*امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ*
_تدبرِ عثمانی سے شوکتِ اسلام کا پھریرا بلند چوٹیوں پر لہرایا_
غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
اللہ کریم نے اپنے عظیم پیغمبر محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم کی وادیوں میں جلوہ گر فرمایا۔ نبی آخرالزماں کے وجودِ پاک سے کعبے کو زینت بخشی۔ حکمتِ الٰہیہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰؍سال عملی زندگی کا نمونہ پیش کیا؛ پھر اعلانِ نبوت فرمایا۔ دلوں کی دُنیا میں صالح انقلاب برپا کیا۔ انسانیت کی فراموش کردہ قدروں کو اُجاگر کیا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ عصبیت دور کر کے اُلفت و محبت کا ماحول عطا فرمایا۔ بے مثل پیغمبرانہ اختیارات کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ وہ جو بے راہ تھے ہادی و رہنما بن گئے۔ رہزن؛ رہبر بنے۔ جور وستم کی آندھیاں تھم گئیں۔ آدمیت کا بول بالا ہوا۔ انقلابِ حیات بخش کے جھونکوں نے مُرجھائی کلیوں کو کھِلا دیا۔
*نگاہِ نبوت کا فیضان:*
نبوی عطا و نوازش سے فیض یاب ہونے والا مقدس گروہ ’’صحابی‘‘ کے عظیم لقب سے معنون ہوا۔ جن کی عظمتوں کا اندازا ہماری ناقص عقلیں نہیں لگا سکتیں۔ کسی ذات کو صداقت ملی۔ کسی نے عدل و انصاف میں داد پائی۔ کسی کو سخاوت عطا ہوئی۔ کسی کوشجاعت میں بے مثل منصب مِلا۔ نگاہِ نبوت کے فیض نے ایسا نوازا کہ صحابہ کی مقدس جماعت کی پیروی نجات و پختگیِ ایمان کی علامت ٹھہری۔ اسی مقدس گروہ میں خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی نمایاں ہے۔ آپ کی اسلام کے لیے قربانیاں ہمہ جہت و منفردالمثال ہیں۔
*قافلہ سالارِ ہجرت:*
اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں کے آگے جب کفارِ قریش سدِ سکندری قائم نہ کر سکے تو مسلمانوں کے دُشمن ہو گئے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو آزار پہنچانے کی کوششیں کیں۔ عظمتوں کو جھٹلانے کے لیے ہمسری کے دعوے دار ہوئے۔ علم غیبِ نبوی کے منکر ہو کر اپنے کفر پر مہرِ تصدیق ثبت کر لی۔ اصحابِ رسول کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اللہ کی یکتائی کے اقرار نے ان کے کفر کو لرزا بر اندام کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جور وستم کے پیشِ نظر اسلام کی اولین ہجرت جانبِ حبشہ عمل میں آئی۔ نبوی حکم کی پاس داری میں جو اولین گروہِ مقدس عازمِ حبشہ ہوا اس کے قافلہ سالار کا نام -حضرت سیدنا عثمان غنی- ہے۔اس ہجرت میں آپ کے ہمراہ آپ کی زوجہ بنتِ رسول بھی تھیں۔ تاج دارِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
انہما اول بیت ہاجر فی سبیل اللّٰہ بعد ابراہیم ولوط علیہما السلام۔
’’یعنی حضرات ابراہیم ولوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔‘‘
اللہ کریم نے یہ فضل بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا کہ آپ نے بعد کو مکہ معظمہ تشریف لانے کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کا بھی شرف حاصل کیا۔ جس کے باعث آپ کو ’’صاحب الہجرتین‘‘ -دو ہجرت والے- بھی کہا جاتا ہے۔یہ سعادت ہی ہے جو آپ کو بارگاہِ رسالت کے فیض سے عطا ہوئی۔ جس سے آپ کے منصب و رُتبے میں اور ترقی ہوئی۔
*ذوالنورین:*
سبحان اللہ! دو نور والے۔ آپ کی عظمتوں کا یہ عالم کہ رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحب زادیاں حضرت رقیہ و حضرت ام کلثوم کو آپ کی زوجیت میں عنایت فرمایا۔ اعلیٰ حضرت اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
*ایثار کی جلوہ آرائیاں:*
ایثار مقصودِ مومن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی بھی ایثار ہے۔صحابہ کے ہر ہر عمل میں ایثار کا جلوہ مستور ہے۔ ان کی زندگی سراپا ایثار۔ ان کی ادائیں ایثار کی راز داں۔ محبتوں کی دہلیز پر ایثار کے اَن گنت چراغ روشن کر کے حضرات صحابہ نے اگلوں کی تربیت کا ساماں کیا۔ شاہراہِ حیات کو منور کردیا۔ یقیں کے روشن مینار تعمیر کیے۔ جس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو مرتبہ جنت خریدی۔ ایک مرتبہ ’’بیر رومہ‘‘ یہودیوں سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کرکے اور دوسری بار ’’جیش عسرت‘‘ کے موقع پر۔ حضرت سیدنا عبدالرحمٰن ابن حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں بارگاہ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر تھا اور حضور اکرم نور مجسم رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم؛ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو جیش عسرت (یعنی غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے ترغیب) ارشاد فرمارہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پالان اور دیگر متعلقہ سامان سمیت سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب فرمایا تو حضرت سیدنا عثمان غنی دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام سامان سمیت دو سو اونٹ حاضر کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھر ترغیباً فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مع سامان تین سو(اونٹ) اپنے ذمہ قبول کرتا ہوں، راوی فرماتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر منبر منور سے نیچے تشریف لاکر دو مرتبہ فرمایا: آج سے عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کچھ کرے اس پر مواخذہ (پوچھ گچھ) نہیں۔ شارحین نے فرمایا یہ تو ان کا اعلان تھا مگر حاضر کرنے کے وقت نو سو پچاس اونٹ، پچاس گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں، پھر بعد میں دس ہزار اشرفیاں اور پیش کیں۔‘‘
(مراۃ المناجیح۸؍۳۹۵؛ عشرۂ مبشرہ،ص۴۳)
*مثالی نظامِ مملکت:*
حضرت سیدنا فاروق اعظم کے بعد مملکتِ اسلامیہ جس کی سرحدیں بڑے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتی تھیں؛ کے خلیفہ بنائے گئے۔ آپ کی ذات پرسبھی صحابہ و اہلِ بیت نے اتفاق کیا۔ آپ نے نبوی منہج کے مطابق مملکتِ اسلامیہ کے نظام کو سنبھالا۔ دیانت و انصاف کو تقویت پہنچائی۔ غریبوں کی داد رَسی کی۔ اشاعتِ دین کے مبارک سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اپنی دعوت کا میدان منکرین تک وسیع کیا۔ خود نہ تھے جو راہ پر وہ ہادی بن گئے۔ مسیحائی ایسی کہ مُردہ دل جی اُٹھے۔ ایمان کی حرارت سے باطن روشن ہوا۔آپ نے مملکتِ اسلامیہ کی توسیع بھی کی۔ افریقہ، طرابلس، سابور، قبرص، نیشاپور، طوس جیسے علاقوں میں اللہ و رسول کی عظمت و شان کے پھریرے لہرائے۔ دیانت وانصاف، رعیت کی فریاد رَسی و خدمت کا بے مثل کارنامہ انجام دیا۔ جس کی مثال آج کی مملکتیں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ امن و امان کو راہ دی۔ خوف و دہشت کا خاتمہ اسلامی امن و اخوت کے قیام سے فرمایا۔
۱۸؍ذی الحج ۳۵؍ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ جنت البقیع شریف میں دفن ہوئے۔اعلیٰ حضرت نے بہت خوب فرمایا ؎
یعنی عثماں غنی صاحبِ قمیص ہدیٰ
حلہ پوش شہادت پہ لاکھوں سلام
رب کریم کا خاص کرم ہوا۔ ارض حرمین کی دو بار حاضری نصیب ہوئی۔ مدینہ منورہ کی فضاؤں میں جو لمحے گزرے تقریباً ہر روز -جوارِ عثماں- میں حاضری ہوئی۔ اللہ اکبر! مملکتِ اسلامی کا مثالی حکمراں فاتحانہ شان کے ساتھ خاکِ بقیع میں آسودہ ہے۔ بقیع پاک کا ذرہ ذرہ آپ کی جلالت وشان کا شاہد ہے۔ اللہ کریم! ترکوں کو سلامت رکھے۔ متاعِ عشق کے ان پہرہ داروں نے نسبتوں کی حفاظت کی۔ ہر مقدس مقام پر عشق کے نشاں نصب کیے۔ روضۂ حضرت عثمانِ غنی بھی پر شکوہ گنبد میں قائم تھا جسے حامیانِ یہود ونصاریٰ کی سازشوں نے زمیں بوس کردیا۔ اور آج ہم اپنی ہی روشن تاریخ کے نشاں بے نشاں ہوتے دیکھ کر آنسوؤں کی سوغات نذر کرتے ہیں۔ بقیع پاک ہماری تاریخ کا نقش جمیل ہے جہاں سے اسلام کا عظیم کارواں سارے عالم میں فروکش ہوا۔نیل کے ساحل سے تا بہ خاکِ کاشغر اسلام کا چمنستاں انھیں اولین گروہِ مقدس کے فیض سے ایماں کی حلاوت سے شادکام ہوا۔ اور مشرقین و مغربین بھی مصطفٰی جانِ رحمت پہ ’’لاکھوں سلام‘‘ بھیج کر اسلام کی عظمتوں کے ترانے اَلاپ رہے ہیں۔ عثمانی فتوحات کے علَم ایماں کی ہر منزل پرلہرا رہے ہیں۔ جس سے فکر و نظر کو تازگی مل رہی ہے اور چمن اسلام بادِ صرصر کے تیزو تند جھونکوں میں بھی ہرا بھرا ہے۔
٭٭٭
gmrazvi92@gmail.com
0 Comments: