سخت غلطی یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے مالدار تلاش کئے جائیں کیوں کہ مالدار کی تلاش میں لڑکے اور لڑکیاں جوان، جوان بیٹھے رہتے ہیں نہ کوئی خاطر خواہ مالدار ملتا ہے نہ شادیاں ہوتی ہیں اور جوان لڑکی، ماں باپ کے لیے پہاڑ ہے اس کو گھر میں بغیر نکاح رکھنا سخت خرابیوں کی جڑ ہے۔ دوسری یہ کہ جو محبت و اخلا ق غریبوں میں ہے وہ مالداروں میں نہیں، تیسرے یہ کہ اگر مالدار کو تم اپنی کھال بھی اتار کر دیدو، ان کی آنکھ میں نہیں آتا، یہ طعنے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا اور اگر دلہن والے مالدارہیں تو داماد مثلِ نوکر کے سسرال میں رہتے ہیں۔ بیوی پر شوہر کا کوئی رعب نہیں ہوتا۔ اگر دولہاوالے مالدار ہیں تو لڑکی اس گھر میں لونڈی یا نوکرانی کی طرح ہوتی ہے اپنی لڑکی ایسے گھر میں دو، جہاں وہ لڑکی غنیمت سمجھی جائے۔ تجربہ نے بتایا کہ غریب اور شریف گھرانے والی لڑکیاں ان لڑکیوں سے آرام میں ہیں جو مالداروں میں گئیں۔لڑکی والوں کو چاہے کہ دولہا میں تین باتیں دیکھیں، اوّل تندرست ہو، کیوں کہ زندگی کی بہار تندرستی سے ہے۔ دوسرے اس کے چال چلن اچھّے ہوں، بدمعا ش نہ ہو،شریف لوگ ہوں،تیسر ے یہ کہ لڑکا ہنر مند اور کماؤ ہو کہ کماکر اپنے بیوی اور بچوں کو پال سکے۔مالداری کا کوئی اعتبار نہیں یہ چلتی پھر تی چاندنی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ نکا ح میں کوئی مال دیکھتا ہے کوئی جمال۔ مگر عَلَیکَ بِذَاتِ الدِّینِ ( تم دینداری دیکھو۔ )
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب استحباب النکاح ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث، ۷۱۵، ص ۷۷۲)
اور یہ بھی یاد رکھو کہ تین قسم کے مالوں میں برکت نہیں۔ ایک تو زمین کا پیسہ یعنی زمین یا مکان فروخت کرکے کھاؤ۔ اس میں کبھی برکت نہیں چاہے یا زمین نہ فروخت کرو اور اگر فروخت کرو تو اس کا پیسا زمین ہی میں خرچ کرو۔ (حدیث ) دوسری یہ کہ لڑکی کا پیسا یعنی لڑکی والے جو روپیہ لے کر شادی کرتے ہیں اس میں برکت نہیں اور پیسا لینا حرام ہے کیوں کہ یا تو یہ لڑکی کی قیمت ہے یا رشوت یہ دونوں حرام ہیں۔ تیسرے وہ جہیز ومال جو لڑکی اپنے میکے سے لائے اگر دولہا اس کو گزر اوقات کا ذریعہ بنادے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔ اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرو،داڑھی اور نماز کا مذاق اڑانے والے سب کافر ہوئے۔ ۱؎ یہ بھی یاد رکھو کہ مولویوں اور دینداروں کی بیویاں فیشن والوں کی بیویوں سے زِیادہ آرام میں رہتی ہیں۔ اوّل تو اس لئے کہ دیندار آدمی خدا تعالیٰ کے خوف سے بیوی بچوں کا حق پہچانتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دیندار آدمی کی نگاہ صرف بیوی ہی پر ہوتی ہے اور آزادلوگوں کی ٹمپریری(یعنی عارضی) بیویاں بہت سی ہوتی ہیں۔ جن کا دن رات تجربہ ہورہا ہے۔ وہ پھول کو سونگھتا اورہر باغ میں جاتا ہے۔ کچھ دنوں تو اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے پھر آنکھ پھیر لیتا ہے۔ منگنی کی رسموں کی خرابیاں بیان سے باہر ہیں۔ بہت سے لوگ سودی قرض سے یا مانگ کر زیور چڑھادیتے ہیں۔شادی کے بعد پھر دلہن سے وہ زیور حیلے بہانے سے لے کر واپس کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آپس میں خوب لڑائیاں ہوتی ہیں اور شروع کی وہ لڑائی ایسی ہوتی ہے کہ پھر ختم نہیں ہوتی اور کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ منگنی ٹوٹ جاتی ہے پھر دلہن والوں سے زیور واپس مانگا جاتاہے اُدھر سے انکار ہوتا ہے۔ جس پر مقدمہ بازی کی نوبت آتی ہے۔اسی طرح منگنی کے وقت دعوت اور فضول خرچی کا حال ہے اگر منگنی چھوٹ گئی تو مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمارا خرچہ واپس کردو اور دونوں فریق خوب لڑتے ہیں۔ بعض دفعہ منگنی میں اتنا خرچ ہوجاتا ہے کہ فریقین میں شادی کے خرچ کی ہمّت نہیں رہتی۔ پھر کبھی کبھی کپڑوں کے جوڑے اور مٹھائیوں کے خرچ لڑکے والوں کا دیوالیہ نکال دیتا ہے اور شادی کے وقت غور ہوتا ہے کہ دلہن والوں نے اس قدر جہیز اور زیور وغیرہ دیا نہیں جو میرا خرچ کرا چکا ہے، اگر لڑکی والے نے اتنا نہ دیا تو لڑکی کی جان سولی پر رہتی ہے کہ تیرے باپ نے ہمارا لے لے کر کھایا، دیا کیا؟اور اگر خوب دیا تو کہتے ہیں کہ کیا دیا !ہم سے بھی تو خوب خرچ کرالیا۔ باقی گانے بجانے کی رسموں میں وہ خرابیاں ہیں جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ مائیاں اور اُبٹن کی رسمیں بہت سارے حرام کاموں کا مجموعہ ہیں اس لیے ان تمام کو بند کرنا ضَروری ہے۔
۱؎ : کفریہ کلمات کے بارے میں جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی کے رسالے ''۲۸ کلماتِ کفر''کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔
0 Comments: