جب یہ خرابیاں مسلمانوں کو بتائی جاتی ہیں تو ان کو چند قسم کے عذر ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ صاحب ہم کیا کریں، ہماری عورتیں اورلڑکے نہیں مانتے، ہم ان کی وجہ سے مجبور ہیں۔ یہ عذر محض بیکار ہے، حقیقت یہ ہے کہ آدھی مرضی خود مردوں کی بھی ہوتی ہے۔ تب ان کی عورتیں اور لڑکے اشارہ یا نرمی پاکر ضد کرتے ہیں۔ ورنہ ممکن نہیں کہ ہما رے گھر میں ہماری مرضی کے بغیر کوئی کام ہوجائے۔ اگر ہانڈی میں نمک زیادہ ہوجائے تو عورت بے چاری کی شامت اور اگر اولاد یا بیوی کسی وقت نماز نہ پڑھے تو بالکل پرواہ ہی نہیں، جان لو کہ حق تعالیٰ نیّت سے خبردار ہے بعض بزرگوں(یعنی بوڑھے لوگوں) کو دیکھا گیا ہے کہ آگے آگے فرزند کی بارات مع ناچ باجے کے جارہی ہے اور پیچھے پیچھے یہ حضرت لاحول پڑھتے چلے جارہے ہیں او ر کہتے ہیں کیا کریں بچّہ نہیں مانتا، یقینا یہ لاحول خوشی کی ہے۔ حضرت سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہنے کیا خوب فرمایا
کہ لاحول گویند شادی کناں
(یعنی : لاحول کہتے ہیں خوش ہو جاتے ہیں ۔)
دوسرے پنجاب میں یہ قانون ہے کہ ماں باپ کے ما ل سے لڑکی میراث نہیں پاتی لکھ پتی باپ کے بعد سارا مال، جائداد، مکانات سب کچھ لڑکے کا ہے، لڑکی ایک پائی کی حقدار نہیں۔ بہانہ یہ کرتے ہیں کہ ہم لڑکی کی میراث کے بدلے اس کی شادی دھوم دھام سے کردیتے ہیں۔ سبحان اللہ عزوجل! اپنے نام کیلئے روپیہ حرام کاموں میں برباد کرو اور لڑکی کے حصّے سے کاٹو۔ کیوں جناب! آپ جو لڑکے کی شادی او ر اس کی پڑھائی لکھائی پر جو خرچہ کرتے ہیں۔ بی۔ اے، ایم۔ اے، کی ڈگری دلواتے ہیں کیا وہ بھی فرزند کے میراث سے کاٹتے ہیں ہرگز نہیں۔ پھر یہ عذر کیسا ؟ یہ محض دھوکہ دینا ہے۔
تیسرے یہ کہ ہم کو علمائے کرام نے یہ باتیں بتائی ہی نہیں۔ اس لئے ہم لوگ اس سے غافل رہے، اب جب کہ رسوم چل پڑیں لہٰذا ان کا بند ہونا مشکل ہے۔ لیکن یہ بہانہ بھی غلط ہے علمائے اہل سنّت نے اس کے متعلق کتابیں لکھیں۔ مسلمانوں نے قبول نہ کیا چنانچہ امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہ، نے ایک کتاب لکھی جَلِیُّ الصَّوْت جس میں صاف صاف فرمایا کہ میّت کی روٹی امیروں کیلئے کھانا حرام ہے صرف غریب لوگ کھائیں ایک کتاب لکھی ھَادِی النَّاس اِلیٰ اَحکامِ الاَعْرَاسِ جس میں شادی بیاہ کی مروجہ رسموں کی برائیاں بتائیں اور شرعی رسمیں بیان فرمائیں، ایک کتاب لکھی مروّجہ النجاء جس میں ثابت فرمایا کہ سوا چند موقعوں کے باقی جگہ عورت کو گھر سے نکلنا حرام ہے۔اور بھی علمائے اہلسنت نے ان باتوں کے متعلق کتابیں لکھیں۔ افسوس ! کہ اپنا قصور علماء کے سر لگاتے ہو۔
چوتھا بہانہ یہ کرتے ہیں کہ اگر شادی بیاہوں میں یہ رسمیں نہ ہوں تو ہمارے گھر لوگ جمع نہ ہوں گے جس سے شادی میں رونق نہ ہوگی۔ مگر یہ فقط وہم ودھوکا ہے حق یہ ہے کہ شادی و نکاح میں شرکت اگر سنّت کی نیّت سے ہوتو عبادت ہے اب تو ہمارے نکاحوں میں لوگ تماشائی بن کر یا کھانے کیلئے آتے ہیں۔ جس کا کچھ ثواب نہیں پاتے اور جب ان شاء اللہ عزوجل! عبادت کی نیت سے آیاکریں گے تو جیسے لوگ عید کی نماز کیلئے عید گاہ میں جاتے ہیں تب ان شاء اللہ عزوجل! رونق ہی کچھ اور ہوگی اور بہار ہی کچھ اور آئے گی۔ ابھی یہاں گجرات میں بھائی فضل الٰہی صاحب کے گھر ایسی ہی سیدھی سادی شادی ہوئی۔ اس قدر مجمع تھا کہ میں نے آج تک کسی بارات میں ایسا مجمع نہ دیکھا، بہت سے مسلمان تو وضو کرکے درودشریف پڑھتے ہوئے اس سارے جلوس میں شریک ہوئے۔
پانچواں بہانہ یہ کرتے ہیں کہ لوگ ہم کو طعنہ کریں گے کہ خرچ کم کر نے کیلئے یہ رسمیں بند کی ہیں اور بعض لوگ یہ کہیں گے کہ یہ ماتم کی مجلس ہے یہاں ناچ نہیں باجہ نہیں۔ گویا تیجہ پڑھا جارہا ہے، یہ عذر بھی بیکار ہے۔ ایک سنّت کو زندہ کرنے میں سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ کیا یہ ثواب مفت میں مل جائے گا ؟لوگوں کے طعنے عوام کا مذاق، اوّل اوّل برداشت کرنے پڑیں گے اور دوستو! اب بھی لوگ طعنے دینے سے کب با ز آتے ہیں۔ کوئی کھانے کا مذاق اّڑاتا ہے کوئی جہیز کا کوئی اورطرح کی شکایت کرتا ہے غرضیکہ لوگوں کے طعنے سے کوئی کسی وقت نہیں بچ سکتا۔ لوگوں نے تو خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کو عیب لگائے اور طعنے دیئے تم ان کی زبان سے کس طرح بچ سکتے ہو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ پہلے تو کچھ مشکل پڑے گی۔ مگر بعد میں ان شاء اللہ عزوجل! وہ ہی طعنے دینے والے لوگ تم کو دعائیں دیں گے۔ اور غریب و غرباء کی مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔اللہ عزوجل! اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی راضی ہوں گے اور مسلمان بھی، مضبوطی سے قائم رہنا شرط ہے۔
0 Comments: