالح البخاری عن شیخہ رفیع الدین القندھاری عن الشریف الادریسی عن عبداللہ بن سالم رحمہم اللہ تعالیٰ۔
حضرت سید شاہ محمد علیم الدین انور، راقم کے برادر بزرگ نے حضرت کی منقبت میں ایک نظم تحریر فرمائی تھی جس کا ایک مصرعہ ہے۔ ’’سند سے آپ ہی کی شام میں راوی ہیں نبہانی‘‘۔ ہندوستان میں حضرت مولانا عبدالباقی فرنگی محلی بھی اس سند کے حامل تھے۔ اس طرح عرب اور عجم میں کئی اکابر اس سند کے حامل تھے اسی لیے آپ کو شیخ العرب والعجم تحریر کیا جاتا ہے۔ 
حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے نواسہ مولانا انوار اللہ شاہؒ نے دکن میں جامعہ نظامیہ کا قیام و انصرام فرمایا۔ جس سے ہزاروں تشنگانِ علم سیراب ہورہے ہیں اور اسی جامعہ کو جنوبی ہند کی منفرد دینی درسگاہ کا مقام حاصل ہے۔ مولانا انوار اللہؒ کو حضرت ہی کے سلسلہ میں بیعت و خلافت بھی حاصل تھی۔ چنانچہ مولانا مفتی  سید محمود صاحب سابقہ خطیب مکہ مسجد کو مولانا نے اسی سلسلہ میں بیعت لے کر خلافت عطا فرمائی تھی۔ 
بحوالہ: کتاب، ثمرات المکیۃ
مؤلف : شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ محمد رفیع الدین فاروقی (قندھاری)
مترجم: ڈاکٹر محمد عارف الدین شاہ فاروقی قادری ملتانی
سنہ اشاعت: ۱۱ ربیع الآخر ۱۴۲۶ھ م ۲۰ مئی ۲۰۰۵ء 
(۲) کتب خانہ جامعہ نظامیہ کے شعبۂ مخطوطات میں بھی ’’ثمرات المکیۃ‘‘ کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے جس پر مؤلف کی مہر ’’الموت خیر الواعظ یا رفیع‘‘ کے علاوہ سنہ ۱۱۹۴ھ نیز دو مزید سنین ۱۲۳۲ھ اور ۱۲۹۰ھ ہیں جن پر غلام رحمت اللہ نام کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ ’’ایں رسالہ رامصنف بدست بنشستہ است‘‘۔
٭٭٭

عجائب القرآن مع غرائب القرآن




Popular Tags

Islam Khawab Ki Tabeer خواب کی تعبیر Masail-Fazail waqiyat جہنم میں لے جانے والے اعمال AboutShaikhul Naatiya Shayeri Manqabati Shayeri عجائب القرآن مع غرائب القرآن آداب حج و عمرہ islami Shadi gharelu Ilaj Quranic Wonders Nisabunnahaw نصاب النحو al rashaad Aala Hazrat Imama Ahmed Raza ki Naatiya Shayeri نِصَابُ الصرف fikremaqbool مُرقعِ انوار Maqbooliyat حدائق بخشش بہشت کی کنجیاں (Bihisht ki Kunjiyan) Taqdeesi Mazameen Hamdiya Adbi Mazameen Media Zakat Zakawat اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت اِسلامی زندگی تالیف : حكیم الامت مفسرِ شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی Mazameen mazameenealahazrat گھریلو علاج شیخ الاسلام حیات و خدمات (سیریز۲) نثرپارے(فداکے بکھرے اوراق)۔ Libarary BooksOfShaikhulislam Khasiyat e abwab us sarf fatawa مقبولیات کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ) کتابُ الخیر خیروبرکت (منتخب سُورتیں، معمَسنون اَذکارواَدعیہ) محمد افروز قادری چریاکوٹی News مذہب اورفدؔا صَحابیات اور عِشْقِ رَسول about نصاب التجوید مؤلف : مولانا محمد ہاشم خان العطاری المدنی manaqib Du’aas& Adhkaar Kitab-ul-Khair Some Key Surahs naatiya adab نعتیہ ادبی Shayeri آیاتِ قرآنی کے انوار نصاب اصول حدیث مع افادات رضویّۃ (Nisab e Usool e Hadees Ma Ifadaat e Razawiya) نعتیہ ادبی مضامین غلام ربانی فدا شخص وشاعر مضامین Tabsare تقدیسی شاعری مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روشن فیصلے مسائل و فضائل app books تبصرہ تحقیقی مضامین شیخ الاسلام حیات وخدمات (سیریز1) علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی Hamd-Naat-Manaqib tahreereAlaHazrat hayatwokhidmat اپنے لختِ جگر کے لیے نقدونظر ویڈیو hamdiya Shayeri photos FamilyOfShaikhulislam WrittenStuff نثر یادرفتگاں Tafseer Ashrafi Introduction Family Ghazal Organization ابدی زندگی اور اخروی حیات عقائد مرتضی مطہری Gallery صحرالہولہو Beauty_and_Health_Tips Naatiya Books Sadqah-Fitr_Ke_Masail نظم Naat Shaikh-Ul-Islam Trust library شاعری Madani-Foundation-Hubli audio contact mohaddise-azam-mission video افسانہ حمدونعت غزل فوٹو مناقب میری کتابیں کتابیں Jamiya Nizamiya Hyderabad Naatiya Adabi Mazameen Qasaid dars nizami interview انوَار سَاطعَہ-در بیان مولود و فاتحہ غیرمسلم شعرا نعت Abu Sufyan ibn Harb - Warrior Hazrat Syed Hamza Ashraf Hegira Jung-e-Badar Men Fateh Ka Elan Khutbat-Bartaniae Naatiya Magizine Nazam Shura Victory khutbat e bartania نصاب المنطق

اِسلامی زندگی




عجائب القرآن مع غرائب القرآن




Khawab ki Tabeer




Most Popular