عام مسلمانوں میں یہ مشہور ہے کہ'' لڑکے کو دو سال ماں اپنا دودھ پلائے اورلڑکی کو سوا دو سال ''یہ بالکل غلط ہے۔ مسلمانوں میں یہ طریقہ ہے کہ بچپن میں اپنی اولاد کے اخلاق و آداب کا خیال نہیں رکھتے۔ غریب لوگ تو اپنے بچّوں کو آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کی اجازت دیتے ہیں اور ان کی تعلیم کا زمانہ خراب صحبتوں اور کھیل کود میں برباد کردیتے ہیں، وہ بچّے یا تو جوان ہوکر بھیک مانگتے پھرتے ہیں یا ذلّت کی نوکریاں کرتے ہیں یا چور ڈاکواور بدمعاش بن کر اپنی زندگی جیل خانہ میں گزار دیتے ہیں اور مال دار لوگ اپنے بچّوں کو شروع سے شوقین مزاج بناتے ہیں، انگریزی بال رکھانا، فضول خرچ کرنا سکھاتے ہیں۔ہروقت بوٹ وسوٹ وغیرہ پہناتے ہیں، پھر اپنے ساتھ سنیما اور ناچ کی مجلسوں میں انہیں شریک کرتے ہیں، جب یہ نونہال کچھ ہوش سنبھالتا ہے تو اس کو کلمہ تک نہ سکھایا، کالج یا سکول میں ڈال دیا۔زِیادہ خرچ کرنا،فیشن ایبل بننا سکھایا گیا۔ خراب صحبتوں سے صحت اور مذہب دونوں برباد ہوگئے اب جب نونہال کالج سے باہر آئے تو اگر خاطر خواہ نوکری مل گئی تو صاحبِ بہادر بن گئے کہ نہ ماں کا ادب جانیں نہ باپ کو پہچانیں، نہ بیویوں کے حقوق کی خبر، نہ اولاد کی پرورش سے واقف، ان کے ذِہن میں اعلیٰ ترقی یہ آئی کہ ہم کو لوگ انگریز سمجھیں بھلا اپنے کو دوسری قوم میں فنا کردینا بھی کوئی ترقی ہے ! اگر کوئی معقول جگہ نہ ملی تو ان بیچاروں کو بہت مصیبت پڑتی ہے کیوں کہ کالج میں خرچ کرنا سیکھا۔ کمانا نہ سیکھا، کھلانا نہ سیکھا، اپنا کا م نوکروں سے کروانا سیکھا، خود کرنا نہ سیکھا ؎
نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کماکر
وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر
اب یہ لوگ کالج کی سی زندگی گزارنے کیلئے شریف بدمعاش ہوجاتے ہیں یا جعلی نوٹ بناکر زندگی جیل میں گزارتے ہیں یا ڈاکو بدمعاش بنتے ہیں (اکثر ڈاکو تعلیم یافتہ، گریجویٹ پائے گئے ) یہ وہی لوگ ہیں۔
0 Comments: