لڑکی کیلئے لڑکا اور لڑکے کیلئے لڑکی ایسی تلاش کی جائے جو شریف اور دیندار ہو، تاکہ آپس میں محبت رہے۔ جہاں لڑکے کی مرضی نہ ہو وہاں ہر گز نکاح نہ ہو۔ اسی طرح جہاں لڑکی یا لڑکی کی ماں کی منشاء (یعنی مرضی) نہ ہو وہاں نکاح کرنا زہر ِ قاتل ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اسی لیے شرعاً ضروری ہے کہ لڑکی سے اِذن لیتے وقت لڑکے کا نام معہ اس کے والد کے اور مہر کے بتایا جائے کہ ''اے بیٹی! ہم تیرا نکاح فلاں لڑکے فلاں کے بیٹے سے کردیں وہ کہے ہاں تب نکاح ہوتا ہے۔ یہ اذن لڑکی کی رائے معلوم کرنے کیلئے ہی تو ہے اگر موقع ہوتو لڑکے کو لڑکی پیغا م سے پہلے کسی بہانہ سے خفیہ طور پر دکھادی جائے کہ لڑکی کو یہ خبر نہ ہو(حدیث) ۱؎ بلکہ نکاح سے پیشتر اپنے سارے قرابت داروں کا مشورہ لینا بھی بہتر ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے
وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیۡنَہُمْ
(پ۲۵،الشورٰی۳۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے۔
ایسے نکاح کے سارے قرابت دار ذمہ دار ہوجاتے ہیں اور اگر دلہن اور دولہامیں نااتِّفاقی ہوجائے تو یہ لوگ مل کر اتفاق کی کوشش کرتے ہیں۔ منگنی دراصل نکاح کا وعدہ ہے اگر یہ نہ ہو جب بھی کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ منگنی کی رسم بالکل ختم کردی جائے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سوائے نقصان کے اس سے کوئی فائدہ نہیں غالباً ہم نے یہ رسمیں ہندوؤں سے سیکھی ہیں کیوں کہ سوائے ہندوستان کے او ر کہیں یہ رسم نہیں ہوتی بلکہ عربی اور فارسی زبانوں میں اس کا کوئی نام بھی نہیں۔ ا س کے جتنے نام ملتے ہیں سب ہندی زبان کے ہیں۔ چنانچہ منگنی، سگائی، کڑمائی، ساکھ یہ اس کے نام ہیں اور ان میں کوئی بھی عربی فارسی نہیں۔ اور اگر اس کا کرنا ضروری ہی ہوتو اس طرح کرو کہ پہلے لڑکے والے کے یہاں اس کے قرابت دار جمع ہوں اور وہ ان کی خاطر تواضع صرف پان ۲؎ اور چائے سے کرے۔ اگر کہیں پان کا رواج نہ ہو جیسے پنجاب تو وہ صرف خالی چائے سے جس کے ساتھ کوئی مٹھائی نہ ہو۔ پھر یہ لوگ اُٹھ کر لڑکی والے کے یہاں آجائیں وہ بھی ان کی تواضع صرف پان یا خالی چائے سے کرے۔ لڑکے والے اپنے ساتھ دلہن کیلئے ایک سوتی دوپٹہ اور ایک سونے کی نتھ (نتھنی) لائے جو پیش کردے۔دلہن والوں کی طرف سے لڑکے کو ایک سوتی رومال ایک چاندی کی انگوٹھی،ایک نگینہ والی پیش کردی جائے جس کا وزن سوا چار ماشہ سے زیادہ نہ ہو کیوں کہ مرد کو ریشم اور سونا پہننا حرام ہے، لو یہ منگنی ہوگئی اگر دوسرے شہر سے منگنی کرنیوالے آئے ہیں تو ان میں سات آدمی سے زیادہ نہ آئیں اور دلہن والے مہمانی کے لحاظ سے ان کو کھانا کھلادیں مگر اس کھانے میں دوسرے محلہ والوں کی عام دعوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر اس کے بعد لڑکے والے جب بھی آئیں تو ان پر مٹھائی اور کپڑوں کے جوڑوں کی کوئی پابندی نہ ہو۔ اگر اپنی خوشی سے ایسے ہی بچوں کیلئے تھوڑی سي مٹھائی لائیں تو اس کو محلہ میں تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حدیثِ پا ک میں ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دو محبت بڑھے گی۔
(شعب الایمان، باب فی مقاربۃ وموادۃ، فصل فی المصافحۃ ۔۔۔۔۔۔ الخ، الحدیث ۸۹۷۶، ص ۴۷۹)
مگر اس ہدیہ کو ٹیکس نہ بنالو کہ وہ بے چارہ اس کے بغیرآہی نہ سکے۔ تاریخ کا مقرر کرنا بھی اسی سادگی سے ہونا ضروری ہے کہ اگراسی شہر سے لوگ آرہے ہیں تو ان کی تواضع صرف پان یا خالی چائے سے ہو اور اگر دوسرے شہر سے آرہے ہیں تو پانچ آدمی سے زیادہ نہ ہوں۔ جن کی تواضع کھانے سے کی جائے اور مقرر کرنے والے سن رسیدہ بزرگ لوگ ہوں اور بہتر یہ ہے کہ شادی کیلئے جمعہ یا سوموار (پیر) کا دن مقرر ہو کیوں کہ یہ بہت برکت والے دن ہیں۔ پھر تاریخ کے بعد گانے باجے ڈھول وغیرہ نہ ہوں بلکہ اگر ہوسکے تو ہر تیسرے دن محفلِ میلاد کردیا کریں، جس میں نعت خوانی اور درود پاک کی تلاوت ہو ایسے وعظ کئے جائیں جس میں موجودہ رسموں کی برائیاں بیان ہو ں۔ مائیوں اور اُبٹن کی تمام رسمیں بالکل بند کردی جائیں۔ یعنی اگر دلہن کو ایک جگہ بٹھا دیا جائے یا کہ دولہا دلہن کے خوشبو یعنی اُبٹن مَلا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ یہ اُبٹن ایک طرح کی خوشبو ہے اور خوشبو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّمَ کو بہت پسند تھی۔ بلکہ شادی کے وقت خوشبو استعمال کرنا صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت ہے لیکن ان کاموں کے ساتھ حرام رسمیں مثلاًگانا بجانا عورتوں اور مردوں کاخلط ملط ہونا، بیہودہ مذاق سب بند کردیئے جائیں۔ غرضیکہ دینی اور دنیاوی کاموں میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمَّ کی پیروی دین و دنیا کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔ اس زمانے میں بعض لوگ دولہا کو چاندی کا زیور پہناتے ہیں یا چھری چاقو ان کے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ اسکو بھوت نہ چمٹ جائے یہ سب ناجائز رسمیں ہیں۔ اگر دولہا پر کسی قسم کا خوف ہے تو صبح و شام آیت الکرسی پڑھ کر خود اپنے پر دم کرلیا کرے۔ بلکہ نمازی آدمی کو کبھی کوئی آسیب بفضلہ تعالیٰ نہیں چھوتا، قرانِ پاک اچھا نگہبان ہے، اس کو اختیا ر کرو۔
رحمت عالم،نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے منگنی کرنے والے سے فرمایا :'' اسے(یعنی عورت) دیکھ لو کہ یہ تمہاری باہمی محبت کو قائم رکھنے کے لئے زیادہ مناسب ہے ۔''(سنن الترمذی،کتاب النکاح،الحدیث۱۰۸۹، ج۲،ص۳۴۶)
۲؎: پان کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے امیرِ اہلِسنّت مدظلہ العالی کے رسالے ''پان،گٹکا''کا مطالعہ کیجئے۔
0 Comments: