بنتِ عطّار کا جہیز
امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی سادَگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے عین سنّت کے مطابق کرنے کی کوشش فرمائی تھی۔ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ایک مدنی مذاکرے میں کچھ یوں ارشاد فرمایا : میں نے پوری کوشش کی کہ حضرت سَیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو میرے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو جو عنایت فرمایا اس کی پیروی کی جائے ، مثلاًمشکیزہ ، گیہوں پیسنے والی ہاتھ کی چکّی ، نُقرَئی(نُق۔ رَ۔ ئی یعنی چاندی کے)کنگن پیش کئے۔ اسی طرح کی دیگر چیزیں کتابوں سے دیکھ کر جو جو میسّر آیا (مثلاً) چٹائی ، مِٹّی کے برتن اورکھجور کی چھال بھراچمڑے کا تکیہ وغیرہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ جہیز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ (2)
2 - تذکرۂ امیرِ اہلسنّت ، قسط : ۳ ، ص۴۴
0 Comments: