مالِ حرام کا وَبال
حضرت سَیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سَمر قَندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نَقل کرتے ہیں : مروی ہے کہ مرد سے تعلُّق رکھنے والوں میں پہلے اُس کی زَوجہ اور اُس کی اَولاد ہے ، یہ سب (یعنی بیوی ، بچّے قیامت میں )اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے ہمارے رَبّ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں اِس شخص سے ہمارا حق دِلا ، کیونکہ اِس نے کبھی ہمیں دِینی اُمور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتاتھاجس کا ہمیں علم نہ تھا ، پھر اس شخص کو حرام کمانے پر اس قدر ماراجائے گاکہ اس کا گوشت جَھڑجائے گاپھر اس کو میزان(یعنی ترازو) کے پاس لایا جائے گا ، فرشتے پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے تو اس کے عِیال (یعنی بال بچّوں )میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر کہے گا : میری نیکیاں کم ہیں ، تو وہ اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا ، پھردوسرا آکر کہے گا : تُونے مجھے سُود کھلایا تھا اور اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا ، اِس طرح اُس کے گھر والے اس کی سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل وعیال کی طرف حسرت ویاس(یعنی رَنْج و مایوسی) سے دیکھ کر کہے گا : اب میری گردن پر وہ گُناہ و مَظالم رہ گئے جو میں نے تمہارے لئے کئے تھے۔ فرشتے کہیں گے : یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اِس کے گھر والے لے گئے اور یہ اُن کی وجہ سے جہنّم میں چلاگیا۔ (1)
غور کیجئے !اس شخص کی بد نصیبی کا کیا عالَم ہوگا جواپنے اہل وعیال کی خاطِرحرام کماتا رہے اور بروزِ قیامت اس کے گھر والے ہی اُس کی تمام نیکیاں حاصل کرکے نجات پاجائیں اور وہ خُود قَلّاش (کنگال) رہ جائے۔ بدقسمتی سے مُعاشرے کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ مال کی حرص وہَوَس میں نہ جانے کیسے کیسے گُناہوں کا اِرتکاب کیا جارہا ہے۔ نقلی ، مِلاوٹ والی اور عیب دار چیز کو اصلی ، معیاری اوراعلیٰ کوالٹی کی بتا کربیچا جارہا ہے ، اَوّلاً تو عیب ہی پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور اگر کوئی خریدار کسی خرابی کی نشاندہی کرے تو اُسے یقین دِلانے کیلئے جُھوٹی قسمیں کھانے سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا۔ یاد رکھئے!ماں باپ کی خدمت کرنا ، بیوی بچّوں کا خیال رکھنا اور اُن کی ضروریات کو پورا کرنا بُری بات نہیں ، بُری بات یہ ہے کہ انسان اپنی استطاعت سے بڑھ کر ان کی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مالِ حرام کی طرف پیش قدمی کرے اور ماں باپ ، بیوی بچّوں یا عزیز رشتے داروں کی خاطر اپنے آپ کو اُس اُخروی ہلاکت پر پیش کردے جس کی طرف حدیثِ پاک میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔
________________________________
1 - قرة العیون ، الباب الثامن فی عقوبة قاتل الخ ، ص۴۰۱
0 Comments: