موجودہ رسمیں :
نکاح کے وقت دو طرح کی رسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ دولہا کے گھر کی جاتی ہیں اور کچھ وہ جو دلہن کے گھر۔دولہا کے تو یہ ہوتا ہے کہ دولہا کو نائی غسل دیتا ہے اور وہ ہی کپڑے بدلواتا ہے، سرخ رنگ کی پگڑی باندھ کر اس پر سنہری گوٹا لپیٹ دیا جاتا ہے، پھر اس پر سہرا باندھتا ہے جس میں پھول پتی اور نلکیاں لگی ہوتی ہیں۔ نائی یہ کام کرکے ایک تھالی رکھ دیتا ہے جس میں تمام قرابت دار مرد، روپیہ پیسا نچھاور کرکے ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد عورتیں نچھاور کرتی ہیں۔ جو نائی کی بیوی نائن کا حق ہوتا ہے اور آج سے پہلے سارے قرابت دار جمع ہوچکتے ہیں جو کھانا کھاتے جاتے ہیں اور نیوتے کے روپے دیے جاتے ہیں اور لکھنے والا و ہ روپے لکھتا جاتا ہے۔ اس کھانے کا نا م برات کی روٹی ہے۔ اس وقت زِیادہ قابلِ رحم دولہا کے نانا ماموں کی حالت ہوتی ہے کیوں کہ ان پر ضروری ہے کہ بھات لے کر آئیں ورنہ ناک کٹ جائیگی۔ اس بھات کی رقم نے صد ہا گھر برباد کردئیے۔ بھات میں ضروری ہے کہ دولہا اور اس کے تمام قرابت دار وں کے لیے کپڑے کے جوڑے، کچھ نقدی اور کچھ غلہ دیں۔ بعض جگہ چالیس پچاس جوڑے تک لانے پڑتے ہیں۔ اگر ایک جوڑا پانچ روپے میں بھی بناؤ تو ڈھائی سو روپے ٹھنڈے ہوگئے۔ خود میں نے ایک دکاندار کو دیکھاکہ بڑے مزے سے گزر کر رہا تھا، بھانجی کی شادی آن پڑی، میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ بھات نہ دے یا اپنی حیثیت کے مطابق دے وہ نہ مانا۔ آخر کار اسکی دکان بھات کی نذر ہوگئی اب بہت مصیبت میں ہے۔
بھانجی کے نکاح میں یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ کپڑوں کے جوڑوں کے سوا بھانجی کو زیور یا برات کی روٹی ماموں کرے۔ غرضیکہ ایک شادی میں چار گھروں کی بربادی ہوجاتی ہے۔ جب یہ رسمیں ہوچکیں تو اب برات چلی، جس کے ساتھ بَری (یعنی دولہاکی طرف سے دلہن کے لئے بھیجا جانے والا سامان)اور آگے باجا۔ بلکہ بعض دفعہ آگے آگے ناچنے والی رنڈیاں بھی ہوتی ہیں۔ گولے چلائے جاتے ہیں، آتشبازی میں آگ لگتی ہے۔ بَری اس میوہ (فروٹ ) کو کہتے ہیں جو دولہا کی طرف سے جاتی ہے جس میں شکر، ایک من ناریل، مکھانا وغیرہ، تیس سیر کچا دودھ وغیر ہ بھی ہوتا ہے۔ دلہن کے گھر یہ چیزیں دی جاتی ہیں جو بعد شادی تقسیم ہوتی ہیں۔ جب بارات دلہن کے مکان پہنچی تو اوّل وہاںآتشبازی میں آگ لگائی گئی، پھر پھول پتی لٹائی گئی، پھر تمام باراتیوں کو دلہن کی طرف عام دعوت دی گئی، پھر نکاح ہوا، دولہا مکان میں گیا جہاں پہلے سے عورتوں کا مجمع لگا ہوا ہے۔ اس موقع پر بڑی پردہ نشین عورتیں بھی دولہا کے سامنے بے تکلف بغیر پردہ آجاتی ہیں۔ ۱؎ گالیوں سے بھرے ہوئے گانے گائے جاتے ہیں۔ سالیاں بہنوئی سے قسم قسم کے مذاق کرتی ہیں (حالانکہ سالیوں کا بہنوئی سے پردہ سخت ضروری ہے )، میراثن وغیرہ اپنے حقوق وصول کرتی ہیں۔ پھر رخصت کی تیاری ہوتی ہے جہیز دکھایا جاتا ہے۔ جہیز میں تین قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، ایک تو دولہا والوں کیلئے کپڑوں کے جوڑے یعنی دولہا اسکے ماں باپ،دادادادی،نانا نانی، ماموں، بھائی، چچا، تایا تائی، بھنگی، بہشتی، نائی غرضیکہ سب کو جوڑے ضرور دئیے جاتے ہیں۔جن کا مجموعہ بعض جگہ اسّی نوّے جوڑے ہوتے ہیں۔ دوسرے کاٹھ کباڑ یعنی میزیں، کرسیاں، برتن، چارپائیاں وغیرہ تیسرے روز ان سب کی نمائش کے بعد رخصت ہوئی، جس میں باہر باجا کا شور اندر رونے چلّانے والوں کا زور ہوتاہے۔ پالکی میں دلہن سوار آگے دولہا گھوڑے پر سوار پالکی پرپیسوں بلکہ پنجاب میں روپوں اور چاندی کے چھلّے اور انگوٹھیوں کی بکھیر ہوتی ہوئی روانگی ہوئی۔ سبحان اللہ عزوجل! کیا پاکیزہ مجلس ہے کہ آگے بھنگیوں اور چماروں کے بچّے لوٹنے والوں کا ہجوم پھر باجے والے میراثیوں کی جماعت اور جماعتِ شرفا پیچھے اگر آنکھ ہو تو ایسی مجلس میں شرکت بھی معیوب سمجھو،کہاں تک بیان کیا جائے؟ بعض وہ رسمیں ہیں جن کے بیان سے شرم بھی آتی ہے کہ اس کتاب کو غیر مسلم قومیں بھی پڑھیں گی۔ وہ مسلمانوں کے متعلّق کیا رائے قائم کریں گی ! حق یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے ایسے ناخلف اولاد ہوئے کہ ہم نے ان کے نام کو ڈبو دیا۔ آج ایسی رسمیں بھنگی چماروں میں بھی نہیں جو مسلمانوں میں ہیں۔
۱؎ :پردے کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے امیرِ اہلِسنّت مدظلہ العالی کی مایہ ناز تالیف ''پردے کے بارے میں سوال جواب'' مکتبۃ المدینہ سے ھدیۃً حاصل کیجئے ۔
0 Comments: