بچّوں کا گھر بسانے میں ماں باپ کا کردار
والدین کو چاہئے کہ اپنے بچّوں کا گھر بسے رہنے اور ان کی محبتیں قائم رکھنے کی تگ و دو جاری رکھیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ بہو اور داماد کے درمیاں ناراضی کے موقع پر اُن کی ذرا سی غفلت و بے پروائی ، بیٹے بیٹی کی غیر ضروری طرفداری یامنفی کردار کی وجہ سے ان کے بچّوں کا آشیانہ اُجڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر خُدانخواستہ بیٹی اپنے شوہر سے رُوٹھ کر گھر آجائے تو والدین کو چاہئے کہ داماد اور اُس کے گھر والوں پر غُصّہ کرنے اور اُن سے لڑنے پر آمادہ ہونے کے بجائے اپنی بیٹی کو سمجھائیں اور اُسے فوراً سُسرال پہنچانے کی کوشش کریں ، ہرگز ہرگز بیٹی کے دل میں لگی آگ کو اس طرح کہ جملے بول کر ہوا مت دیں : آجا بیٹی بیٹھ جا ، اب ہم دیکھتے ہیں تیرا شوہر کیسے تجھے لینے آتا ہے ، اُسے تیرا ذرا بھی احساس ہوگا تو وہ خود تجھے لینے آئے گا ، دیکھنا اُسے ایسا سبق سکھائیں گے کہ زندگی بھر یاد رکھے گا ، جب تک وہ یہاں آکر گھٹنے نہیں ٹیکے گا تُو اُس کے ہاں نہیں جائے گی ، اُس نے تجھے آنے کیسے دیا ، تیری ساس سُسر نے تجھے روکا کیوں نہیں ، ابھی ہم زندہ ہیں ، تُو ہم پر بوجھ تھوڑی ہے ، اب تُو اپنے سُسرال کبھی نہیں جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح لڑکے کے والدین کو بھی چاہئے کہ اپنے بیٹے کا آشیانہ اُجڑنے کی روک تھام کریں اور اس طرح کی اِشْتعال انگیز باتوں سے بیٹے کو مُشْتَعِل نہ کریں کہ اب کوئی ضرورت نہیں اُسے گھر لانے کی ، اگر وہ گھر میں آئی تو ہم اس گھر میں
نہیں رہیں گے ، جب سے وہ گھر میں آئی تھی اِس گھر کا سُکون غارت کیا ہوا تھا ، ہمیں ذلیل کرنے کیلئے اپنی ماں کے گھر جاکر بیٹھ گئی ، تمہارا احساس ہوگا تو خود یہاں آئے گی ، اُس کے ماں باپ کو چاہئے کہ وہ خود اُسے لے کر آئیں ، تمہارے جانے سے تمہاری اور ہماری ناک کٹ جائے گی ، تمہارے لئے لڑکیوں کی کمی ہے کیا وغیرہ وغیرہ۔ والدین کی اسطرح کی باتیں بچّوں کو ضِدّی بنادیتی ہیں اور وہ اپنے رفیقِ حیات کے انتظار میں اپنے اپنے گھر بیٹھے رہتے ہیں بلکہ یہ انتظار جیسے جیسے طویل ہوتا ہے والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کے مزید کان بھرتے اور سُسرال نا جانے پر اور پکّا کردیتے ہیں ۔ اگر بالفرض بہو خود ہی اپنے سُسرال آجائے یا داماد ہی اپنی بیوی کو منانے اپنے سُسرال پہنچ جائے تو بعض اوقات ساس سُسر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی بہو یا داماد کو کڑوی کسیلی باتیں سُنا کر شرمندہ اور ذلیل کرتے ہیں ۔
بہرحال اگر لڑکی روٹھ کر اپنے والدین کے گھر چلی جائے تو اولاًسسرال والوں کو چاہئے کہ اپنی بہو کو منا کر لائیں ، اپنی “ اَنا “ کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ یہ سوچیں کہ بہو ہمارے گھر کی عزّت ہے۔ اگر سُسرال والے منانے کیلئے نہ آئیں تو لڑکی کے والدین یہ سوچ کر خود ہی اپنی بیٹی کو اُس کے سُسرال لے جائیں کہ اب اُن کی بیٹی سُسرال کی امانت ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اپنی بیٹی کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کریں کہ اب تمہارا سُسرال ہی تمہارا گھر ہے تاکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ کر میکے کا رُخ نہ کرے۔ اگر لڑکا لڑکی کے والدین صبر و تحمل اور اِفہام و تفہیم سے کام لیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ اُن کے بچّوں کا آشیانہ بکھرنے سے بچ جائے گا۔ آئیے !اِس ضمن میں خاندانِ نبوت کا ایک انتہائی سبق آموز واقعہ مُلاحَظہ کیجئے :
0 Comments: